پاکستانی وکٹ کیپرز کی اکثریت دلیرانہ بیٹنگ کے لیے مشہور رہی ہے۔ وہ امتیاز احمد ہوں یا تسلیم عارف، سلیم یوسف ہوں یا معین خان یا پھر راشد لطیف، کامران اکمل یا سرفراز احمد۔ ان تمام میں بولرز پر حاوی ہوجانے والی خوبیاں موجود تھیں جن کی وجہ سے یہ سب وکٹ کیپنگ کے ساتھ ساتھ مستند بیٹسمینوں کے طور پر بھی پہچانے گئے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے موجودہ وکٹ کیپر محمد رضوان بھی اسی روایت کا حصہ ہیں۔ بے خوفی کے ساتھ کسی بھی بڑے بولر کو اپنے اعصاب پر سوار کیے بغیر اعتماد کے ساتھ کھیلتے ہوئے وہ انگلینڈ کے خلاف موجودہ سیریز میں اپنی اہمیت واضح کرچکے ہیں۔
اس سیریز میں ان کی دو اننگز مشکل صورتحال میں دو مختلف انداز کی دکھائی دیتی ہیں۔
دوسرے ٹیسٹ میں جب پاکستانی ٹیم کے چھ بیٹسمین صرف 158 رنز پر پویلین لوٹ چکے تھے محمد رضوان نے ٹیل اینڈرز کے ساتھ ملکر قیمتی 78 رنز کا اضافہ کیا تھا جس میں ان کا اپنا حصہ 72 رنز کا تھا۔
تیسرے ٹیسٹ میں جب پاکستانی ٹیم صرف 75 رنز پر پانچ وکٹیں گنوا چکی تھیں ایسے میں محمد رضوان نے کپتان اظہرعلی کے ساتھ چھٹی وکٹ کی شراکت میں 138 رنز کا اضافہ کیا جس میں ان کی 53 رنز کی اننگز شامل ہے۔
اجو بھائی ( اظہرعلی ) نے کہا اب شاٹس کھیلنا شروع ہوجاؤ
محمد رضوان کہتے ہیں کہ دوسرے ٹیسٹ کی طرح اس اننگز میں بھی ٹیم مشکل سے دوچار تھی لیکن آج کی اننگز کا فرق یہ تھا کہ کپتان کریز پر موجود تھے اور وہ مجھے مسلسل سمجھاتے رہے کہ کس طرح کھیلنا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی غلطیوں کی نشاندہی بھی کررہے تھے۔ ہم دونوں مثبت سوچ کے ساتھ بیٹنگ کررہے تھے۔ ہم نے کٹ بھی کھیلا۔ سٹریٹ ڈرائیو بھی کھیلا اور کور ڈرائیو بھی۔
’ایک موقع پر میں بیس، پچیس کے اسٹرائیک ریٹ سے بیٹنگ کررہا تھا لیکن پھر اجو بھائی ( اظہرعلی ) نے مجھ سے کہا کہ اگر تمہیں گیند ملتی ہے تو اس پر شاٹ کھیلو۔ جوفرا آرچر نے مجھے چند گیندیں ایسی دیں جن پر میں نے کھل کر شاٹس کھیلے۔
بولر سے ڈرنا کیسا؟
محمد رضوان کا کہنا ہے کہ میری سوچ بالکل سادہ ہے کہ میں جتنی محنت کرتا ہوں اللہ نے اس کا صلہ ضرور دینا ہے۔ فیلڈ سے باہر آپ جتنی محنت کرتے ہیں وہ فیلڈ میں ضرور نظر آتی ہے اسی لیے جب میں میدان میں جاتا ہوں تو مجھے کسی بھی بولر کا ڈر خوف نہیں ہوتا اور نہ ہی سکور بورڈ کا غم ہوتا ہے۔
پشتو میں ساتھیوں سے بات کرنا
محمد رضوان سے پوچھا گیا کہ آپ سرفراز احمد کی طرح بولرز کے پاس جا کر انہیں مشورے کیوں نہیں دیتے؟
اس سوال کا دلچسپ جواب رضوان نے اس طرح دیا کہ سرفراز احمد کپتان تھے اسی لیے وہ مسلسل بولرز کو سمجھاتے رہتے تھے۔ مجھے ان بولرز کے پاس دوڑ کر جانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ میں اپنی جگہ سے ہی ان بولرز کو پشتو زبان میں کچھ نہ کچھ کہتا رہتا ہوں اور آپ کو یہ پتہ ہی ہے کہ اس ٹیم میں شاہین شاہ آفریدی۔ یاسر شاہ اور نسیم شاہ، پٹھان ہیں۔
’مزے کی بات یہ ہے کہ جب میں ان بولرز کے ساتھ پشتو میں بات کررہا ہوتا ہوں تو کپتان اظہرعلی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اردو میں بات کرو تاکہ میں بھی سمجھ سکوں۔‘
شکست پر ہم بھی ُدکھی ہوتے ہیں
محمد رضوان کہتے ہیں کہ ٹیم کی خراب کارکردگی پر کھلاڑی بھی مایوسی اور افسردگی کا شکار ہوتے ہیں۔ ہمیں بھی اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اگر ہم کرکٹرز آنسوؤں کی ویڈیو بناکر عوام میں شیئر کریں تو انہیں پتہ چلے گا کہ ہم کھلاڑی بھی ناکامی پر کتنے خفا ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے ساتھ بھی جو کیفیت ہوتی ہے وہ بیان سے باہر ہے لیکن یہ بات بزدلی کی طرف لے جاتی ہے۔ ظاہری طور پر ہم خود کو مضبوط رکھتے ہیں۔ اگر ہم صرف ایک خراب اننگز پر رونا شروع کردیں تو یہ محض ظاہری ہوگا۔ ہم بھی ُدکھی ہیں لیکن دنیا کو ِبتاتے نہیں ہیں۔‘