کوالالمپور سمٹ: پاکستان کِن مجبوریوں کے تحت کوالالمپور سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کر رہا؟
ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ملائیشین وزیر اعظم مہاتیر محمد کی سربراہی میں ’کوالالپمور سمٹ‘ جاری ہے اور پاکستان اس میں شرکت نہیں کر رہا۔
اس بارے میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کو فون کر کے اپنے دورے کی منسوخی اور اس سربراہی اجلاس میں عدم شرکت سے آگاہ کیا۔
پاکستان کے دوسرے ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات ہمیشہ کسی نہ کسی اگر مگر کی کسوٹی سے مشروط رہے ہیں چاہے وہ امریکہ ہو، چین، انڈیا، افغانستان، ایران یا کوئی اور اسلامی ملک اور ایسا ہی کچھ اس وقت دیکھنے میں آیا جب پاکستان نے ملائیشیا میں بدھ سے شروع ہونے والی کوالالمپور سمٹ میں شرکت سے معذرت کر لی۔
ملائیشیا کی آن لائن نیوز سروس ’دی سٹار‘ کے مطابق ملائیشین وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان وزیر اعظم اپنی دیگر مصروفیات اور مسائل کے سبب اس سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کر پا رہے۔
واضح رہے وزیراعظم عمران خان آج سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا سے گلوبل ریفیوجی فورم میں شرکت کے بعد وطن واپس لوٹ رہے ہیں جبکہ اس سے قبل انھوں نے گلوبل ریفیوجی فورم میں شرکت کے بعد 18 دسمبر سے ملائیشیا کا دورہ کرنا تھا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے پہلے کہا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان ملائیشیا میں ہونے والے کوالالمپور سمٹ میں شرکت کریں گے جس کی تصدیق چھ دسمبر کو اسلام آباد میں منعقدہ ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے بھی کی تھی۔
لیکن وزیر اعظم عمران خان کے 14 دسمبر کے دورہ سعودی عرب کے بعد یہ بات سامنے آئی پاکستان کی جانب سے وزیر خارجہ اس سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے لیکن گذشتہ روز یہ اعلان کیا گیا کہ پاکستان کوالالمپور سمٹ میں شرکت ہی نہیں کرے گا۔
اس سے قبل گلوبل ریفیوجی اجلاس کی سائیڈ لائن پر وزیراعظم عمران خان نے ترک صدر طیب اردغان سے ملاقات کے دوران انھیں ملائیشیا کانفرنس میں شرکت نہ کرنے پر اعتماد میں لیا تھا۔
یاد رہے کہ ملائیشین میڈیا کے مطابق 23 نومبر کو ڈاکٹر مہاتیر نے اعلان کیا تھا کہ ان کا ملک، کوالالمپور میں اسلامی سربراہی اجلاس منعقد کرے گا، جو 18 سے 21 دسمبر تک جاری رہے گا، سمٹ کا عنوان قومی سلامتی کے حصول میں ترقی کا کردار ہو گا۔
سمٹ میں انڈونیشیا، پاکستان، قطر اور ترکی کے سربراہان حکومت و مملکت کے علاوہ 450 رہنما، سکالر اور مذہی اکابرین شرکت کریں گے۔
کوالالمپور سمٹ کیا ہے؟
ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں ہونے والے اس سربراہی اجلاس میں مسلم رہنما، دانشور اور دنیا بھر سے سکالر مسلم دنیا کو درپیش مسائل اور ان ممالک کے باہمی دلچسپی کے امور کے بارے میں تبادلہ خیال کے لیے ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوتے ہیں۔
اس کا پہلا اجلاس نومبر 2014 میں کوالالمپور میں ہوا تھا، جس میں معروف مسلم شخصیات کے درمیان مسلم دنیا کو درپیش مسائل کے لیے نئے اور قابل قدر حل تلاش کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
ملائیشیا کے وزیر اعظم 94 سالہ ڈاکٹر مہاتیر محمد اس سربراہی اجلاس کے چیئرمین ہیں جنھوں نے اس کا قیام اس مقصد کے تحت کیا تھا کہ مسلم رہنماؤں، دانشوروں اور علمائے کرام کو جمع کر کے مسلم دنیا کو درپیش مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل تلاش کیا جاسکے۔
اس سربراہی اجلاس کے رکن ممالک میں ملائیشیا، ترکی، قطر، موریطانیہ اور الجیریا شامل ہیں۔
جبکہ اس برس ہونے والے سربراہی اجلاس میں پاکستان، ایران، انڈونیشیا کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
اس سربراہی اجلاس میں ترکی سے صدر طیب اردغان، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی، انڈونیشیا کے صدر جوکو ودودو شرکت کریں گے جبکہ پاکستان سے عمران خان کو اجلاس میں شریک ہونا تھا۔
پاکستان اس سمٹ میں شرکت کیوں نہیں کر رہا؟
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد سے متاثر ہیں جس کا وہ متعدد مرتبہ برملا اظہار بھر کر چکے ہیں۔
عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو اپنے جلسوں میں مہاتیر محمد کے طرز حکومت اور ان کے نظریے کے گن گاتے تھے اور حکومت سنبھالنے کے بعد بھی مہاتیر محمد کے ویژن کی تعریف کرتے ہوئے ملائیشین ماڈل کو ملک میں اپنانے کی بات کرتے رہے ہیں۔
