ہاتھیوں کی لڑائی
بادشاہت گئی جمہوریت گئی ،دربار ختم ہوئے، ایوان بن گئے۔ درباری نہ رہے وزیر اور کابینہ آ گئی۔ دن رات عیش و طرب کی محفلیں نہ رہیں کبھی کبھی شام غزل و موسیقی سجنےلگی۔پہلے بادشاہ جانوروں کو لڑا کر محظوظ ہوتے تھے، اب حکمران اقتدار کی راہداریوں میں ہونے والی سر پھٹول سے دل بہلانے لگے۔
مغل بادشاہوں کا معمول تھا کہ وہ اکثر ہاتھیوں کی لڑائی کا نظارہ کرتے تھے۔ اب حکمران ہاتھی تو نہیں لڑاتے مگر وزیروں کی چپقلش سے مزہ ضرور لیتے ہوں گے۔ دنیا بدلی طور اطوار بدل گئے مگر حکمرانوں کی خوئے حکمرانی نہیں بدلی۔ اونچی اور محفوظ جگہ پر بیٹھ کر لڑائی کروانا انہیں تب بھی مرغوب تھا آج بھی یہی ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ جہانگیر بادشاہ ہو یا آج کے وزیراعظم سب میں خوئے حکمرانی مشترک ہے۔
پاروتی شرما کی تصنیف ’’جہانگیر‘‘ میں لکھا ہے (صفحہ 88) 20؍ ستمبر 1605ء کو مغل بادشاہ اکبر نے اپنے دور کی سب سے یادگار اور مشہور ہاتھیوں کی لڑائی کا حکم دیا۔ یہ مقابلہ شہزادہ سلیم کے ناقابل شکست ہاتھی ’’گراںبار‘‘ اور جہانگیر کے بیٹے شہزادہ خسرو کے ہاتھی ’’اپروا‘‘ کے درمیان ہوا ایک تیسرا ہاتھی ’’ران متھن‘‘ ریفری کے طور پر اکبر کے اصطبل سے لایا گیا۔ (صفحہ 90) سلیم کا ہاتھی گراں بار جیتنا شروع ہو گیا اور ہر اگلے لمحے اس نے اپروا کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا۔
خسرو کا ہاتھی ہی نہیں ہارا، وہ وراثت کی لڑائی بھی ہار گیا۔ اس لڑائی کے کچھ ہی دنوں بعد اکبر اس جہان فانی سے رخصت ہو گیا اور سلیم، نور الدین جہانگیر کے نام سے تخت نشین ہو گیا۔ ہاتھیوں کی لڑائی دراصل اقتدار اور طاقت کی لڑائی تھی۔
اس تاریخی واقعہ کو گزرے پورے 415 سال ہو چکے ہیں مگر تاج و تخت کے دعویدار اب بھی ہاتھیوں کی طرح ایک دوسرے سے دست آزما ہیں اور حکمران اوپر بیٹھے نہ صرف یہ لڑائیاں کرواتے ہیں بلکہ باقاعدہ ان سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔ وفاقی کابینہ کے وزیر اور مشیر تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں جدید اور قدیم مذہب اور سائنس، آگے اور پیچھے کے درمیان لڑائی ہو تو کابینہ میں زیادہ تر وزراء فواد جہلمی اور شیریں مزاری کے خلاف اکٹھے ہو جاتے ہیں تاہم باقی لڑائیوں میں یہ تقسیم اور گروپنگ اور ہی طرح سے ہوتی ہے۔
وزیر اعظم نے ہر محکمے کو دو یا 3لوگوں کے حوالے کر رکھا ہے جو آپس میں ہر وقت محاذ آرائی اور مقابلہ بازی کا شکار رہتے ہیں۔ محکمہ اطلاعات و نشریات تو شروع ہی سے دو عملی بلکہ کبھی کبھی سہ عملی کا شکار رہا ہے۔ آج کل شبلی فراز انچارج وزیر ہیں جبکہ جنرل عاصم باجوہ مشیر برائے وزیراعظم ہیں حالیہ دنوں میں اے پی این ایس کی اعلیٰ سطحی میٹنگ میں اُن دو اہم ترین لوگوں میں رابطے و اشتراک کی بجائے افتراق نظر آیا۔ اس سے پہلے اسی محکمہ میں فواد چودھری کے مقابلے میں کئی مشیر متحرک رہتے تھے اور لڑائیاں ہوتی تھیں فردوس عاشق اعوان کو بھی ایسی ہی لڑائیوں نے ٹکنے نہ دیا۔
