کالم

خواتین صحافیوں کی فریاد

Share

تیسری دنیا کے بیشتر ممالک ابھی اس مقام کو نہیں پہنچے کہ وہاں خواتین کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں جن کی ضمانت خود ان کا دستور، عالمی قوانین، ضوابط اور مہذب دنیا کی روایات دیتی ہیں۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے۔ لیکن یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ یہاں خواتین کو نہ صرف وہ حقوق حاصل نہیں جو اسلام جیسا شاندار مذہب انہیں دیتا ہے بلکہ وہ ان جمہوری حقوق سے بھی محروم ہیں جو ہمارے جمہوری آئین میں لکھے ہوئے ہیں۔ مسئلہ صرف ان غریب اور بے بس عورتوں کا نہیں جو گھروں میں کام کرتی، برتن مانجھتی اور کپڑے دھوتی ہیں۔ یا اینٹوں کے بھٹوں پر مزدوری کرتی ہیں۔ یا چھوٹی موٹی فیکٹریوں میں ملازمت کرتی ہیں۔مسئلہ ان کا بھی ہے جو اچھی خاصی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ بظاہر قابل عزت شعبوں سے وابستہ ہیں۔ اچھے پڑھے لکھے گھرانوں سے آئی ہیں اور ایسے شعبوں میں کام کر رہی ہیں جنہیں بہت با عزت خیال کیا جاتا ہے۔
حال ہی میں صحافت سے وابستہ چند نامور خواتین نے مشترکہ طور پر شکایت کی ہے کہ انہیں، صرف اپنی رائے اور موقف کی بنیاد پر توہین کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر گالی گلوچ کیا جاتا ہے۔ ہراساں کیا جاتا ہے۔ اور حکومت وقت کے حامی مبینہ طور انہیں پریشان کرتے ہیں۔ میڈیا سے وابستہ درجنوں خواتین کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمارے لئے حالات کار مشکل بنا دئیے گئے ہیں۔ ہم آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتیں جو کہ آئین کے آرٹیکل 19-A کی خلاف ورزی ہے۔ ان خواتین صحافیوں نے الزام لگایا کہ ان کی جعلی تصویریں اور وڈیوز بھی چلائی جاتی ہیں اور انہیں دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔ انہیں لفافہ صحافی کہہ کر گالی دی جاتی ہے۔ ان صحافی خواتین نے حکومت سے اس صورتحال کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور ہیومن رائیٹس کی پارلیمانی کمیٹیوں سے بھی کہا ہے کہ وہ صورتحال کا نوٹس لیں۔
مشترکہ مطالبہ کرنے والی خواتین صحافیوں میں محمل سرفراز، بے نظیر شاہ، عاصمہ شیرازی، منیزے جہانگیر، نسیم زہرہ، کاملہ حیات، غریدہ فاروقی جیسے معروف نام شامل ہیں۔ اس مشترکہ بیان پر انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے کہا ہے کسی خاتون صحافی کو صرف اس بنیاد پر کہ اس کا نقطہ نظر حکومت مخالف ہے، بد سلوکی یا خوف و ہراس کا نشانہ بنایا جانا نا قابل قبول ہے اور اس کی ہر گز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلا ول بھٹو زرداری نے بھی اس کی شدید مذمت کی ہے۔ سٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سربراہ کی حیثیت سے بلاول بھٹونے کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کر لیا ہے جس میں ان خواتین صحافیوں کو شرکت کرنے اور اپنے مسائل پیش کرنے کی دعوت دی ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے بھی شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ان کاروائیوں کی مذمت کی ہے اور ان کاروائیوں میں ملوث عناصر کے خلاف موثر کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ یونین نے ایف۔آئی۔اے کے سائبر کرائم ونگ سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایسے مجرموں کا سراغ لگائے جنہوں نے خواتین صحافیوں کے لئے اپنے فرائض کی ادائیگی مشکل بنا دی ہے۔
یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔خواتین کے لئے پہلے ہی بہت کم ایسے شعبے ہیں جہاں کام کرنا وہ اپنا اعزاز بھی خیال کرتی ہیں اور جن میں انہوں نے اگر مردوں سے بہتر نہیں تو ان کے ہم پلہ کردار ضرور ادا کیا ہے۔ تدریس، طب اورصحت کے بعد صحافت ایسا شعبہ ہے جہاں تعلیم یافتہ نوجوان خواتین بڑے شوق سے جاتی ہیں۔صحافت میں جاتے ہوئے ضروری نہیں سب اینکرز بن جائیں۔ کئی ایک کو صحافت سے منسلک دیگر شعبوں میں بھی کام کرنا پڑتا ہے اور بیشتر ایسی بھی ہیں جو انتہائی مشکل حالات میں فیلڈ میں بھی کام کرتی ہیں۔ ان کے لئے حالات کار اور بھی ذیادہ مشکل ہیں۔
یہ مسئلہ پہلی مرتبہ سامنے نہیں آیا۔ لیکن اب یقینا اس کی سنگینی میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ اسی سنگینی کے باعث خواتین صحافی مشترکہ طور پر آواز اٹھانے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ اس معاملے کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے اور معاملے کی پوری طرح چھا ن بین بھی کرنی چاہیے۔ ذمہ داروں کا سراغ لگانا حکومتی اداروں کا کام ہے کیونکہ یہ حکومت کی اپنی ساکھ کا مسئلہ ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں عدم برداشت کا کلچر عام ہو چکا ہے۔ تقریبا ہر جماعت یا سیاسی گروہ میں ایسے افراد موجود ہیں جو مخالف نقطہ نظر برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں اور سوشل میڈیا پر انتہائی غیر مہذب اور گالی گلوچ کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ فیلڈ کے کام کے دوران بھی خواتین کو ہراساں کیا گیا اور ان کو جسمانی ایذا پہنچائی گئی۔ یہ سب کچھ اب اس انتہا کو پہنچ گیا ہے کہ اس کا محاسبہ کرنا اور قانون کو حرکت میں لانا بہت ضروری ہو گیا ہے۔

