پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو آئین شکنی پر سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت نے اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
اس تفصیلی فیصلے کے مطابق جسٹس سیٹھ وقار اور جسٹس شاہد کریم نے پرویز مشرف کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دیا ہے جبکہ جسٹس نذر اکبر نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔
اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے لیے 30 دن کا وقت مقرر ہے تاہم اپیل دائر کرنے کے لیے پرویز مشرف کو پاکستان واپس آ کر عدالت کے سامنے پیش ہونا ہو گا۔
پرویز مشرف پر آئین شکنی کا الزام تین نومبر 2007 کو آئین کی معطلی اور ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے تھا اور یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی شخص کو آئین شکنی کے جرم میں سزا سنائی گئی ہے۔
169 صفحات پر مشتمل فیصلہ جمعرات کی دوپہر جاری کیا گیا اور اس میں جسٹس نذر اکبر کا 42 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سنگین غداری کیس چھ برس تک چلا اور ملزم پرویز مشرف کو ان کے حق سے بھی زیادہ شفاف ٹرائل کا موقع اور دفاع کا مکمل حق دیا گیا۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ استغاثہ کے شواہد کے مطابق ملزم مثالی سزا کا مستحق ہے اور اسے ہر الزام میں الگ الگ سزائے موت سنائی جاتی ہے۔
خصوصی عدالت نے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار نے اپنے فیصلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا کہ وہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو گرفتار کرنے اور سزا پر عملدرآمد کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اگر وہ مردہ حالت میں ملیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک لائی جائے جہاں اسے تین دن تک لٹکایا جائے۔
جسٹس وقار نے اپنے اس حکم کی توجیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ ماضی میں کسی بھی فرد کو پاکستان میں اس جرم میں سزا نہیں دی گئی اور عدالت نے اپنا فیصلہ مجرم کی عدم موجودگی میں سنایا ہے۔ اس لیے اگر مجرم سزا پانے سے قبل اگر وفات پا جاتا ہے تو یہ سوال اٹھے گا کہ آیا فیصلے پر عملدرآمد ہوا یا نہیں۔
مشرف کو سزا دینے کے حق میں فیصلہ دینے والے دوسرے جج جسٹس شاہد کریم نے جسٹس سیٹھ وقار کے فیصلے میں پرویز مشرف کی موت کی صورت میں ان کی لاش ڈی چوک پر لٹکانے کے حکم سے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے خیال میں مجرم کو سزائے موت دینے کا حکم کافی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین شکنی اور سنگین غداری ایک آئینی جرم ہے اور یہ وہ واحد جرم ہے جس کی سزا آئینِ پاکستان میں دی گئی ہے۔
آئین کی شق نمبر چھ کے مطابق وہ شخص جس نے 23 مارچ 1956 کے بعد آئین توڑا ہو یا اس کے خلاف سازش کی ہو ، اس کے عمل کو سنگین غداری قرار دیا جائے گا اور اس کو عمر قید یا سزائے موت سنائی جائے گی۔
فیصلے کی بنیاد
تفصیلی فیصلے میں خصوصی عدالت کے صدر جج جسٹس وقار سیٹھ لکھتے ہیں کہ اس مقدمے کا فیصلہ کرنے کے لیے عدالت کو تین سوالات کے جواب تلاش کرنے تھے۔
1. آیا ملزم نے آئین شکنی کی اور سنگین غداری کے جرم کا مرتکب ہوا؟
2. آیا ملزم کے اس فعل کے پیچھے مجرمانہ نیت تھی یا انھیں کابینہ یا وزیراعظم کی طرف سے ایسا کرنے کا کہا گیا تھا؟
3. آیا کوئی ایسے حالات ہیں جن کی بنا پر ملزم کی جانب سے آئین شکنی کی توجیہ پیش کی جا سکتی ہے؟
جسٹس وقار سیٹھ کے مطابق جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ اس بنیاد پر دیا گیا کہ انھوں نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات سے کبھی انکار نہیں کیا۔
‘انھوں نے ایمرجنسی لگانے، اس کا حکم نامہ جاری کرنے ججوں کے لیے ایک انوکھا حلف نامہ ترتیب کرنے اور ایمرجنسی نافذ کرنے سے قبل اپنی تقریر سے انکار نہیں کیا۔’
ملزم کو غیر موجودگی میں سزا کیوں سنائی گئی؟
اس نکتے پر جسٹس سیٹھ لکھتے ہیں کہ اگر یہ مقدمہ کسی عام سیشن عدالت میں چل رہا ہوتا تو وہ ملزم کی غیر موجودگی میں آگے نہ بڑھ سکتا
تاہم آئین میں ایسے مواقع کی گنجائش ہے جہاں مجرم جان بوجھ کر عدالتی کارروائی سے دوڑ رہا ہو اور ایسی صورت میں مجرم کی غیر موجودگی میں بھی مقدمہ جاری رہ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں خصوصی عدالت کو حکم دیا تھا کہ مجرم کی غیر موجودگی میں بھی اس مقدمے کی سماعت جاری رکھی جائے۔