جرنیلوں اور سویلینز دونوں کے پسندیدہ اسد بن جنرل عمر کو بھی معرکہ درپیش ہے۔ اس وقت مشیر پٹرولیم ندیم بابر اور وزیر واٹر اینڈ پاور عمر بن گوہر بن جنرل ایوب کے درمیان بھی سب ٹھیک نہیں چل رہا ایک دوسرے کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں۔ دیکھیں اس لڑائی میں کون اپنا عہدہ بچا سکے گا اور کس کی چھٹی ہو جائے گی؟
سب سے سمارٹ، سب سے ذہین، سب سے لائق، سب سے زیادہ با اصول وزیر جناب شاہ محمود قریشی نہ صرف سب کے پسندیدہ ہیں بلکہ وہ خود اپنے بھی بہت ہی پسندیدہ ہیں مگر بیان بازی کی گرما گرمی میں وہ خود بھی بھنور میں پھنسے ہوئے لگتے ہیں۔ سعودی عرب سے حالات معمول پر آئیں گے تو تبھی وہ بھی معمول کے کام جاری رکھ سکیں گے۔
ہاتھیوں کی ایک اور لڑائی وفاقی کابینہ اور وزیراعظم سیکرٹریٹ کے درمیان ہے۔ وزراء کی فائلیں اور ان کے بہت سے کام پرنسپل سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر کی سکروٹنی اور پڑتال سے گزرتے ہیں۔ اس لئے کابینہ کے طاقتور وزیروں اسد عمر اور خسرو بختیار کو چھوڑ کر اکثر وزراء شکایت کناں رہتے ہیں کہ ان کے کام اور وزارت کی سمریاں رکی ہوئی ہیں۔
وزیر داخلہ اعجاز شاہ اور وزیر دفاع پرویز خٹک ویسےہی بہت زیادہ گڈ بکس میں نہیں ہیں۔ وزیر دفاع پرویز خٹک کی واحد تعریف جو دو سال میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم نے کی ، وہ پشاور بی آر ٹی کے افتتاح کے موقع پر تھی۔ وزیر داخلہ کے بہترین انتظام و انصرام پر بھی انہیں داد کم ہی ملتی ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی ہاتھیوں کی کئی لڑائیاں جاری ہیں بزدار بمقابلہ نیب، وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ بمقابلہ وزراء اور وزراء بمقابلہ وزراء۔ ابھی پچھلے دنوں ایک مشیر نے ایوان وزیر اعلیٰ میں وہ شور مچایا کہ الامان و الحفیظ۔ بہت سی فائلیں وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں فیصلوں کی منتظر ہیں لیکن یہ مشکل مرحلہ طے نہیں ہو پا رہا اور یوں اقتدار کے ہاتھی آپس کی لڑائیوں میں مفاد عامہ کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔
مغل ہوں یا آج کے جمہوری بادشاہ وہ ہاتھیوں کی لڑائی یا وزراء کی لڑائی میں مزہ اس لئے لیتے ہیں کہ لڑائی میں وہ فریق نہیں منصف اور جج ہوتے ہیں۔ وہ دوسروں کو لڑواتے ہیں اس سے فریقین کی غلطیاں اور خامیاں سامنے آتی ہیں جبکہ بادشاہ غیر متنازعہ رہتے ہیں مگر یاد رکھیں جہاں سب کچھ تبدیل ہو گیا یہ انداز اور خوئے حکمرانی بھی بدلنا ہو گی وگرنہ بدمست ہاتھی یا ناراض وزیر بادشاہ کے مد مقابل بھی آ سکتے ہیں۔