پاکستان

نواز شریف کی ضمانت کے معاملے پر نیب اور حکومت خاموش کیوں ہیں؟

Share

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے وکیل نے انھیں احتساب عدالت کی طرف سے توشہ خانہ کیس میں اشتہاری قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست واپس لے لی ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم کی ضمانت میں توسیع کے بارے میں نہ تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست آئی اور نہ ہی عدالت کی طرف سے کوئی نوٹس جاری کیا گیا تو ایسے میں حکومت اور خصوصاً نیب حکام کیا اقدامات کر رہے ہیں۔

توشہ خانہ کیس اور درخواست کی واپسی

اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج نے توشہ خانہ ریفرنس میں عدم پیشی کی بنا پر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

اس مقدمے میں سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نامزد ملزمان میں شامل ہیں۔ ان تینوں ملزمان پر الزام ہے کہ اُنھوں نے توشہ خانے سے قواعد و ضوابط سے ہٹ کر دوسرے ملکوں کے سربراہان مملکت کی طرف سے تحفے میں ملنے والی گاڑیاں حاصل کی تھیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے جمعرات کو اس درخواست کی سماعت کی تو ملزم میاں نواز شریف کے وکیل جہانگیر جدون نے عدالت کو بتایا کہ اُنھیں اپنے موکل کی طرف سے ہدایات ملی ہیں کہ وہ اس درخواست کو واپس لے لیں۔

بینچ کے سربراہ نے جہانگیر جدون سے استفسار کیا کہ کوئی خاص وجہ جس کو سامنے رکھتے ہوئے وہ یہ درخواست واپس لے رہے ہیں جس پر درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ اُنھیں درخواست واپس لینے کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں۔

اس درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں ضمانت ملنے کے بعد علاج کی غرض سے بیرون ملک گئے ہوئے ہیں اس لیے احتساب عدالت کی طرف سے اُنھیں اشتہاری قرار دینے کا فیصلہ درست نہیں ہے۔

عدالتی فیصلہ برقرار ہے

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ درخواست واپس لینے کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت کا سابق وزیر اعظم کو اشتہاری قرار دینے کا فیصلہ برقرار ہے اور متعقلہ ادارے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔

اس درخواست کی پہلی سماعت کے دوران عدالت نے یہ معاملہ اٹھایا کہ سابق وزیر اعظم کو العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے آٹھ ہفتوں کی ضمانت دے رکھی تھی جو گذشتہ برس دسمبر میں ختم ہوچکی ہے، وہ کس مرحلے میں ہے۔

اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ آبزرویشن بھی دی تھی کہ عدالتی حکم میں یہ کہا گیا تھا کہ ضمانت میں توسیع کے حوالے سے مجرم پنجاب حکومت سے رابطہ کریں گے اور اگر پنجاب حکومت ان کی درخواست پر غور نہ کرے تو میاں نواز شریف ضمانت میں توسیع کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے آبزرویشن دی تھی کہ بادی النظر میں وہ العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں بھی مفرور ہیں۔

نیب کی خاموشی کی وجہ کیا ہے

قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل مظفر عباسی نے بی بی سی کو بتایا کہ العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں مجرم نواز شریف کو اشتہاری قرار دلوانے کے لیے نیب کو عدالت میں درخواست دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم کی ضمانت میں توسیع کے بارے میں نہ تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست آئی اور نہ ہی عدالت کی طرف سے کوئی نوٹس جاری کیا گیا تو نیب اپنے تئیں نواز شریف کو اشتہاری قرار دلوانے کے لیے کیوں درخواست جمع کروائے۔

اُنھوں نے کہا کہ گذشتہ سماعت کے دوران عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا تھا کہ کیا پنجاب حکومت کی طرف سے ان کے موکل کی ضمانت میں توسیع کا ریکارڈ موجود ہے جس کا اُنھوں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

پاکستان
،تصویر کا کیپشنسنہ 2008 میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کسی عوامی عہدے پر بھی تعینات نہیں تھے لیکن اس کے باوجود اس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اُنھیں توشہ خانے سے گاڑیاں دیں

مظفر عباسی کا کہنا تھا کہ ضمانت میں توسیع کے لیے ملزم یا مجرم کو عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے جبکہ اس معاملے میں ایسا نہیں ہو رہا۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر سابق وزیر اعظم پاکستان واپس آئے تو پھر اس صورت میں اُن کے خلاف مزید کارروائی کے لیے اقدامات کرنے کا فیصلہ نیب کے اعلیٰ حکام کریں گے۔

دوسری طرف پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم نیب کے مقدمے میں سزا یافتہ ہیں اور چونکہ اسلام آباد میں کوئی جیل نہیں ہے اس لیے اُنھیں پنجاب کی جیل میں قید رکھا گیا۔

پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے نواز شریف کی ضمانت میں مزید توسیع اس لیے نہیں دی چونکہ ان کے ذاتی معالج کی طرف سے سابق وزیر اعظم کی صحت کے بارے میں جو رپورٹ پیش کی گئی تھیں وہ مستند نہیں تھیں۔

راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان سے کہا گیا تھا کہ جس ہسپتال میں سابق وزیر اعظم زیر علاج ہیں وہاں کے ڈاکٹروں کی مستند رپورٹ بھیجیں لیکن اُنھوں نے ایسا نہیں کیا جس کی وجہ سے صوبائی حکومت نے مجرم کی ضمانت میں توسیع نہیں کی۔

پنجاب حکومت کے شعبہ پراسکیوشن کے ایک اہلکار کے مطابق صوبائی حکومت کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو اس بارے میں آگاہ کرے کہ صوبائی حکومت نے مجرم نواز شریف کی ضمانت میں توسیع نہیں کی۔

اُنھوں نے کہا کہ چونکہ سابق وزیر اعظم نیب کے مجرم ہیں اس لیے اُن کی ضمانت میں توسیع نہ ملنے کے حوالے سے عدالت عالیہ کو آگاہ کرنے کی ذمہ داری نیب کی ہے۔

اہلکار کے مطابق نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کے حوالے سے قائم کی گئی خصوصی کمیٹی کے چھ اجلاس ہوئے تھے تاہم مجرم کے ذاتی معالج کی طرف سے مستند میڈیکل رپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے ان کی ضمانت میں توسیع نہیں کی گئی۔

اہلکار کے مطابق اس کمیٹی کے اجلاس کی کارروائی کی رپورٹ کے بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا گیا تھا۔

پنجاب حکومت کی طرف سے ضمانت میں توسیع نہ ملنے کے حوالے سے سابق وزیر اعظم کی وکلا ٹیم کی طرف سے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ سے رابطہ نہیں کیا گیا۔

العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں میاں نواز شریف کی ضمانت کے سٹیٹس کے بارے میں نہ تو حکومت اور نیب اور نہ ہی مجرم کے وکلا کی طرف سے صورت حال واضح کی جارہی ہے۔

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم کو العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی متنازع ویڈیو کے بعد احتساب عدالت کے جج کو نوکری سے برطرف کردیا گیا ہے۔