میر جمہوریت میر حاصل بزنجو رخصت ہو گئے۔ حالیہ عرصے میں ان کی صحت کے بارے میں دھڑکا لگا ہوا تھا۔ موت ناگزیر ہے لیکن میر حاصل جس جمہوری قبیلے کے سردار تھے وہ اس ملک میں معدومیت کے خدشے سے دوچار ہے۔ محکوموں کے خیمے کی شاہ طناب کٹ گئی ہے۔ میر حاصل بزنجو کی شخصیت اور کردار ایسا نہیں جسے چند لفظوں میں سمیٹا جا سکے۔ ابھی زخم تازہ ہے اور گھاؤ کی گہرائی ناپنے کی مہلت نہیں ملی۔ اس پر تفصیل سے بات کرنا ہو گی۔ آخر ایسا کیا ہے کہ بلوچستان کی مقہور زمیں سے ایک کے بعد ایک دیو قامت سیاسی رہنما نمودار ہوتا ہے۔ غور فرمائیے، اس کی وجہ خود سے آپ پر روشن ہو جائے گی۔
کل (20 اگست) کو میر حاصل بزنجو کے ارتحال کی خبر لکھتے ہوئے درویش کو کچھ یاد آیا۔ یہی اگست کا مہینہ تھا اور 1989 کا برس۔ راستہ کے نام سے ایک ہفت روزہ نکالنا تھا۔ افتتاحی پرچے کی طباعت کے لئے مدیر احمد سلیم اور ان کا مددگار رات گئے میو ہسپتال لاہور کے بالمقابل ایک چھوٹے سے چھاپہ خانے پر بیٹھے تھے۔ اچانک میر غوث بخش بزنجو کے انتقال کی خبر آئی۔ استاذی احمد سلیم نے حکم دیا کہ پرچے کے پس ورق پر ایک مختصر تعزیتی نوٹ لکھوں۔ اخبار نویسی ایک کٹھور پیشہ ہے۔ اکثر آنکھ کے نمکین پانیوں کو روشنائی کرنا پڑتا ہے۔ عجیب اتفاق تھا۔ غوث بخش بزنجو نومبر 1988 میں قومی اسمبلی کا انتخاب ہارے اور 8 اگست 1989 کو جان کی بازی ہار گئے۔ حاصل بزنجو یکم اگست 2019 کو ہمارے پارلیمانی تاریخ کے ایک سیاہ روز سینٹ میں واضح برتری کے باوجود تحریک عدم اعتماد میں ناکام ہوئے اور اگلے برس اگست میں آنکھیں موند لیں۔ ہم نے ووٹ میں جھرلو کو ایک فن لطیف بنا دیا، ہماری کثافت اسی لطافت سے برامد ہوئی ہے۔
ان دنوں ہماری خارجہ پالیسی ایک بحرانی مرحلے سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف چین سے سی پیک کا منصوبہ ہے اور دوسری طرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں مقیم 25 لاکھ پاکستانی تارکین وطن ہیں جن کے خون پسینے کی کمائی ترسیلات زر کی ضمانت دیتی ہے۔ خلیجی ممالک کی پشت پر بحر اوقیانوس کے پار ہمارا قدیمی مہربان ہے۔ چشم نرگس ان دنوں بیمار ہے۔ مطلب یہ کہ بوجوہ کچھ فاصلے پیدا ہو چکے۔ مشرقی ہمسائے نے یک طرفہ اقدام سے کشمیر کے متنازع خطے کی آئینی حیثیت بدل ڈالی۔ ہم نے ردعمل میں نیا نقشہ جاری کر دیا۔ فتح انگلش کی ہوتی ہے، قدم جرمن کے بڑھتے ہیں۔ یہ وقت تھا کہ ملک میں ایک مستند اور مستعد حکومت موجود ہوتی، ایک فعال پارلیمنٹ برسرکار ہوتی، ذرائع ابلاغ کھل کر مختلف خارجہ امکانات پر بحث کرتے۔ عوام کو سمجھایا جاتا کہ خارجہ پالیسی معاشی تقاضوں کے تابع ہوتی ہے۔ رائے عامہ کو سخت فیصلوں پر قائل کیا جاتا۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ حکومت کا یہ عالم کہ حساس ترین امور پر بیرون ملک نمائندگی میں وزیر خارجہ ندارد۔ پارلیمنٹ کی وقعت یہ کہ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف دونوں کی رونمائی رویت ہلال قرار پائی۔ اور رہے ذرائع ابلاغ۔۔۔ داور حشر میرا نامہ اعمال نہ دیکھ۔
