کورونا وائرس کے باعث قوتِ شامہ یعنی سونگھنے کی حس کا ختم ہو جانا اس تجربے سے بالکل مختلف ہے جو عام طور پر سردی یا فلو کے باعث ہوتا ہے۔
یہ بات ماہرین نے اس وبا سے متاثر ہونے والے افراد پر کی گئی ایک تحقیق کے بعد کہی ہے۔ جب کووڈ 19 کے مریضوں میں سونگھنے کی حس ختم ہوتی ہے تو یہ اچانک اور شدید نوعیت کی ہوتی ہے۔
اس حالت میں ان کی ناک بند نہیں ہوتی یا اس میں کسی قسم کی رطوبت ہوتی ہے نہ ہی ناک بہتی ہے۔ کورونا وائرس کے زیادہ تر متاثرین آرام سے سانس لے سکتے ہیں۔
ایک اور چیز جو ان افراد کو منفرد کر دیتی ہے وہ ہے ان میں ذائقے کی حس کا ختم ہو جانا ہے۔
جریدیے رینالوجی میں شائع ہونے والے مطالعے میں محققین کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ چونکہ ان افراد میں سونگھنے کی حس متاثر ہوئی تو چکھنے کی حس بھی متاثر ہوئی۔ کورونا وائرس کے مریض جن میں سونگھنے اور چکھنے کی حس متاثر ہوئی وہ کڑوے اور میٹھے کا فرق بھی محسوس کرنے کے قابل نہیں رہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا شاید اس لیے ہے کہ یہ وائرس براہ راست اعصابی نظام کے ان خلیوں کو متاثر کرتے ہیں جن کا تعلق چکھنے اور سونگھنے سے ہوتا ہے۔
کورونا وائرس کی علامات:
- تیز بخار
- لگاتار کھانسی
- چکھنے اور سونگھنے کی حس کا ختم ہو جانا
کسی بھی شخص میں اگر یہ علامات ظاہر ہوں تو اسے خود کو الگ تھلگ کر دینا چاہیے اور ایک سویب ٹیسٹ کا انتظام کرنا چاہیے تاجہ اس میں وائرس کی موجودگی کی تصدیق کی جا سکے۔
قوت شامہ پر تحقیق
تحقیق کی سربراہی کرنے والے ایسٹ اینگلیا یونیورسٹی کے پروفیسر کارل فلپوٹ نے 30 رضاکاروں کے سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت کا تجزیہ کیا۔ ان میں 10 افراد کووڈ 19 سے متاثر تھے، 10 شدید سردی اور 10 افراد صحت مند تھے اور انھیں کسی قسم کی سردی اور فلو نہیں تھا۔
کورونا کے مریضوں میں قوت شامہ یعنی سونگھنے کی حس بہت واضح انداز میں متاثر ہوئی تھی۔ وہ بو کو پہچاننے میں کامیاب نہیں رہے تھے جبکہ انھیں میٹھے اور کڑوے ذائقے کا فرق بھی محسوس نہیں ہوا۔
پروفیسر فلپوٹ کے مطابق ’اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خاصیت کورونا وائرس کو سانس کے دیگر وائرس سے مختلف کرتی ہے۔‘
ان کے بقول ’یہ صورتحال کافی حوصلہ افزا ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ سونگھنے اور چکھنے کی حس کو کووڈ 19 کے مریضوں اور عام سردی اور فلو کے مریضوں کی پہچان کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ لوگ خود بھی گھروں پر اپنی قوت شامہ کو پرکھ سکتے ہیں جس کے لیے وہ کافی، لہسن، مالٹے یا لیموں جیسے چیزوں کو سونگھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں۔‘
تاہم انھوں نے زور دیا کہ اگر کسی کو شبہ ہے کہ اسے کورونا وائرس ہے تو اس کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کرنا ضروری ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے زیادہ تر افراد میں سونگھنے اور چکھنے کی حس کچھ ہفتوں میں واپس آ گئی تھی۔
پروفیسر اینڈریو لین امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی میں ناک اور سائنس کے امراض کے ماہر ہیں۔ وہ اور ان کی ٹیم وائرس سے متاثرہ افراد کے ناک کے پچھلے حصے سے ٹشو کے نمونے حاصل کر کے اس بات ک سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قوت شامہ کے متاثر ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔
انھوں نے اپنے نتائج یوروپیئن ریسپائریٹری جریدے میں شائع کیے۔ انھیں معلوم ہوا کہ ناک میں جو مقام سونگھنے کا کام کرتا ہے وہاں ایک انزائم بہت زیادہ مقدار میں پایا گیا۔
یہ انزائم جسے ACE-2 (angiotensin converting enzyme II کا نام دیا گیا ہے کورونا وائرس کے جسم میں داخلے کا مقام قرار دیا گیا ہے جہاں سے یہ جسم کے خلیوں میں شامل ہوتا ہے اور انفیکشن کا باعث بنتا ہے۔
ناک جسم کے ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں سے سارس- کوو 2 ( Sars-CoV-2) نامی وائرس جسم میں داخل ہوتا ہے اور کووڈ19 کا سبب بنتا ہے۔
پروفیسر لین کا کہنا ہے کہ ’ہم لیبارٹریز میں مزید تجربات کر رہے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ کیا واقعی وائرس ان ہی خلیوں کو استعمال کرتے ہوئے جسم میں انفیکشن پھیلاتا ہے۔‘
’اگرواقعی ایسا ہی ہے تو شاید ہم انفیکشن کو قابو کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اینٹی وائرل علاج براہ راست کیا جا سکے گا۔ ’