اہلِ عرب اور اسلام کا تصورِ تاریخ
کیا اہلِ عرب جانتے ہیں کہ اللہ نے اُن پر ایک ذمہ داری ڈالی ہے اور اگر انہوں نے یہ ذمہ داری ادا نہ کی تو اس کے نتائج آخرت ہی میں نہیں، اسی دنیا میں سامنے آنے ہیں؟
مطالعہ تاریخ (Historiography) کے دو منہج ہمارے سامنے ہیں۔ ایک مذہبی اور دوسرا غیرمذہبی۔ غیرمذہبی منہج میں ماضی کے واقعات کا، اس پہلو سے جائزہ لیا جاتا ہے کہ وہ کون سے سماجی، معاشی، مذہبی یا ماحولیاتی عوامل تھے جو بڑے واقعات کا سبب بنے۔ تاریخ کا رخ تبدیل کرنے میں جن اقوام نے قائدانہ کردار ادا کیا، ان کی خصوصیات کیا تھیں۔ یوں ان سب کو ملا کر تبدیلی کا ایک پیٹرن دریافت کیا جاتا ہے۔ پھر اس کا اطلاق کرتے ہوئے، مستقبل کے واقعات کے بارے میں پیش گوئی کی جاتی ہے۔ یہ تمام تر قیاس ہے۔
دوسرا تصورِ تاریخ ما بعدالطبیعیاتی یا مذہبی ہے۔ اسی کو ہم مکافاتِ عمل جیسے عناوین کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ مذہب کا دعویٰ ہے کہ اس کا منبعِ علم وحی ہے جو قیاسی نہیں، یقینی ہے۔ یوں اس کا تصورِ تاریخ، مستقبل کے باب میں جو کچھ کہتا ہے، وہ یقینی ہے۔ اُس نے ہوکر رہنا ہے‘ جیسے قیامت ہے۔ قرآن مجید قیامت کا ذکر کئی مقامات پرماضی کے صیغے میں کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کا واقع ہونا اتنا یقینی ہے کہ گویا یہ ہوچکا۔ قرآن مجید کا تصورِ تاریخ حضرت آدمؑ سے اس زمین پر زندگی کے خاتمے تک محیط ہے۔ قدیم صحائف میں بھی یہی تصورِ تاریخ بیان ہوا ہے۔ یہ تصور کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے انسان کو سزا کے طور پر نہیں، آزمائش کے لیے اس زمین پر بھیجا۔ ایک روز یہ عرصۂ آزمائش تمام ہو جائے گا۔ اس کے بعد قیامت برپا ہوگی اور سب انسانوں کو یہ حساب دینا ہوگا کہ اس دورِ آزمائش میں کیسے رہے۔ اس کی بنیاد پر ان کیلئے زندگی گزارنے کے مستقل ٹھکانے کا فیصلہ ہوگا۔ یہ جنت ہو سکتا ہے اور جہنم بھی۔ یہ سب کیسے ہوگا اور انسان کو اس بارے میں کیسے متنبہ رکھا جائے گا، اسلام کا تصورِ تاریخ اسی کے گرد گھوم رہا ہے۔ اس تصورِ تاریخ کے تحت چونکہ ہم تاریخ کے آخری دور میں کھڑے ہیں، اس لیے اس کا بڑا حصہ اب ماضی بن چکا، جسے قرآن مجید نے بیان کر دیا۔
تاریخ کے پہلے دور میں، جب انسان قبائل کی صورت میں رہتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں، انہی میں سے ایک فرد کو اپنا نبی بنایا، جس نے انہیں اس جانب متوجہ کیاکہ یہ زندگی ایک آزمائش ہے اور ایک دن آنے والا ہے جب انسان خدا کے حضور میں پیش ہوں گے۔ چونکہ ابلاغی ذرائع محدود تھے، اس لیے ہر قوم کی طرف ایک پیغمبر بھیجا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے نبیوں کو داعی بناکر بھیجا، وہاں دنیا میں وقتاًفوقتاً ایک قوم کا انتخاب کیا اور اس پر اپنی جزاوسزا کا اسی طرح اطلاق کیا جس طرح وہ روزِ قیامت پوری انسانیت کے لیے کرے گا۔ اس کا طریقہ یہ رہاکہ رسول کے ذریعے اس قوم پر اتمامِ حجت کردیا جاتا ہے۔ اگر قوم ایمان لے آئے تو اسے دنیا میں انعام واکرام سے نوازا جاتا ہے جیسے آخرت میں نوازا جائے گا۔ انکار کردے تو اس دنیا میں عذاب دیا جاتا ہے جیسے آخرت میں دیا جائے گا۔ اس جزاوسزا کا پہلا ظہور حضرت نوح کی قوم کے لیے ہوا۔ آخری بار سیدنا محمدﷺ کی بعثت کے ساتھ ہوا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے مقدمے کے حق میں ایک ناقابلِ تردید دلیل فراہم کر دیتا ہے۔
تاریخ کے دوسرے دورکا آغاز سیدنا ابراہیمؑ سے ہوا۔ اب اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ شہادتِ حق کے منصب پر ان کی ذریت کو اجتماعی حیثیت میں فائز کیا جائے۔ پہلے ان کی ایک بیٹے حضرت اسحاق اور ان کی اولاد کا انتخاب کیا گیا۔ حضرت یعقوبؑ، حضرت اسحاقؑ کے بیٹے تھے جنہیں اسرائیل بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی اولاد بنی اسرائیل کو اللہ نے دنیا کی امامت سونپ دی۔
