پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر پنوعاقل کے قریب ایک ہی خاندان کے 11 افراد کو گلے کاٹ کر قتل کیا گیا ہے اور پولیس نے اسی خاندان کے پانچ افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
یہ واقعہ سکھر ضلع کی تحصیل پنوعاقل کے گاؤں محمد حسن انڈہڑ میں پیش آیا ہے۔ اگرچہ واقعے کی ایف آئی آر اب تک درج نہیں ہوئی تاہم پولیس کے مطابق تفتیش جاری ہے۔
ایس ایس پی سکھر عرفان سموں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ واقعہ رات کے کسی پہر پیش آیا اور اگلے روز متاثرہ خاندان کے قریب رہنے والوں نے گھروں میں خاموشی دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی تھی۔
عرفان سموں نے بتایا: ’پولیس پہنچی تو گھر کے اندر تین چارپائیوں پر نو لاشیں موجود تھیں۔ ایک لاش صحن میں چارپائی پر پڑی تھی جبکہ بہو کی لاش کمرے میں پڑی تھی۔ گھر کا سربراہ چار بیٹوں سمیت فرار تھا۔‘
ہلاک ہونے والوں کی شناخت 42 سالہ رقیہ زوجہ وہاب اللہ انڈہڑ، 18 سالہ مسمات اقرا ولد وہاب اللہ انڈہڑ، آٹھ سالہ اسرا ولد وہاب اللہ انڈہڑ، چھ سالہ ثریا ولد وہاب اللہ، پانچ سالہ حاجایانی ولد وہاب اللہ، 19 سالہ مسمات نسیمہ زوجہ حبیب اللہ انڈہڑ، تین سالہ نازیہ ولد حبیب اللہ، ایک سالہ علی شیر ولد حبیب اللہ، چار سالہ محمود اسد، تین سالہ محمود احسن اور ایک سالہ بچہ شامل ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ بظاہر لگتا ہے کہ قتل سے پہلے خاندان کے افراد کو کوئی نشہ آور چیز دی گئی جس کے بعد ان کو گلے کاٹ کر ہلاک کیا گیا۔
تاہم اس بارے میں مصدقہ معلومات پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ہی حاصل ہو سکیں گی۔
پولیس کے مطابق انھیں ایک خنجر ملا ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہی آلہ قتل تھا۔
ایس ایس پی عرفان سموں کے مطابق جس وقت پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تو گھرانے کے سربراہ عبدالوہاب انڈہڑ اور ان کے چار بیٹے وہاں موجود نہیں تھے تاہم پولیس اب ان سے تفتیش کر رہی ہے۔
پولیس کے مطابق عبدالوہاب کے کُل 13 بہن بھائی ہیں لیکن وہ ان سے علیحدہ اپنے خاندان کے ساتھ محمد حسن انڈہڑ میں رہتے تھے۔ پولیس کے مطابق ان کی اپنے دیگر خاندان سے کوئی ناراضگی تھی اور وہ اسی لیے ان سے دور رہتے تھے۔
جس گاؤں میں ان کا گھر ہے وہاں صرف پانچ خاندان بستے ہیں۔
پولیس کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق عبدالوہاب کسی ذہنی مرض میں بھی مبتلا رہے ہیں اور حیدرآباد میں قائم نفسیاتی ہسپتال میں ان کا علاج بھی ہوا ہے۔
ایس ایس پی عرفان سموں کے مطابق اس وقت واقعے کے حوالے سے حتمی طور پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا اور مزید تفتیش کے بعد ہی اصل صورتحال سامنے آئے گی۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور آئی جی سندھ مشتاق مہر نے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے اور پولیس حکام سے تفصیلات طلب کر لی ہیں۔