Site icon DUNYA PAKISTAN

عمران خان کا کامران خان کو انٹرویو: سعودی عرب کے ساتھ کشیدگی کی افواہوں کی تردید، وزیراعظم کہتے ہیں پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں

Share

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسرائیل کو اُس وقت تک تسلیم نہیں کر سکتے جب تک فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں ملتا۔ ان کے مطابق سعودی عرب کے ساتھ خراب تعلقات کی خبریں غلط ہیں جبکہ پاکستان کی ترقی اور مستقبل چین کے ساتھ جڑی ہیں۔

انھوں نے یہ باتیں پاکستان کے نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے اینکر پرسن کامران خان کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہیں۔

انٹرویو نشر ہونے کے بعد پاکستان کے سوشل میڈیا پر #PMImranKhanonDunyaNews سمیت کئی ٹرینڈ چل پڑے اور صارفین دھڑا دھڑ اس انٹرویو پر اپنا ردعمل دینے لگے۔

کسی نے عمران خان کے اسرائیل پر مؤقف کی تعریف کی تو کوئی پروگرام کے میزبان کامران خان کے سوالوں کے انتخاب کی داد دیتا نظر آیا۔

’اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتے‘

اس سوال پر کہ متحدہ عرب امارات کی اسرائیل کے بارے میں پالیسی کو پاکستان کیسے دیکھ رہا ہے، وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس معاملے پر ہمارا موقف بڑا واضح ہے۔ ہمارا موقف قائداعظم نے 1948 میں واضح کر دیا تھا کہ ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ جب تک فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں ملتا۔ ان کی انصاف کے مطابق آبادکاری نہیں ہوتی جو کہ فلسطینوں کا دو قومی نظریہ تھا کہ ان کو ان کی پوری ریاست ملے۔۔۔’

وزیر اعظم عمران خان نے مزید کہا کہ ‘اگر ہم اسے تسلیم کر لیتے ہیں تو پھر ایسی ہی صورتحال کشمیر کی بھی ہے تو ہمیں تو اسے بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ لہذا پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتا۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘جب ہم اسرائیل اور فلسطین کی بات کرتے ہیں تو کیا ہم خدا کو جواب دیں گے کہ ہم ان لوگوں کو جن پر ہر قسم کی زیادتیاں ہوئی ہیں، جن کے حقوق سلب کیے گئے ہیں، ان کو تنہا چھوڑ سکتے ہیں، اس بات کو میرا ضمیر تو کبھی بھی تسلیم نہیں کرتا۔’

’سعودی عرب سے کوئی اختلافات نہیں‘

انٹرویو میں وزیراعظم عمران نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ کوئی اختلافات نہیں ہیں اور ان کے ساتھ مضبوط برادرانہ تعلقات قائم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام ملک اپنے خارجہ پالیسی کے اعتبار سے فیصلہ کرتے ہیں۔ سعودی عرب کی بھی اپنی پالیسی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ جو کشمیر کے معاملے پر کہا گیا کہ اس پر او آئی سی کا اجلاس ہونا چاہیے تھا، وہ ان ملکوں کی اپنی اپنی خارجہ پالیسی ہے وہ اپنے فیصلے کریں، پاکستان کا ایک اپنا موقف ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘سعودی عرب پاکستان کا اہم اتحادی ہے اور اس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ اور اس بار بھی مشکل ترین وقت میں ہماری مدد کی۔ سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات بگڑنے کی افواہیں بالکل غلط ہیں۔ ہمارے سعودی عرب سے بہترین تعلقات ہیں، ہم سعودی عرب کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔’

خیال رہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان کشیدہ تعلقات کے پس منظر میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سعودی عرب کے دورے پر ریاض میں ہیں۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ‘کشیدگی’ کم کرنے کے لیے سعودی عرب کے دورے پر گئے ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی خبریں اس وقت سامنے آئی تھیں جب پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پانچ اگست کو مسئلہ کشمیر سے متعلق ایک ٹی وی انٹرویو میں سعودی عرب پر شدید تنقید کی تھی۔

اگرچہ سعودی عرب نے پاکستانی وزیر خارجہ کے بیان پر باضابطہ طور پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن میڈیا کے مختلف اداروں میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کے بارے میں خبریں شائع ہوئی ہیں۔

