’’تاریخ‘‘ بنانے سے فی الحال گریز ہی کریں
اسلام آباد کے سیکٹرF-8/2میں رہتا ہوں۔ اسے ’’خوش حال‘‘ لوگوں کا علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ہفتے کا مگر دوسرا دن ہے کہ صبح سے چولہا جلانے کے لئے گیس نہیں ہے۔نوکر نے مائیکرو ویواوون میںپانی گرم کرکے اس میں ٹی بیگ ڈالا ہے۔چائے اتنی ’’کڑک‘‘ نہیں جو میرے ذہن کو کک سٹارٹ کرنے کے لئے لازمی ہے۔یہ کالم لکھتے ہوئے مگر دانشوری بگھارنا بھی ضروری ہے۔
پنجابی میں جھلاکربسا اوقات ’’انج اے تے انج ای سئی‘‘بھی کہا جاتا ہے۔خود کو ’’دانشور‘‘ ثابت کرنے کی غرض سے آپ کو بتارہا ہوں کہ ڈنمارک کا ایک فلسفی تھا اس کا نام ’’سورن کرکیگارڈ(Soren Kierkegaard)تھا۔ مسیحی مذہب کو اس نے روایتی انداز سے ہٹ کر سمجھنے کی کوشش کی تھی۔پادریوں کی جانب سے کافر ٹھہرائے جانے کے خوف سے بہت عرصہ قلمی ناموں سے لکھتا رہا۔اس کے نظریات کو تھوڑی پذیرائی ملی تو اپنے اصل نام سے لکھنے کی ہمت دکھائی۔ کئی لوگ اسے فلسفہ وجودیت کے بانیوں میں بھی شمار کرتے ہیں۔اگرچہ میری نسل کے لوگ فرانس کے ژاں پال سارتر اور البرٹ کامیو کو اس فلسفے کے نمائندے سمجھتے رہے۔کرکیگارڈ برسوں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی لگن میں مبتلا رہا کہ ’’فرد کی آزادی‘‘ درحقیقت کیا ہے۔تسلی بخش جواب اسے مل نہیں پایا۔بالآخر یہ کہتے ہوئے ہاتھ کھڑے کردئیے کہ ’’(اصل) آزادی اپنی محدودات(Limitations)کو جان لینا ہے‘‘۔ گلی کی زبان میں یوں کہہ لیجئے کہ اپنی ’’اوقات پہچان کر اس تک محدود رہو اور چین سے زندگی بسر کرو۔اسی تناظر میں ’’رب نیڑے یا گھسن‘‘ والے سوال کی اہمیت بھی واضح ہوجاتی ہے۔احتیاطاََ یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ کرکیگارڈ کو یہ گلہ بھی تھا انسان اپنے رائے کے اظہار کی آزادی تو مانگتے ہیں مگر اپنے خیالات کو آزاد کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ ذہنی پرواز کی وہ کوتاہی جس کا شکوہ ہمارے اقبالؔ نے بھی کررکھا ہے۔فلسفے کے بعد اب تاریخ کی طرف جاتے ہیں۔سوویت یونین کا ایک جابر حکمران ہوا کرتا تھا۔اس کا نام سٹالن تھا۔اس کی آمریت کو مگر سرمایہ دارانہ نظام کو شکست دینے کے نام پر سراہا جاتا۔ سٹالن کے زمانے ہی میں ہٹلر بھی نمودار ہوگیا۔وہ ایک وکھری نوعیت کا آمر تھا۔سرمایہ دار اور کمیونسٹ ممالک نے باہم مل کر اسے شکست دینے کی ٹھان لی۔’’کمیونسٹ‘‘ سٹالن کا جب سرمایہ دار ممالک سے ہٹلر کے مقابلے کے لئے اتحادہوگیا تو اس کے ایک مشیر نے صلاح دی کہ یورپ کے عام آدمیوں کے دل میں جگہ بنانے کے لئے سٹالن اس زمانے کے پاپائے روم سے بھی ملاقات کرلے۔