معاون اور سہولت کاروں کے خلاف کارروائی
جسٹس سیٹھ تفصیلی فیصلے میں کہتے ہیں کہ افواجِ پاکستان کی کور کمانڈرز کمیٹی سمیت ‘ہر وہ باوردی شخص جو جنرل ریٹائرڈ مشرف کے ساتھ تھا اور ان کی حفاظت کرتا رہا مشرف کے جرم میں برابر کا شریک ہے۔’
وہ کہتے ہیں کہ جہاں یہ عدالت ان معاونین اور سہولت کاروں کو اس مقدمے میں شامل نہیں کر سکتی، وہیں وفاقی حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان افسران کے خلاف تفتیش کرے اور مقدمے درج کروائے۔
تفصیلی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان تمام افراد کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے جنھوں نے پرویز مشرف کو ملک سے فرار ہونے میں مدد کی۔
’سخت ترین سزا بھی دی جائے تو کم ہے‘
بینچ میں شامل جسٹس شاہد کریم نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے مجرم پرویز مشرف کی طرف سے سنہ2007 میں لگائی جانے والی ایمرجنسی کے بارے میں کہا ہے کہ مارشل لا کو اور نام دے کر لگانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ مارشل لا ہی تھا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کو ایک لمحے کے لیے بھی معطل نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2007میں مجرم کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی میں ملکی آئین کو بے اثر رکھا گیا اور ایسے حالات میں ملک آئین کے مطابق نہیں چل سکتا۔اس لیے سادہ الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملزم پرویز مشرف کی طرف سے بحیثیت آرمی چیف ملک میں ایمرجنسی لگانے اور عبوری آئینی حکم نامے کا اجرا ملکی آئین سے انحراف تھا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف کا یہ اقدام آئین کے تحت انھیں مجرم ثابت کرنے کے لیے کافی ہے اور اس ضمن میں جو شہادتیں پیش کی گئیں اس میں بھی جرم ثابت ہوتا ہے۔
اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غداری ایک بہت سنگین جرم ہے اور اس میں نہ صرف فرد جرم عائد ہونے کے حوالے سے بھی قوانین زیادہ سخت ہیں بلکہ سزا بھی زیادہ کڑی ہے اور یہ اپنی نوعیت کا منفرد جرم ہے جس پر سخت ترین سزا بھی دی جائے تو کم ہے۔
تاہم جسٹس شاہد کریم نے بینچ کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ کے پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کے فیصلے کے اس حصے سے اختلاف کیا جس میں اُنھوں نے کہا کہ اگر مجرم فیصلے پر عمل درآمد ہونے سے پہلے مر جائے تو اس کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد کے ڈی چوک میں تین روز کے لیے لٹکایا جائے۔
اختلافی نوٹ
فیصلے سے اختلاف کرنے والے جسٹس نذر اکبر نے 42 صفحات اور 32 پیراگراف پر مشتمل اپنے فیصلے میں کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل چھ میں کی گئی تبدیلیوں اور پاکستان کے وزارت داخلہ کی جانب سے ملزم کے خلاف شفاف طریقہ سے انکوائری نہ کرنا واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ استغاثہ ملزم کے خلاف غداری ثابت نہیں کر سکا۔
جسٹس نذر مزید لکھتے ہیں کہ پرویز مشرف کی جانب سے تین نومبر 2007 کو لیے گئے اقدامات اور ان کے نتائج ‘ُغیر قانونی، بد نیتی، اور غیر آئینی’ قرار دیے جا سکتے ہیں لیکن انھیں قطعی طور پر سنگین غداری کا مرتکب نہیں قرار دیا جا سکتا۔
مشرف کا ردعمل
خیال رہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے 1999 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی تھی جس کے بعد وہ 2001 سے 2008 تک ملک کے صدر بھی رہے تھے۔
تین برس سے زیادہ عرصے سے وہ ملک سے باہر ہیں اور اس وقت دبئی کے ایک ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔
مختصر فیصلے کے بعد ہسپتال سے جاری کیے گئے ایک ویڈیو بیان میں پرویز مشرف نے کہا تھا کہ اس طرح کے فیصلے کی مثال نہیں ملتی جہاں مدعی اور نہ اس کے وکیل کو دفاع میں بات کرنے کی اجازت ملی ہو۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘میں اس فیصلے کو مشکوک اس لیے کہتا ہوں کیوں کہ اس میں شروع سے لے کر آخر تک قانون کی بالادستی کا خیال نہیں رکھا گیا’۔
پرویز مشرف نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ ‘کچھ لوگوں کی میرے خلاف ذاتی عداوت کی وجہ سے یہ کیس سنا گیا اور ایک فرد واحد کو ٹارگٹ کیا گیا، اور ان لوگوں نے ٹارگٹ کیا جو اونچے عہدوں پر فائز ہیں اور اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہیں’۔