موجودہ صدی کی دوسری دہائی میں عالمی معیشت میں حیران کن تبدیلیاں نمودار ہوئیں۔ 40 برس پہلے چین کی 99 ٪ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی تھی۔ اس دہائی میں یہ ترتیب الٹ گئی۔ اب صرف ایک فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ 2011 میں چین مینوفیکچرنگ میں دنیا کی نمبر ایک قوم بن گیا۔ 2012 میں دنیا کی سب سے بڑی تجارتی قوم کا درجہ حاصل کیا، 2015 میں چین کی مڈل کلاس کا حجم دنیا میں سب ممالک سے بڑھ گیا۔ اگلے پانچ برس میں چین کی معیشت امریکہ سے قریب ڈیڑھ گنا ہو جائے گی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلے مرتبہ امریکہ سے معاشی اولیت کا اعزاز چھن جائے گا۔ ان حالات میں عالمی صف بندی کی ترتیب نو ناگزیر تھی۔ کورونا وائرس کی وبا نے اس عمل کو تیز کر دیا۔ خود کار ٹیکنالوجی (روبوٹکس) کی آمد آمد ہے۔ غیر ہنر مند آبادیوں میں بے روزگاری بڑھ جائے گی۔ ان گنت پیشے اپنی موت آپ مر جائیں گے۔ اس تاریخ ساز دہائی میں ہم کچھ دوسرے معاملات سے دوچار رہے۔ میر نے کہا تھا، نہیں آئے وہ تو کوئی کام ہو گا۔۔۔ خیر ہم نے یہ سب کام جولائی 2018 میں پایہ تکمیل کو پہنچا دیے۔ اس کے بعد سے ہم ایک عہد عبور میں ہیں، ہمارا مسئلہ پالیسی نہیں، واقعہ ہے۔ حکمت عملی مرتب کرنے کا ہمیں دماغ نہیں، ہمیں لطیفہ غیبی کا انتطار ہے۔ ہم آج بھی طفیلی اور دست نگر شناخت سے دست بردار ہونے پر تیار نہیں ہیں۔ اللہ کے فضل سے ہماری آبادی 23 کروڑ ہے جن میں سے دس کروڑ ناخواندہ ہیں۔ تعلیم ہماری ترجیح ہی نہیں۔ عورتوں کی اکثریت منافع بخش معیشت سے منقطع ہے۔ انسانی ترقی کے اشاریوں میں ہمارا درجہ 152 پر ہے۔ معیشت میں مینوفیکچرنگ کا شعبہ 18 فیصد سے زائد نہیں۔ آج کی دنیا میں کسی ملک کی طاقت اور توقیر کا ایک ہی پیمانہ ہے، معیشت۔
دنیا میں وہی قومیں خارجہ پالیسی میں اپنے مقاصد حاصل کر سکتی ہیں جو معاشی طور پر خود کفیل ہوں اور بیرون ملک سرمایہ کاری کے ذریعے خارجی تائید حاصل کر سکتی ہوں۔ خارجہ پالیسی اخلاقی اور مابعد طبیعاتی اصولوں پر استوار نہیں ہوتی۔ 80 کی دہائی میں ہمیں افغانستان پر ایک سو سے زائد ممالک کی حمایت ملا کرتی تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہمارا موقف اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر قائم تھا۔ ہمیں امریکہ بہادر اور سعودی عرب کی حمایت حاصل تھی۔ اور ہم انہی کے اہداف کے لئے لڑ رہے تھے۔ ہم تب بھی دست نگر، مقروض اور امداد کے طالب تھے۔ آج مگر بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو جذباتی اور غیر حقیقت پسند خوابوں سے نجات دلا کے صرف اور صرف معیشت پر توجہ دینی چاہیے۔ معیشت ہی ہمارے قومی اہداف پورے کر سکے گی۔ ہماری معیشت دنیا کو پانچویں بڑی منڈی کی اہمیت تسلیم کرنے پر آمادہ کر لے گی تو ہم مشکل اہداف بھی حاصل کر سکیں گے۔ اس کے لئے ہمیں کسی جنون، قرارداد اور ترانے کی نہیں، مضبوط معیشت اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