پیر کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سرکاری دورے پر سعودی عرب پہنچے جہاں انھوں نے چیف آف جنرل سٹاف فیاض بن حمد الرویلی اور کمانڈر جوئنٹ فورسز لیفٹینینٹ جنرل فاہد بن ترکی السعود سے ملاقات کی ہے جس دوران ملٹری تعلقات اور تربیت پر بات چیت ہوئی ہے۔

مسلم دنیا میں پاکستان کا کردار

وزیر اعظم عمران خان نے مسلم دنیا میں پاکستان کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘پاکستان کا کردار مسلم دنیا کو تقسیم نہیں اکٹھا کرنا ہے جو کہ آسان نہیں ہے کیونکہ سعودی عرب اور ایران کے اپنے اپنے مسائل ہیں۔ سعودی عرب اور ترکی کے مسائل ہیں۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہماری کوشش ہے سب کو ایک ساتھ لے کر چلیں۔’

چین کے ساتھ تعلقات

چین کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘واضح ہو جانا چاہیے کہ ہمارا مستقبل اور ترقی چین کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘چین پاکستان کا بہت دیرینہ دوست ہے اور اس نے ہر اچھے برے وقت میں پاکستان کا عالمی سطح پر دفاع کیا ہے۔’

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ‘چین کی معیشت دنیا میں سب سے بڑھتی ہوئی معیشت ہے اور یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے، ہم چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کر رہے ہیں۔ چین کو بھی پاکستان کی بڑی ضرورت ہے اور چین پاکستان کی اہمیت سے آگاہ ہے۔’

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ‘بد قسمتی سے مغربی ممالک انڈیا کو چین کے خلاف استعمال کر رہے ہیں’۔

انھوں نے بتایا کہ چینی صدر شی جن پنگ نے رواں برس مئی میں پاکستان آنا تھا لیکن کورونا کی وجہ سے دورہ تاخیر کا شکار ہوا۔ ان کے مطابق آئندہ سردیوں میں چینی صدر کا دورہ پاکستان متوقع ہے۔

مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا

وزیر اعظم عمران خان نے عالمی سطح پر پاکستان کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ‘ایک برس پہلے کوئی پاکستان کی بات نہیں کرتا تھا، آج انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کی عالمی حیثیت بہتر ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے کشمیر کا مسئلہ بہتر طور عالمی پر سطح پر اجاگر کیا ہے اور آج انڈیا کے مقابلے میں پاکستانی موقف کو سنا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘آج کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تین مرتبہ اٹھایا گیا ہے، بین الاقوامی میڈیا پر یہ مسئلہ سامنے آیا ہے۔ آج سے پہلے یہ معاملہ اس سطح پر کبھی نہیں گیا تھا۔’

افغان امن عمل اور پاک امریکہ تعلقات

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ‘آج حالات تبدیل ہو چکے ہیں پہلے امریکہ افغانستان میں جنگ جیتنے کے لیے پاکستان کو استعمال کرتا تھا، آج ہم افغانستان میں امن کے عمل میں شراکت دار ہیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘مائیک پومپیو نے شاہ محمود قریشی کو ٹیلی فون کر کے افغان امن عمل میں مدد کو سراہا ہے۔‘

سوشل میڈیا پر ردِ عمل:

صحافی عاصمہ شیرازی نے عمران خان کے انٹرویو پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا: ‘اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتے۔ وزیراعظم کا یہ بیان خوش آئند ہے۔’

شاہ جہاں رانا نامی صارف نے لکھا: ‘اس انٹرویو کے بعد میں پر اعتماد محسوس کر رہا ہوں کہ ہمارے وزیر اعظم کی نظر توانائی، ریلوے اور پی آئی اے سمیت ہر سیکٹر پر ہے۔ انشاہ اللہ وہ اس ملک میں انقلاب لائیں گے۔’

سرفراز شاہ نے لکھا: ‘عمران خان کا اسلامی فلاحی ریاست کا خواب یقینی طور پر پورا ہو گا۔’

جہاں کئی صارفین اس انٹرویو کے گن گاتے نظر آئے وہیں کئی سوشل میڈیا صارفین اس انٹرویو سے مایوس بھی دکھائی دیے۔ ملک نشاط اعظم نے طنز کرتے ہوئے لکھا:’وزیراعظم نے ایک بار پھر عوام کو جھوٹی یقین دہانی کرا دی۔’

جبکہ کاشف علی نے لکھا: ‘بہتر ہوتا اگر عمران خان کے انٹرویو کے لیے کامران خان کی جگہ شاہ زیب خانزادہ ہوتے۔’

Exit mobile version