Site icon DUNYA PAKISTAN

کورونا وائرس: کھانے کی اشیا کی پیکنگ سے وائرس لگنے کا خطرہ کتنا ہے؟

Share

حال ہی میں چین میں جنوبی امریکہ سے درآمد کیے گئے فروزن کیکڑوں اور چکن ونگز کی پیکنگ سے مبینہ طور پر کورونا وائرس کی موجودگی کے آثار ملے ہیں۔

اس کے بعد سے ایک مرتبہ پھر دوبارہ یہ سوالات نے جنم لینا شروع کر دیا ہے کہ کیا کورونا وائرس کھانے کی اشیا کی پیکنگ سے انسان میں منتقل ہو سکتا ہے۔

اس کے کتنے امکان ہیں؟

بنیادی طور پر یہ ممکن ہے کہ پیکنگ میٹریل پر موجود کورونا وائرس آپ کو متاثر کر سکتا ہے۔ لیبارٹری میں وائرس کی ساخت پر کیے جانے والے تجزیے کے مطابق یہ وائرس چند پیکنگ میٹریل پر اگر دنوں تک نہیں تو کم از کم کئی گھنٹوں تک زندہ رہ سکتا ہے جن میں زیادہ تر گتا اور پلاسٹک کی مختلف اقسام ہیں۔

مزید یہ کہ یہ وائرس کم درجہ حرارت پر زیادہ دیر تک مستحکم اور زندہ رہتا ہے۔ اور اسی درجہ حرارت پر بیشتر کھانے پینے کی اشیا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جاتا ہے۔

تاہم چند سائنسدانوں نے اس بات پر سوال اٹھائے ہیں کہ کیا وائرس کے متعلق اس تجزیے کو لیبارٹری سے باہر دہرایا جا سکتا ہے۔

لیسٹر یونیورسٹی میں سانس کے علوم کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر جولین تانگ کا کہنا ہے کہ بیرونی دنیا میں ماحولیاتی حالات تیزی سے بدل جاتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وائرس زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا۔

اور روٹجرز یونیورسٹی کے مائیکرو بیالوجی کے پروفیسر، ایمانوئیل گولڈمین نے بھی نشاندہی کی ہے کہ لیب میں کیے گئے مطالعے میں ایک کروڑ تک وائرس ذرات کے نمونے استعمال کیے گئے تھے، جبکہ باہری دنیا میں وائرل ذرات کی اصل تعداد اس سے بہت کم ہوتی ہے مثلاً ایک چھینک سے نکلنے والے قطرے تقریباً 100 ہوتے ہیں۔

جولائی میں ایک جریدے لانسیٹ میں لکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’میرے خیال میں مختلف سطحوں سے وائرس لگنے کے امکانات بہت کم ہیں اور ایسا صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب کوئی وائرس سے متاثرہ شخص ان سطحوں پر کھانسے یا چھینکے اور کوئی اور اس سطح کو تقریباً دو گھنٹوں کے اندر اندر چھو لے۔ ‘

وائرس کیسے منتقل ہو سکتا ہے؟

وائرس کی منتقلی کا خطرہ عام طور پر اس مفروضے پر مبنی ہوتا ہے کہ فوڈ پیکیجنگ پلانٹس میں کام کرنے والے افراد ممکنہ طور پر آلودہ سطحوں کو چھو لیں اور پھر اپنی آنکھوں، ناک اور منھ کو ہاتھ لگا لیں۔

تاہم اب سائنسدانوں کے خیال میں بیشتر وائرس سے متاثرہ افراد میں منتقلی کی مرکزی وجہ یہ نہیں تھی۔

امریکی ادارہ برائے صحت سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول نے اپنی ویب سائٹ پر کہا ہے کہ ’یہ ممکن ہے کہ ایک انسان کورونا وائرس سے آلودہ کسی سطح یا چیز کو چھونے کے بعد وائرس سے متاثر ہو جائے۔‘

تاہم اس میں مزید کہا گیا ہے ’یہ وائرس کے پھیلاؤ کی بنیادی وجہ قرار نہیں دی گئی ہے۔‘

درحقیقت ایک انسان سے دوسرے انسان میں اس کے پھیلاؤ کی درج ذیل بنیادی وجوہات تصور کی جاتی ہیں:

ڈاکٹر ٹینگ کا کہنا ہے کہ یہ ثابت کرنا کہ کسی کو وائرس پیکنگ سے لگ گیا ذرا مشکل ہو سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ’حال ہی میں اس شخص کے وائرس سے متاثر ہونے کے کسی اور ذریعے کو خارج از امکان کیا جائے۔‘ جن میں بنا علامات کے متاثرہ کسی شخص سے سماجی تعلق شامل ہے۔ اس کے بعد ہی ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ کسی مذکورہ شخص کو کھانے پینے کی اشیا سے وائرس منتقل ہوا ہے۔‘

ہم کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ’فی الحال کھانے یا کھانے کی پیکنگ سے متاثرہ ہونے والے کورونا وائرس کے کیسز کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔‘ لیکن اس نے چند احتیاطی تدابیر کی فہرست فراہم کی ہے تاکہ آپ کسی بھی متاثرہ یا آلودہ جگہ سے وائرس کی منتقلی سے محفوظ رہ سکیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ کھانے پینے کی اشیا کی پیکنگ کو جراثیم کش ادویات یا سپرے سے صاف کرنے کی خاص ضرورت نہیں البتہ آپ کھانا کھانے سے قبل اور ان پیکنگ کو چھونے کے بعد اچھی طرح ہاتھ ضرور دھوئیں۔

اگر آپ گروسری اور کھانے پینے کی اشیا کی خریداری کر رہے ہیں تو اگر ممکن ہو سکے تو دکان میں داخلے سے قبل سینیٹائزر کا استعمال کریں، اور خریداری کے بعد اور اپنی چیزوں کو چھونے اور سنبھالنے کے بعد اچھی طرح ہاتھ دھوئیں۔

یہ بھی بہتر ہے کہ اگر گروسری اشیا کو ڈلیوری کرنے والا عملہ اچھی صفائی اور حفاظتی اقدامات کو اپناتا ہے تو آپ اپنی گروسری اشیا کو گھر پر منگوا لیں۔

آپ ڈلیوری عملہ سے گھر پر کھانا یا گروسری اشیا موصول کرنے کے بعد بھی اچھی طرح ہاتھ دھوئیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بہتر ہے کہ آپ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کو صرف ایک مرتبہ استعمال کریں۔

Exit mobile version