حال ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران بھی وزیر اعظم عمران خان نے ترک صدر اور ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد سے ملاقات میں مسلم امہ کی مثبت عکاسی کے لیے مل کر ایک نیا ٹی وی چینل بنانے کا اعلان بھی کیا تھا۔
جبکہ عمران خان کے دورہ ملائیشیا کے دوران مہاتیر محمد نے انھیں ملائیشیا میں تیار کردہ ایک گاڑی بھی تحفہ میں دی تھی جو چند روز قبل ہی وزیر اعظم ہاؤس پہنچی ہے۔
جہاں ایک طرف اتنی قربت دیکھی گئی وہاں ایسا کیا ہوا کہ پاکستان نے کوالالمپور سمٹ سے محض ایک دن قبل اس میں شرکت کرنے سے معذرت کر لی۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مقامی میڈیا کے صحافیوں سے غیر رسمی بات کرتے ہوئے یہ اشارہ دیا کہ پاکستان کی اس سربراہی اجلاس میں عدم شرکت کی وجوہات متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے چند تحفظات ہیں جن کو دور کرنے کے لیے پاکستان نے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی لیکن دستیاب وقت میں یہ تحفظات کو دور نہ کر پانے کی وجہ سے پاکستان اب اس سمٹ سے کنارہ کشی اختیار کر رہا ہے۔
اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سابق سفیر آصف درانی کا کہنا تھا کہ یہ تاثر درست ہے کہ پاکستان ملائیشیا میں ہونے والے اس سربراہی اجلاس میں سعودی عرب کے دباؤ کے باعث شرکت نہیں کر رہا۔
اگرچہ پاکستان کی عدم شرکت یقیناً غیر معمولی اور شرمندگی کا باعث ہے لیکن پاکستان کی اپنی مجبوریاں ہیں، جیسا کہ معاشی طور پر مشکل وقت میں پاکستان کا انحصار متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب پر ہوتا ہے۔
دوسری بڑی وجہ لاکھوں کی تعداد میں ان ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی ہیں۔
ان کا کہنا تھا پاکستان کے موجودہ معاشی حالات سے یہ مجبوریاں واضح ہو کر سامنے آتیں ہیں اور اس پر پاکستان نے ملائیشیا اور ترکی کو اعتماد میں لیا ہے۔
جبکہ اسی بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کے سابق سفیر قاضی ہمایوں کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان کی جانب سے کسی بھی سطح پر اگر اس سمٹ میں شرکت نہیں کی جاتی تو یہ یقیناً پاکستان کے لیے موزوں نہیں ہو گا۔’
سابق سفیر قاضی ہمایوں کا کہنا تھا کہ ‘کسی بھی بین الاقوامی سربراہی اجلاس میں شرکت کی سطح کو تبدیل کرنا اور بات ہے لیکن اس کا مکمل بائیکاٹ کرنا ایک اور زاویہ کھول دیتا ہے۔’
سعودی عرب کو اس سمٹ سے مسئلہ کیا ہے؟
سابق سفیر آصف درانی کے مطابق سعودی عرب کو اس سمٹ سے سب سے بڑا مسئلہ ایران کی صورت میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر ہم مشرق وسطیٰ کے خطے کا جائزہ لیں تو اس وقت ایران اور سعودی عرب میں جو کشیدگی چل رہی ہے اس نے پورے خطے کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کیا ہوا ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ان دونوں ممالک میں اپنے تئیں ایک سہولت کار کی حیثیت سے کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان کے مطابق پاکستان مجموعی طور پر یہ کوشش کر رہا ہے کہ کسی کی طرف داری کے بنا دونوں فریقین کے درمیان مسائل کے حل کے لیے کردار ادا کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان نے ایک عمل کر کے بہت سے ردعملوں سے خود کو محفوظ کر لیا ہے اور یہ بہت ضروری ہو گیا تھا۔‘
سعودی عرب کی جانب سے کوالالمپور سمٹ کو او آئی سی کے متبادل کے طور پر دیکھنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘میرے خیال میں مسلم امہ میں اتحاد کا وجود نہیں ہے اور او آئی سی بھی صرف ایک روایتی فورم ہے ۔’
ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں سعودی عرب کو کوالالمپور سمٹ سے او آئی سی کے متبادل کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔’اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلے عرب لیگ پر اعتراض اٹھایا جاتا۔’
اسی بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق سفیر قاضی ہمایوں نے بھی اس بات پر اتفاق کیا کہ سعودی عرب کو ایک طرف ایران کو لے کر تحفظات تھے تو دوسری جانب سعودی عرب، او آئی سی جس پر اس کا کافی کنٹرول ہے، کو لے کر اپنے خدشات کا اظہار کر رہا ہے کیونکہ وہ اس پر اپنی گرفت کمزور نہیں پڑنے دینا چاہتا۔
واضح رہے ملائیشین وزیراعظم کے دفتر سے جاری کردہ بیان میں ملائیشیا نے کوالالمپور سمٹ کو او آئی سی کے متوازی پلیٹ فارم بنانے سے متعلق قیاس آرائیوں کی بھی تردید کی ہے۔
جبکہ ملائیشیا کی مقبول آن لائن نیوز سروس ‘دی سٹار’ کے مطابق ملائیشین وزیر اعظم نے سعودی شاہ سلمان سے ویڈیو کانفرنس کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس کا مقصد او آئی سی کے مقابلے میں کسی فورم کا قیام نہیں ہے۔ نیوز سروس کے مطابق مہاتیر محمد کا کہنا تھا ‘ہم اس کے لیے بہت چھوٹے ہیں۔’