Site icon DUNYA PAKISTAN

نوسال‘ دو سودس پیشیاں اور سولہ جج

Share

بعض موضوعات ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر لکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور مشکل یہ نہیں ہوتی کہ کیا لکھا جائے‘ بلکہ یہ ہوتی ہے کہ کیا نہ لکھاجائے۔ جب اس بات کا حساب کرتے ہیں کہ کیا نہ لکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ کچھ بھی نہیں لکھا جا سکتا۔ اب آپ خود سوچیں کہ ایسے میں کیا لکھا جائے؟ ڈر لکھنے کا نہیں! بلکہ اس بات کا ہے کہ اسے چھاپے گا کون؟ چھاپنے والے کی ذمہ داریاں بہرحال لکھنے والے سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں ‘ اسے اور بھی بہت کچھ دیکھنا ہوتا ہے ‘لکھنے والے کا کیا ہے؟ وہ ان بہت سی چیزوں سے بے نیاز ہوتا ہے جسے پبلشرز نے دیکھنا ہوتا ہے۔ عدلیہ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔
اب میری یہ مجال تو نہیں کہ میں پاکستان میں نظامِ عدل کی کارکردگی اور فیصلوں کے بارے میں تبصرہ کروں اور تنقید کی جرأت کروں لیکن خدا کا شکر ہے کہ ابھی مجھے اتنی سہولت میسر ہے کہ میں عدالتی فیصلوں کی تعریف و توصیف کر سکوں اور اعلیٰ عدالتوں کے ریمارکس کی پذیرائی کر سکوں۔ سو آج یہ عاجز یہی کچھ کرنے جا رہا ہے۔ ظاہر ہے عدالتی فیصلوں اور ریمارکس کی شان میں قصیدہ لکھنا نہ تو کوئی جرم ہے اور نہ ہی کوئی بُری بات۔ اب تاریخ تو یاد نہیں تاہم یہ ڈیڑھ دو ماہ پرانا واقعہ ہے اور ا سے میری سستی‘ کاہلی اور ہڈ حرامی پن کہہ لیں کہ میں نے ان ریمارکس کی توصیف کرنے میں اتنا وقت لگا دیا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج مسٹر جسٹس قاضی محمد امین نے ڈیڑھ دو ماہ قبل ضمانت قبل از گرفتاری کے ایک مقدمے میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں نظامِ انصاف تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ میرے جیسے معمولی آدمی میں تو یہ جرأت اورمجال نہ تھی کہ میں یہ بات کروں اور پھر تاریخیں بھگتتا پھروں تاہم میں معزز جج صاحب کی اس بات کی تائید اور تعریف کو دراصل عدلیہ کے وقار کو بڑھانے اور عزت کو چار چاند لگانے کے برابر سمجھتا ہوں۔ سو کم از کم اس عدالتی بیان کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہوئے یہ کہوں گا کہ
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں یہ جانا کہ گویا یہ بھی مرے دل میں ہے
قارئین! آپ میں سے کچھ لوگ اس بات پر حیران ہو رہے ہوں گے کہ آج اچانک بیٹھے بیٹھے میرے دل میں دو ماہ پہلے والے عدالتی ریمارکس کس لئے آ گئے ہیں؟ اس کی وجہ دراصل مورخہ اکیس اگست کو ہونے والا وہ عدالتی فیصلہ ہے جس کے تحت اداکارہ عتیقہ اوڈھو کو دو بوتل شراب رکھنے کے جرم سے باعزت بری کر دیا گیا ہے۔ ان کو اس باعزت بریت کیلئے جو کشٹ کاٹنا پڑا اس کی مدت مبلغ نو سال نصف جس کے ساڑھے چار سال ہوتے ہیں اور اس کے ہمراہ دو سو دس عدد پیشیاں پڑیں۔ اس دوران مقدمہ کو سننے والے سولہ عدد جج تبدیل ہوئے۔ فیصلے میں یہ تھا کہ ان پر جرم ثابت نہیں ہو سکا اس لئے انہیں باعزت بری کیا جاتا ہے۔ کیا عجب انصاف ہے؟
یہ دو عدد شراب کی بوتلیں ان کے سامان میں سے ایئر پورٹ سکیورٹی فورس نے اسلام آباد سے کراچی جاتے ہوئے برآمد کی تھیں اور انہیں اس فلائٹ پر سفرکرنے سے بھی روک دیا تھا۔ اب اتنے آسان سے معاملے کو حل کرنے میں پورے نو سال لگ گئے۔ اور صرف نو سال ہی نہیں لگے‘ بلکہ دو سو دس عدد پیشیاں بھی لگیں۔ اس دوران سولہ عدد جج تبدیل ہوئے اور آخر کار یہ فیصلہ آیا کہ موصوفہ باعزت بری کی جاتی ہیں۔ اب یہ بالکل پتا نہیں چلا کہ مالِ مقدمہ کا کیا بنا؟ شنید تو یہ تھی کہ یہ ولایتی شراب تھی‘ تاہم اس مالِ مقدمہ کی فی زمانہ والی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا ان بوتلوں میں شراب تھی یا شہد تھی؟
