موڑ خطرناک ہے…..
آگے موڑ ہے سڑک بھی تنگ ہے اور موڑ بھی خطرناک ہے، ایک طرف گہری کھائی ہے تو سامنے پتھریلی چٹان، دونوں سے بچ کر نکلنا ہے۔ ہماری گاڑی پہلے بھی کئی حادثات کا شکار ہوتی رہی۔
لیاقت علی خان کے زمانے میں ہم امریکی موڑ کی طرف مڑ گئے اور روسی موڑ کی طرف دیکھنا پسند نہ کیا اگر توازن رکھ لیتے تو پختونستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی مخالفت جیسے مسائل سر نہ اٹھاتے۔ ہماری گاڑی ایک بار پھر مشکل ترین مرحلے پر ہے۔
ایک طرف امریکہ ہے تو دوسری طرف چین ، ایک اور سمت میں ترکی اور ملائیشیا ہے تو اس کی مخالف سمت میں برادر ملک سعودی عرب ہے۔ ایک طرف افسانوی کردار ارطغرل اور دیو مالائی ہیرو اردوان ہے اور دوسری طرف دنیاوی اور مادی حقیقت شاہ سلمان اور محمد بن سلمان ہیں۔
ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہماری گاڑی آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین بینک سے قرضے لیا کرے گی یا اب ہمارا رخ صرف چین کے مالیاتی اداروں کی طرف ہو گا؟ ہم تو چاہیں گے کہ توازن رکھیں دونوں طرف معاملات ٹھیک رکھیں ایک طرف گاڑی کو نہ جھکائیں مگر شاید آج کی دنیا میں اِدھر یا اُدھر میں سے ایک سمت کا فیصلہ کرنا ہو گا۔
ہماری گاڑی امریکی سڑکوں اور موٹر ویز پر سفر کرتی رہی ہے چین کے دشوار گزار پہاڑی سفر سے اسے زیادہ واسطہ نہیں پڑا ،چین نے اگرچہ ہمارے لئے راستے کھول رکھے ہیں۔
50بلین ڈالر کا سی پیک کی شکل میں پٹرول بھی فراہم کیا ہے کہ ہماری گاڑی فراٹے بھر کر چلنے کے قابل ہو سکے۔ دوسری طرف امریکی ہماری گاڑی میں کافی سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ منگلا، تربیلا ڈیم سے لے کر فوج کے جدید اسلحے تک ہر جگہ امریکہ کی مہر لگی ہے۔ امریکی شاہراہوں پر چلیں تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بھی آپ کی مدد کرتے ہیں اگر ہم نے چین کی طرف مکمل موڑ لے لیا تو پھر یہ مالیاتی ادارے ہمارا بلا روک ٹوک سفر بند کر دیں گے۔
ہماری خواہش تو ہو گی کہ ہم سی پیک بھی جاری رکھیں اور امریکہ و دیگر مالیاتی اداروں کو بھی ناراض نہ کریں مگر آج کی ایک رخی دنیا میں ایسا کرنا ممکن نہ ہو گا ہم مالیاتی خسارے اور قرض اتارنے کیلئے چین کی طرف جاتے ہیں تو امریکہ ہماری گاڑی پر پابندیاں لگائے گا ،ہمیں قرض نہیں لینے دے گا۔
ہمیں جدید اسلحہ اور امداد نہیں دے گا مگر جب تک افغانستان کا مسئلہ موجود ہے امریکہ ہمیں ٹھینگا نہیں دکھا سکتا۔ دوسری طرف اگر ٹرمپ جیتتا ہے تو وہ پاکستان کے ذریعے مسئلہ افغانستان کے حل کیلئے زور ڈالتا رہیگا جوبائیڈن اور کملاہیرس کی جوڑی کامیابی ہوتی ہے تو تب بھی پاکستان کیلئے کوئی بڑی مشکل کھڑی ہونے کا امکان نہیں مگر چین یا امریکہ میں سے ایک کا انتخاب آنے والے دنوں میں کرنے کا مرحلہ آیا تو ہم کیا کریں گے؟ اس پر قومی اتفاق رائے ہونا ضروری ہے۔
سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔ پچھلے 50سال میں ان تعلقات میں بہت گرم جوشی رہی ہے۔ فوج سے تعلقات کے علاوہ ہمارے لاکھوں ورکر روزگار کے سلسلے میں سعودیہ میں مقیم ہیں۔ پٹرول اور عطیات کا سلسلہ بھی سعودی عرب سے ملتا رہتا ہے مگر حالیہ دنوں میں ہمارا ترکی، ملائیشیا اور ایرانی بلاک کی طرف رحجان اور سعودی پالیسیوں سے اختلاف ہمارے پچاس سالہ پرانے تعلقات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
سعودی عرب پاکستانی میڈیا کے حوالے سے کافی حساس ہے پاکستان کی اشرافیہ اور میڈیا کے بعض حصوں میں ترکی کے ڈرامےارطغرل سے محبت اور ترکی کے صدر اردوان سے عقیدت کو سعودی عرب میں خاص طور پر نوٹ کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سعودی عرب کے حوالے سے منفی خبروں پر شاہی خاندان میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ پاکستان سعودی عرب سے دور ہوا تو اس کے شدید معاشی نقصانات ہوں گے۔
ترکی ہمارا مخلص دوست ہے۔ ترک پاکستان سے والہانہ محبت بھی کرتے ہیں لیکن ترکی پر ہمارا معاشی انحصار نہ ہونے کے برابر ہے۔ سعودی عرب سے ناراضی کی صورت میں ہمارے لاکھوں لوگ پاکستان واپس بھیجے جا سکتے ہیں وہ پاکستانی ،جو غیر ملکی زر مبادلہ بھیج کر اپنے لاکھوں اہل خانہ کو پال رہے ہیں۔ ان کا کیا بنے گا؟ ترکی یا سعودی عرب، یا پھر ایران یا سعودی عرب میں سے ہم نے کدھر جانا ہے اس پر بھی گہری سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ گاڑی کو سوچ سمجھ کر چلائیں ہر طرف ٹھوکریں ہیں۔
اپنی گاڑی کو محفوظ راستے پر چلاتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم ماضی میں کئی حادثات کروا چکے ہیں امریکی کار کو روسی حکام نے اڑایا تھا۔ یاد رکھنا چاہئے کہ یوٹو نامی طیارہ بڈابیر نزد پشاور سے اڑا تھا اور روسی وزیراعظم نے نقشے میں پشاور پر سرخ دائرہ لگا دیا تھا۔
ہماری گاڑی 1979ء میں پھر امریکیوں نے روس کے خلاف جنگ میں دھکیل دی یہ جنگ ایسی پھیلی ہے کہ اس کی آگ کے شعلے آج تک ہمیں جلا رہے ہیں۔ کبھی افغان تخریب کار آتے تھے تو کبھی پاکستان کی گاڑی کو تباہ کرنے شدت پسند آنے لگے کاش ہم نے افغان جنگ میں کودنے سے پہلے اسباب و علل اور نتائج و عواقب کا جائزہ لیا ہوتا۔
پاکستان کے لئے تاریخ میں پہلی بار یہ نیا موڑ آیا ہے جس میں ہم نے سیاسی معاشی اور قومی خود مختاری کو بھی بچانا ہے ساتھ ہی ساتھ ہمیں پھر سے کسی جنگ میں الجھنے سے بھی بچنا ہے جو بھی فیصلہ کیا جائے وہ پاکستان کے عوام کی معاشی خوشحالی کو مدنظر رکھ کر کیا جائے۔
ایک بات بہرحال طے ہے کہ گاڑی کو تیز رفتاری سے کسی ایک سمت میں جانے سے روکیں توقف کریں سوچیں جائزہ لیں مشورہ کریں اور پھر گاڑی کو محفوظ اور بہترین راستے سے لے جائیں اس سے پہلے کئی ڈرائیور پاکستان کی گاڑی کو غلط سمت لے جاتے رہے ہیں۔ کئی ایک نے حادثات بھی کروا دیئے خون بھی بہا دیا، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ احتیاط کریں۔