اس ملاقات کے ذریعے ہٹلر کے خلاف ایک ’’وسیع تر اتحاد‘‘ بنانے کے تصور کو تقویت ملے گی۔اپنے مشیر کے خطاب کو سپاٹ چہرے سے سننے کے بعد سٹالن نے میرے بھائی وسیم بادامی والا ایک ’’معصومانہ‘‘ سوال کیا۔بڑی سادگی سے اس نے پوچھا کہ ’’پاپائے روم کے پاس جنگ کے لئے کتنے بریگیڈز پرمشتمل فوج موجود ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ مسیحوں کے ’’روحانی‘‘ رہ نما کے پاس ایسی قوت موجود نہیں تھی۔سٹالن کے مشیر کو سوال ہی میں جواب مل گیا۔
سورن کرکیگارڈ کے ’’اوقات‘‘ والے فقرے کو سٹالن کے سوال کے ساتھ ملاکر ذرا غور کرلیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ منگل کے روز آئے ایک عدالتی فیصلے نے کیسی ’’تاریخ‘‘ بنائی ہے۔مشرف صاحب کے عروج کے دنوں میں اپنی ’’اوقات‘‘ میں رہتے ہوئے میں نے اکثر ’’آزادی‘‘ دکھانے کی کوشش کی تھی۔اس کی وجہ سے صحافتی کیرئیر میں ’’لسا‘‘ یعنی کمزور رہا۔بدقسمتی یہ بھی ہوئی کہ عدلیہ بحالی کی تحریک کے آغاز میں پرنٹ صحافت سے ٹی وی سکرین کی جانب منتقل ہوا تو چند مہینوں کی ’’مشہوری‘‘ اور خوش حالی کے بعد ان اینکروں کی صف میں پھینک دیا گیا جنہیں ایمرجنسی پلس لگادینے کے بعد سکرینوں سے غائب کردیا گیا تھا۔تقریباََ چھ ماہ تک گمنام رہا۔ایوانِ صدارت سے مشرف صاحب کی فراغت کے کئی ماہ گزرنے کے بعد میں اپنے گھر کے لان میں دھوپ سینک رہا تھا تو میرے موبائل فون پر لندن کے ایک نمبر سے فون آیا۔میں نے ہیلو کہا تو ایک صاحب نے کہا کہ مشرف صاحب بات کرنا چاہیں گے۔بات ہوئی تو انہوں نے بہت دوستانہ انداز میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ ’’ہم دونوں‘‘ کو ماضی کی تلخیاں بھلادینا چاہیے۔ میں نے منافقانہ عاجزی سے انہیں اطلاع دی کہ وہ میری اوقات سے بہت بلند ہیں۔ان کی جانب سے آیا فون ان کے بڑے پن کو ظاہر کرتا ہے۔میرے لئے یہی کافی ہے۔ بعدازاں ان کی خواہش یہ بھی رہی کہ میں دوبئی میں ان سے ملاقات کروں۔ ان کی ’’میزبانی‘‘سے فائدہ اٹھانے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی۔ٹال مٹول سے کام لیتا رہا۔’’مشرف کے سوا‘‘ زمانے کے جو دیگر دُکھ ہیں ان سے نبردآزما ہونے میں مصروف ہوگیا۔مشرف صاحب کا ذکر چلا ہے تو یہ واقعہ دہرادینے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ صدارت کا منصب سنبھالنے کے چند ماہ بعد آصف علی زرداری نواز شریف صاحب سے ملاقات کرنے رائے ونڈ تشریف لے گئے تھے۔عجب اتفاق یہ ہوا کہ اس ملاقات کے عین دوسرے دن مجھے آصف صاحب نے دوپہر کے کھانے پر طلب کرلیا۔ہم دونوں کے علاوہ کوئی اور کمرے میں موجود نہیں تھا۔آصف صاحب ماحولیات سے متعلقہ معاملات پر گفتگو کرتے رہے۔