راوی کمبخت اس معاملے پر ویسے ہی خاموش ہے جیسا کہ وہ ہر ایسے اہم اور ضروری معاملے میں خاموش ہو جاتا ہے۔ اب اس بارے میں بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ تب یعنی نو سال پہلے شراب کے شہد میں تبدیل ہو جانے کی کرامت ظہور پذیر ہوا کرتی تھی یا شراب میں یہ محیر العقول صلاحیت بعد میں پیدا ہوئی تاہم اس بریت سے کافی سارے سوالات ذہن میں ضرور آتے ہیں۔ ان میں سے جو جو سوال ممنوعہ‘ شرپسندانہ اور مفسدانہ قسم کے خیالات سے تعلق رکھتے تھے ان کو تو میں نے بالکل ایک طرف رکھ دیا ہے تاہم چند بے ضرر اور معصومانہ قسم کے سوالات کرنے میں تو کوئی حرج نہیں۔
محترمہ سے دو عدد بوتلیں برآمد ہوئی تھیں یا سرے سے ہوئی ہی نہیں تھیں؟ اگر برآمد ہوئی ہی نہیں تھیں تو اس پر بعد میں بات کرتے ہیں‘ تاہم اگر ہوئی تھیں تو ان کے اندر کیا تھا؟ شراب تھی یا حسب ِمعمول شہد تھی؟ اگر برآمد ہوئی تھیں اور ان میں شراب تھی تو تعزیراتِ پاکستان کے تحت بہرحال یہ جرم ہے۔ ایئر پورٹ پر شراب پکڑی جائے‘ سرکار مدعی ہو‘ برآمدگی کرنے والی ایئر پورٹ سکیورٹی فورس ہو اور ملزم با عزت بری ہو جائے تو اس نظامِ انصاف کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر سرے سے کوئی شے برآمد ہی نہیں ہوئی تو مقدمہ کس چیز کی برآمدگی پر ہوا ہے؟ ایک اور امکان یہ ہو سکتا ہے کہ محترمہ پر ”مْدعا‘‘ ڈالا گیا ہے یعنی ان سے شراب برآمد نہیں ہوئی‘ ان پر ڈالی گئی ہے تو یہ ایک ایسی ہولناک صورت حال ہے کہ میرا تو دل ہی دہل گیا ہے کہ کل کلاں ایئر پورٹ پر کسی بھی شخص پر کچھ بھی ڈالا جا سکتا ہے؟ ایئر پورٹ سکیورٹی فورس ایک بااعتبار وفاقی ادارہ ہے جو ایئر پورٹ جیسی حساس جگہ کی فول پروف سکیورٹی پر مامور ہے اور اگر اس کے ذریعے کی جانے والی برآمدگی کی کریڈیبلیٹی اتنی مشکوک اور خراب ہے تو پھر ہوائی اڈوں کی حفاظت کا اللہ ہی حافظ ہے۔
لیکن اصل بات پوچھنے والی یہ ہے کہ کیا نظام انصاف اتنا بوسیدہ ہو چکا ہے کہ صرف یہ فیصلہ کرنے میں نو سال لگا دیتا ہے کہ کسی ملزم سے دو بوتل شراب برآمد ہوئی ہے یا نہیں؟ اس کیس کا ایک مدعی ہوگا اور ایک ملزم ہوگا۔ بمشکل چار پانچ گواہان ہوں گے اور ایک عدد برآمدگی رپورٹ‘ فرد مقبوضگی اور دو عدد بوتل شراب بطور مال مقدمہ۔ اب اس میں ایسا کون سا مسئلہ فیثا غورث آن پڑا کہ مقدمہ نو سال چلا۔ اس دوران دو سو دس عدد پیشیاں پڑیں اور سولہ عدد معزز جج ایک ایک کر کے ٹرانسفر ہوتے رہے اور یہ طے نہ کر سکے کہ ملزمہ قصور وار ہے یا بے قصور۔ چالان غلط ہے یا صحیح‘ گواہان جھوٹے ہیں یا سچے‘ ایئر پورٹ سکیورٹی فورس قابلِ اعتبار ہے یا ناقابلِ اعتبار؟ جرم ہواہے یا نہیں؟ شراب سامان سے برآمد ہوئی ہے یا نہیں؟
آخر کار سترہویں جج نے یہ دیکھا کہ ایف آئی آر دو بوتل شراب کی برآمدگی کے (غالباً) دو دن بعد درج کی گئی تھی اس لئے سارا کیس ہی غلط ہے اور ملزمہ بے قصور ہے لہٰذا اسے باعزت بری کیا جاتا ہے۔ اگر بریت اس سادہ سے نکتے پر ہوئی ہے تو سوال یہ ہے کہ نو سال کے عرصہ میں دو سو دس پیشیوں کے دوران کیا کیا گیا؟ یہ سوال بڑا سادہ سا ہے لیکن اس سے ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت ملکِ عزیز میں ایسے اور کتنے کیس ہیں جن میں ملزمان سالوں سے معمولی سی بات پر پیشیوں پر پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ میری کیا مجال کہ اس فیصلے پر تنقید کروں لیکن کیا اعلیٰ عدلیہ اس قسم کے ‘‘فوری انصاف‘‘ کا کوئی حل نکال سکتی ہے ؟
ویسے منیب الحق تو ان دو سودس پیشیوں کی کوئی اور ہی وجہ بتاتا ہے لیکن مسئلہ وہی آن پڑا ہے کہ ایسی شرپسندانہ باتیں لکھی نہیں جا سکتیں اور ا گر لکھ دیں تو چھپ نہیں سکتیں۔

Exit mobile version