عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے کہ ضیاالحق نے اپنی عمر تو نواز شریف کو دینے کی دعا کی تھی، لیکن بہاولپور کے واقعے کے بعد نواز شریف کے زمانے میں ضیاالحق کو اتنا یاد نہیں کیا گیا جتنا اس سال عمران خان صاحب کے دور حکومت میں یاد کیا گیا ہے۔ ہم نے وہ کالم اور وہ مضامین پڑھے، اور سوچا کہ ہم بھی توضیاالحق کو جانتے تھے‘ اور اس وقت سے جانتے تھے جب وہ کرنل تھے۔ اس لئے ہم نے سوچا کہ اس حوالے سے کیوں نہ ہم بھی اپنی یادیں تازہ کر لیں۔ یہ 1965 کی جنگ کے بعد کا زمانہ تھا۔ وہ زمانہ جب حبِ وطن کا جذبہ ہر پاکستانی کے دل میں زور شور سے موجیں مار رہا تھا۔ ہم ملتان میں روزنامہ امروز کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر تھے۔ ایک دن ایک صاحب سفید کرتا شلوار پہنے ہمارے پاس آئے اور کرنل ضیاالحق کے نام سے اپنا تعارف کرا یا۔ ان کے ساتھ ایک صاحب اور بھی تھے جن کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ وہ قاضی حامد علی تھے۔ ان کا تعلق فوج کی ایجوکیشن کور سے تھا۔ کرنل ضیاالحق نے کہا کہ کچھ کاغذات ہیں جنہیں وہ چھپوانا چاہتے ہیں لیکن یہ ایسے کاغذات ہیں جن کا علم کسی کو نہیں ہونا چاہئے۔ ہم نے سینہ ٹھونک کر کہا ”آپ فکر ہی نہ کیجئے کرنل صاحب، آپ جیسا چاہیں گے وہی ہو گا۔ یہ پورا پریس آپ کے حکم کے مطابق ہی کام کرے گا‘‘ اور پھر پریس کا ٹریڈل مشین والا حصہ ان کے حوالے کر دیا۔ خاص طور پر یہ انتظام کیا گیا کہ مشین مین اور اس کے اسسٹنٹ لڑکے کے سوا کوئی پرندہ بھی ادھر پر نہ مار سکے۔ کرنل ضیاالحق نے اپنا ایک آدمی بھی وہاں بٹھا دیا تھا۔ وہاں کیا چھپا؟ ہمیں نہیں معلوم اور ہمارے حب وطن کے جذبے نے ہمیں کبھی یہ کھوجنے کی کوشش بھی نہیں کرنے دی۔اس کام میں دو تین ہفتے لگے۔ اس عرصے میں کرنل ضیاالحق اور قاضی حامد علی ہمارے دفتر آتے رہے۔ ہم سے جو بھی ہو سکتی تھی ان کی خدمت کی۔ اس طرح سمجھ لیجئے کہ ان کے ساتھ ہمارے تعلقات ہو گئے۔ قاضی حامد علی بہت پڑھے لکھے آدمی تھے‘ اور سچی با ت یہ ہے کہ ان ملاقاتوں میں ہم نے قاضی صاحب سے بہت کچھ سیکھا۔ بہت بعد میں ہمیں علم ہوا کہ قاضی حامد علی اپنی عارفہ سیدہ زہرا کے والد ہیں۔ ان دنوں عارفہ نے امروز کے لئے ایک مضمون بھی لکھا‘ جو سنڈے ایڈیشن میں شائع ہوا۔ اب جہاں تک کرنل ضیاالحق کا تعلق ہے، وہ صرف کام کی بات ہی کرتے تھے‘ انہیں دوسرے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی‘ لیکن ان چند ہفتوں کی ملاقاتوں نے ہمیں کرنل ضیاالحق کے اتنا قریب کر دیا تھا کہ ہر سال جب فوج کا بڑا کھانا ہوتا تو کرنل ضیاالحق ہم سے فرمائش کرتے کہ اس موقع پر فوجی جوانوں سے خطاب کے لئے کسی مدرسے کے مولانا کی خدمات حاصل کی جائیں۔ ایک سال ہم ایک مدرسہ کے ایک مولانا کو وہاں لے گئے۔ وہاں خوب نعت خوانی ہوئی اور فوجی جوانوں نے پورے خضوع و خشوع کے ساتھ مولانا کی تقریر بھی سنی۔ بعد میں کھانا کھایا گیا۔ دوسرے سال کرنل ضیاالحق نے فرمائش کی تو ہم ایک دوسرے مدرسے کے مولانا کو وہاں لے گئے۔ انہیں یہ پسند نہ آیا اور وہ بڑے برہم ہوئے۔ ان کی برہمی دیکھ کر ہم جلدی سے انہیں کھانے کی طرف لے گئے کہ کہیں فوجی جوان ان کی بات سن نہ لیں۔ یہ چند واقعات ہم نے یہاں اس لئے لکھ دئیے ہیں کہ آپ کو اندازہ ہو جائے کہ ضیاالحق کے ساتھ ہمارے کیسے تعلقات تھے۔ اس کے بعد بھی ان کے ساتھ ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ پھر ضیاالحق ملتان سے کہیں چلے گئے۔ کئی برس بعد ایک بازار میں ان سے ملاقات ہوئی تو ہم نے حسب معمول انہیں کرنل صاحب کہہ کر سلام کیا تو انہوں نے کہا: اب میں بریگیڈیئر ہوں۔ معلوم ہوا کہ وہ اس عرصے میں اردن میں رہے اور انہوں نے فلسطینیوں کے خلاف اس آپریشن میں حصہ لیا جسے آج تک بلیک ستمبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد وہ ترقی کرتے ہی چلے گئے۔ وہ ملتان میں ہی میجر جنرل اور پھر لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر پہنچ گئے‘ اور آخر کار وہ چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر متمکن ہو گئے۔ اس خوشی میں ہم نے ملتان پریس کلب میں انہیں مدعو کیا۔ وہ پریس کلب کے لئے جو تحفہ لائے وہ مولانا مودودی کی کتاب اور علامہ اقبال کی کلیات تھیں۔ ان کے ساتھ ہماری قربت کا یہ عالم تھا کہ راولپنڈی جانے سے پہلے انہوں نے ہمیں اپنا ایک ٹیلی فون نمبر دیا اور کہا: کوئی بھی کام ہو تو رات کو ایک بجے کے بعد مجھے فون کر لینا۔اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ ہماری تاریخ ہے۔ انہوں نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا اور پورے ملک پر مارشل لا مسلط کر دیا گیا۔ ابھی اس مارشل لا کو چند دن ہی ہوئے تھے کہ ملتان کے ایک کارخانے میں ہڑتال کرنے والے مزدوروں پر گولی چلا دی گئی۔ حکم ہوا کہ یہ خبر چھپنے نہ پائے‘ مگر ہم اپنی عادت سے مجبور تھے۔ ہمارے اخبار میں وہ خبر چھپ گئی۔ اس پر ضیاالحق ہم سے اتنے ناراض ہوئے کہ ہمیں ملتان سے نکال کر لاہور بھیج دیا گیا۔ اب وہ ہم سے بات کرنے کو بھی تیار نہیں تھے۔ اس کے بعد مارشل لا کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک چلی۔ الطاف احمد قریشی نے ایک محضر تیار کیا جس میں مارشل اٹھانے اور جمہوریت بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ مطالبہ صحافیوں کی طرف سے تھا۔ اس پر دوسرے چند صحافیوں کے ساتھ ہم نے بھی دستخط کر دیئے۔ اب امروز، مشرق اور پاکستان ٹائمز کے بارہ صحافیوں کے ساتھ ہمیں بھی نوکری سے ہی نکال دیا گیا۔ ضیاالحق کے غصے کا یہ عالم تھا کہ لاہور کے ہوائی اڈے پر نثار عثمانی نے جنرل صاحب سے ہمارے حق میں کوئی بات کر دی۔ اس پر جنرل صاحب کہنے لگے ”ابھی وہ صرف ملازمت سے نکالے گئے ہیں، انہیں تو سولی پر چڑھا دینا چاہئے تھا‘‘۔ خیر، ہمیں تو سولی پر نہیں چڑھایا گیا؛ البتہ تاریخ میں پہلی بار سچ کہنے کی پاداش میں صحافیوں کو کوڑے ضرور مارے گئے۔ انہیں فوجی عدالتوں سے سزائیں دلوائی گئیں۔ یہ سلوک صرف صحافیوں کے ساتھ ہی روا نہیں رکھا گیا، بلکہ کالجوں کے ان اساتذہ کو بھی اپنے شہر سے دور چھوٹے موٹے شہروں اور قصبوں میں پھینک دیا گیا جنہوں نے مارشل کا خلاف آواز اٹھائی۔ ملتان کے استاد صلاح الدین حیدر لاہور کے بدنام زمانہ قلعے کی سیر بھی کر آئے۔ ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہم آج بھی وہ سنتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ تو صرف ایک صلاح الدین حیدر کا قصہ ہے۔ ایسے کتنے ہی صلاح الدین حیدر ہیں جنہوں نے مارشل کے خلاف آواز اٹھائی اور اس کی سزا پائی۔ ہماری تاریخ ذوالفقار علی بھٹو کے ‘عدالتی قتل‘ کو تو یاد رکھتی ہے کہ بلاشبہ وہ بہت ہی بڑا سانحہ تھا‘ ایسا سانحہ جسے ہم اپنی تاریخ کے منہ پر لگنے والا سیاہ دھبہ کہہ سکتے ہیں، لیکن صلاح الدین حیدر جیسے جمہوریت پسند جیالوں کا کہیں ذکر نہیں آتا جنہوں نے ضیاالحق کے مارشل لا میں اپنی موت کو بہت ہی قریب سے دیکھا۔پاکستان کی یہ تاریخ یہاں ہم نے اس لئے یاد دلائی ہے کہ آپ ہر سال ضیاالحق کو یاد کریں تو صرف بھٹو کا عدالتی قتل ہی یاد نہ کریں بلکہ ان جاں بازوں کو بھی نہ بھولیں جنہوں نے جمہوریت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اصل ضیاالحق یہ تھے۔ وہ ضیاالحق جنہوں نے پاکستانی معاشرے کو صدیوں پیچھے دھکیل دیا۔ جنہوں نے کلاشنکوف کلچر اور عسکریت پسندوں کا تحفہ ہمیں دیا۔ انہوں نے جس شدت پسندی اور تنگ نظری کی دلدل میں ہمیں گرایا ہم آج تک اس دلدل میں ہی ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔آج تک ضیاالحق کے سائے نے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا ہے۔