کافی دیر تک انہیں بہت احترام سے سننے کے بعد میں نے بے تکلفی کا فائدہ اٹھایا۔انہیں یاد دلایا کہ میں ذات کا رپورٹر ہوں۔مجھے بتائیں کہ نواز شریف صاحب سے ان کی کیا گفتگو ہوئی۔آصف صاحب نے فوراََ کہا کہ پوری ملاقات میں نواز شریف صاحب پنجابی میں گلہ کرتے رہے کہ ’’تسی مشرف نوں(بغیر سزا دلوائے)‘‘جانے دیا۔ سابق صدر نے مجھے یاد دلایا کہ وہ رائے ونڈ سرپرسندھی ٹوپی پہن کر گئے تھے۔نواز شریف اپنا گلہ دہراتے رہے تو بالآخر اس ٹوپی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا کہ ’’ہم نے بہت لاشیں دے دی ہیں۔اب حوصلہ نہیں رہا‘‘۔ نواز شریف جب اقتدار میں آئیں تو ’’عوام میں مقبول‘‘ افتخار چودھری صاحب کی سرپرستی میں مشرف سے حساب برابر کرلیں۔ وقت آنے پر نواز شریف صاحب نے حساب چکانے کی کوشش کی۔اس کے بعد جو ہوا وہ بھی ’’تاریخ‘‘ ہے۔ذاتی تعصبات اور شکوہ شکایات سے ذہن کو آزاد کرنے کی کوشش کے بعد جب بھی پاکستان کی موجودہ صورت حال پر غور کرتا ہوں تو دل دہل جاتا ہے۔نہایت دیانت داری سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان کو اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم سے نجات پانے کی اشد ضرورت ہے۔گروہی تعصبات سے بالاترہوکر پاکستان کے بے تحاشہ مسائل کے دائمی حل کے لئے ہماری ہر نوعیت کی اشرافیہ کے مابین سنجیدہ اور کشادہ دلی سے ہوئے مکالمے کی ضرورت ہے۔پرانے ’’حساب‘‘ اب چکائے ہی نہیں جاسکتے۔عمران حکومت کے بیشتر وزراء سکرینوں پر آکر محض Point Scoringکررہے ہیں۔مشرف صاحب کو سزا سنائی جاچکی ۔ اس کے خلاف اپیل میں جاکر معاملے کو مزید گھمبیر بنانے کے بجائے بہتر ہوگا کہ کابینہ کا اجلاس ہو۔اس کے اختتام پر ایک ’’باوقار‘‘ نوعیت کی استدعا تیار ہو۔وہ استدعا صدر مملکت کو بھیج دی جائے اور صدر صاحب مشرف صاحب کو سنائی سزا کو معاف کردیں۔یوں ایک معاملہ کو بھلاکر آگے بڑھنے کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔یقین مانیں اس وقت پاکستان کا بنیادی مسئلہ معیشت ہے۔بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری لاکھوں افراد کو خط غربت کی جانب دھکیل رہی ہے۔اس کمزور معیشت ہی کے سبب عمران خان صاحب ملائیشیاء کی اس کانفرنس میں شریک نہ ہوپائے جو ان کی خواہش پر مہاتیر محمد اور رجب اردوان نے بلائی ہے۔5اگست 2019کے روز سے 80لاکھ کشمیری مسلسل دُنیا کی ایک وسیع ترین جیل میں محصور ہوچکے ہیں۔ہم ان کی خاطر خواہ مدد اپنی معاشی مشکلات کی وجہ ہی سے نہیں کر پائے اور افغانستان میں بھی ایک نیا ’’کٹا‘‘ کھلنے والا ہے۔ اصل مسائل پر توجہ درکار ہے۔’’تاریخ‘‘ بنانے سے فی الحال گریز ہی بہتر ہوگا۔