بنی اسرائیل کو امامت عطا ہوئی اور اللہ نے اعلان کیاکہ اگر انہوں نے اللہ کے ساتھ اپنا وعدہ پورا کیا تو اللہ بھی اپنا وعدہ پورا کرے گا اور انہیں سرفرازی دیے رکھے گا۔ اگر انہوں نے انحراف کیا تو اللہ اپنے قانون کے مطابق، انہیں عذاب دے گا۔ تاریخ یہ ہے کہ یہود نے وعدہ خلافی کی، حتیٰ کہ بنی اسرائیل کے رسول سیدنا مسیحؑ کا بھی انکار کیا۔ اللہ نے انہیں معزول کیا اور انہی میں سے ایک نئی امت کی تاسیس ہوئی جو حضرت مسیحؑ کو ماننے والوں کی تھی۔ اللہ نے قرآن مجید میں فیصلہ سنا دیا کہ بطور سزا، یہود قیامت تک حضرت مسیحؑ کو ماننے والوں کے تابع رہیں گے۔
یہود کے بعد نصاریٰ بھی جب اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے تو اللہ نے یہ ذمہ داری ذریتِ ابراہیمؑ کی دوسری شاخ بنی اسماعیل کو سونپ دی۔ رسالت مآبﷺ کی ذات والا صفات سے اس کی تاسیس ہوئی۔ اللہ نے قرآن مجید میں بنی اسماعیل کو بتا دیا کہ اللہ نے بحیثیتِ قوم تمہارا انتخاب کیا ہے۔ رسول نے تم پر اپنی شہادت دے دی اور اب تم نے ساری دنیا پر اس دین کی شہادت دینی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتا دیاکہ تمہارے لیے بھی وہی قانون ہے جو بنی اسرائیل کے لیے تھا۔ اگر خدا کے ساتھ وعدہ پورا کرو گے تو سرفرازی ملے گی۔ نہیں کرو گے تو ذلت کا عذاب مسلط کردیا جائے گا۔ قرآن مجید کی سورۃ التّین میں تین مقامات کو گواہ بناکر اس تاریخ کو سمیٹ دیاگیا۔
زیتون وہ پہاڑ ہے، جہاں سیدنا عیسیٰؑ کے اٹھائے جانے کے بعد، ان کے منکرین پر قیامت تک کے لیے عذاب کا فیصلہ سنایا گیا اور حضرت مسیحؑ کے ماننے والوں کی نئی امت کا آغاز ہوا۔ تین اس پر واقع ایک گاؤں ہے۔ طور وہ پہاڑ ہے جہاں سے بنی اسرائیل نے بطور امت اپنی زندگی شروع کی۔ شہرِ امین مکہ ہے جہاں سے نبیﷺ نے اپنی دعوت کا آغاز کیا اور اللہ تعالیٰ نے بیت الحرام کی تولیت ان کے حوالے کی۔
ختمِ نبوت کے بعد، بنی اسماعیل، یعنی اہلِ عرب کو خدا کی طرف سے یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ زمین پر شہادتِ حق دیں جس طرح رسول اللہ نے ان پر شہادت دی۔ اس بیت اللہ کو توحید کا مرکز بنائے رکھیں اور جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کے علاوہ کسی دین کو داخل نہ ہونے دیں۔ پہلی بات قرآن نے بیان کی اوردوسری بات، اسی کی شرح میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمائی۔ یہ اہل عرب کی دینی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ اس سے انحراف کریں گے تو اس کا انجام ذلت ہوگا۔
جزیرہ نمائے عرب سے کیا مراد ہے، اس باب میں اہلِ علم نے اختلاف کیا ہے۔ اکثریت کے مطابق، یہ آج کے سعودی عرب، عمان، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر اور بحرین پر مشتمل ہے۔ یمن سیاسی اعتبار سے کبھی جزیرہ نمائے عرب کا حصہ نہیں رہا۔ اب غیرمسلم نہ تو یہاں مستقل آباد ہو سکتے ہیں اور نہ اپنا عبادت خانہ قائم کر سکتے ہیں۔
مذہبی تاریخ بتاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی دعوت کے لیے ذریتِ ابراہیم کا انتخاب کیا تو اس زمین پر دو علاقوں جزیرہ نمائے عرب اور کنعان کو مراکزِ توحید کے طور پر منتخب کر لیا۔ واقعہ معراج میں یہ پیش گوئی چھپی تھی کہ عرب کے بعد، یروشلم پر بھی توحید کا پرچم لہرانا ہے اور یہ سیدنا عمرؓ کے دور میں لہرا دیا گیا۔
آج عرب امارات میں مندر بن چکا۔ غیر مسلموں کو عرب میں مستقل سکونت کا حق مل چکا؟ کیا اہلِ عرب قرآن مجید نہیں پڑھتے؟ کیا انہیں معلوم نہیں کہ ان پر شہادتِ حق کی ذمہ داری خدا کی طرف سے ڈالی گئی ہے؟ کیا وہ جانتے ہیں کہ اس ذمہ داری کو ادا نہ کرنے کا کیا نتیجہ، اسی دنیا میں سامنے آئے گا؟