جیسا کہ میں نے کہا کہ خواتین کیلئے پہلے ہی کام کرنے کے مواقع نہایت محدود ہیں ا ور ایسے پیشے تو بس چند ایک ہی ہیں جہاں والدین بھی پورے اعتماد سے اپنی بچیوں کو بھیج سکتے ہیں۔ اگر ان چند پیشوں میں بھی ان کا جینا دوبھر بنا دیا جائے، انہیں ہراساں کیا جائے، ان کی توہین اور تضحیک کی جائے تو معاشرے کا کیا بنے گا؟دنیا کو ہم کیا پیغام دیں گے؟ امریکہ یا دوسرے ملک صرف یہی نہیں دیکھتے کہ ہماری اسمبلیوں نے کس اتفاق رائے کے ساتھ فاٹف کے بارے میں قوانین وضع کر لئے ہیں۔۔ وہ یہ بھی یقینا دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں تحمل اور برداشت کی کتنی صلاحیت ہے؟ ہم اظہار رائے کی کتنی آزادی دیتے ہیں ا ور ہم اختلاف رائے سننے کا کتنا حوصلہ رکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ صف اول کی پاکستانی خواتین صحافیوں کی اس مشترکہ عرضداشت کا نوٹس بیرونی ادارے بھی لیں گے اور ہمار امیج پہلے سے بھی خراب ہو گا۔ حال ہی میں کمرہ عدالت کے اندر اور باہر دو ایسے افراد کو قتل کر دیا گیا جن پر مقدمہ چل رہا تھا۔یہ قضیہ بھی عالمی میڈیا میں زیر بحث آیا۔
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب ایک خاتون پہلی مرتبہ دنیائے اسلام کے پہلے ملک کی سربراہ بنیں تو ہم پر لگایا جانے والا انتہا پسندی اور تنگ نظری یا صنفی امتیاز کا الزام کتنا کمزور پڑگیا تھا۔ یہ اعزاز دنیا کا ترقی یافتہ ملک امریکہ بھی آج تک حاصل نہیں کر سکا۔ ابھی پچھلے دنوں پاک فوج کی میڈیکل کور سے تعلق رکھنے والی خاتون نگار جوہر خان جب لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فائز ہوئیں اور پہلی خاتون سرجن جنرل بنیں تو یہ ہر پاکستانی شہری خصوصا ہر خاتون کیلئے فخر اور مسرت کا مقام تھا۔ یقینا اس سے دنیا بھر میں ہماری عزت بڑھی ہے۔
لیکن نامور صحافی خواتین کی مشترکہ فریاد پورے معاشرے کیلئے عام طور پر اور حکومتی اداروں کیلئے خاص طور پر بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ اس طرح کے حالات میں اگر ذہین اور پڑھی لکھی خواتین، صحافت جیسے شعبے سے بھی گریز کرنے لگیں تو نہ صرف ان کیلئے خدمات کے میدان مزید کم ہو جائیں گے بلکہ صحافت جیسا شعبہ بھی باصلاحیت، محنتی اور پیشہ وارانہ ذوق و شوق رکھنے والی خواتین سے محروم ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بڑا قومی زیاں ہو گا۔