قرون وسطیٰ کے فارسی صوفی شاعر جلال الدین محمد رومی کی سرمستی میں ڈوبی شاعری کی لاکھوں کاپیاں گذشتہ برسوں کے دوران امریکہ اور دنیا بھر میں فروخت ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ 813 سال قبل وہ سنہ 1207 میں پیدا ہوئے تھے اور آج بھی دنیا بھر میں ان کے پرستاروں کی کوئی کمی نہیں۔
رومی کی سوانح ‘سیکریٹس آف رومی’ نامی کتاب کے مصنف بریڈ گوچ کہا کہنا ہے کہ ’ان کی شخصیت صدیوں سے اسی قدر بلند و بالا اور جاذبِ نظر ہے۔‘
گوچ فرینک اوہارا اور فلینری او کونّر پر اپنی تنقیدی تصنیف کے لیے بھی مشہور ہیں۔ گوچ کہتے ہیں کہ ‘رومی کی زندگی کا نقشہ 2500 میل پر محیط ہے۔’ رومی نے اپنی جائے پیدائش بلخ سے سفر شروع کیا۔ یہ جگہ اب افغانستان میں ہے۔ وہاں سے وہ ازبکستان کے شہر ثمرقند سے ہوتے ہوئے ایران اور شام گئے جہاں دمشق اور حلب میں انھوں نے اپنی جوانی کے عالم میں تعلیم حاصل کی۔
ان کا آخری پڑاؤ ترکی میں قونیہ تھا جہاں رومی نے اپنی زندگی کے آخری 50 سال گزارے۔ آج رومی کے مقبرے پر ہر سال 17 دسمبر کو ان کی وفات کی برسی کے موقع پر درویشوں کی تقریب کے لیے عقیدت مند اور سربراہان مملکت جمع ہوتے ہیں۔
رومی کی زندگی میں سنہ 1244 میں ایک ایسا لمحہ آیا جس نے ان کی زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ان کی ملاقات ایک آزاد منش صوفی شمس تبریز سے ہوئی۔
گوچ کہتے ہیں: ‘اس وقت 37 سالہ رومی اپنے باپ دادا کے نقش قدم پر روایتی مسلمان مبلغ اور عالم تھے۔ لیکن ان دونوں میں برقی دوستی تین سال تک قائم رہی جب وہ عاشق اور محبوب [یا] شاگرد اور شیخ رہے، جو کبھی واضح نہیں ہوسکا۔’ رومی صوفی ہو گئے۔ تین سال بعد شمس غائب ہوگئے شاید ‘رومی کے کسی حاسد بیٹے نے ممکنہ طور پر انھیں قتل کر دیا، اور ممکنہ طور پر رومی کو ہجر کا ایک اہم سبق سکھا دیا۔’
رومی نے شعر سے اس ہجر کا مقابلہ کیا۔ ‘ان کی تمام تر تصانیف 37 سے 67 سال کی عمر تک کی ہیں۔ اس میں شمس، پیغمبر اسلام محمد اور اللہ کے لیے انھوں نے تقریباً 3000 [محبت کے گیت] لکھے۔ انھوں نے دو ہزار رباعیات اور قطعات لکھے۔ انھوں نے چھ جلدوں میں روحانی رزمیہ مثنوی لکھی۔’
ان برسوں کے دوران رومی نے شاعری، موسیقی اور رقص کو مذہبی عمل میں شامل کر دیا۔ گوچ کہتے ہیں کہ ‘رومی جب مراقبے میں جاتے یا شعر کہتے تو ایک انداز میں رقص کرتے اور گھوم کر اسے لکھواتے۔’ اسے بعد میں ان کی وفات کے بعد پروقار استغراق والے رقص کے طور پر بنایا گیا۔’ اور جیسا کہ خود رومی نے اپنی 2351 ویں غزل میں لکھا ہے۔ ‘میں دعائیں کرتا تھا، اب میں شعر، نظم اور گيت پڑھتا ہوں۔’
ان کی وفات کے سینکڑوں سال بعد بھی اب تک رومی کے کلام کو پڑھا جاتا ہے، اس کا ورد کیا جاتا ہے، اسے موسیقی کے ساتھ گایا جاتا ہے، اور ناولوں، نظموں، موسیقی اور فلموں کے لیے اس سے تحریک حاصل کی جاتی ہے، اس کے تعلق سے یوٹیوب ویڈیوز اور ٹویٹس کے طور پر ان کے قول سامنے آتے ہیں۔ گوچ بھی رومی سیکریٹس کے تحت ٹویٹ کرتے ہیں۔ رومی کا کلام آخر اتنے عرصے تک کیونکر زندہ ہے؟
نگاہ باطن
گوچ کہتے ہیں: ‘وہ خوشی اور محبت کے شاعر ہیں۔ ان کا کلام شمس کی جدائی اور محبت اور خالق اور موت کی یاد کے نتیجے میں سامنے آتا ہے۔ رومی کا پیغام تمام طرح کی سرحدوں کو عبور کرتا ہے اور بات چیت کرتا ہے۔ میں نے ایک بار بمپر سٹیکر دیکھا جس پر رومی کی ایک سطر لکھی تھی: ‘غلط اور صحیح کے درمیان ایک میدان ہے۔ میں وہاں آپ سے ملوں گا۔’
ناروپا یونیورسٹی میں شعریات کی پروفیسر اور شاعرہ اینی والڈ مین کہتی ہیں کہ ‘رومی ہمارے زمانے کے بہت ہی پراسرار اور اشتعال انگیز شاعر اور شخصیت ہیں، کیونکہ جب ہم صوفی روایت کو سمجھنے [اور] وجد و سرمستی اور عقیدت کی نوعیت اور شاعری کی طاقت کو سمجھنے کے لیے نکلتے ہیں تو وہ ہمیں جکڑ لیتے ہیں۔’ وہ مزید کہتی ہیں کہ ‘ان کے یہاں مکمل یا خام شکل میں ہم جنس پرستانہ روایت بھی ہے۔ وہ سفو سے لے کر والٹ وہٹ مین تک سرمست صاحب نظر میں سے ایک ہیں۔’
پوئٹس ہاؤس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور امریکہ میں رومی پر نیشنل لائبریری سیریز کی مشترک سپانسر لی برائیسیٹی کہتی ہیں کہ ‘وقت، جگہ اور ثقافت کی قیود سے باہر رومی کی نظمیں اپنی جاودانی کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ اور وہ ہمیں ہماری اپنی محبت کو تلاش کرنے اور روزمرہ کی زندگی کی خوشی کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔’ وہ رومی کے کلام کا موازنہ اس کی ‘گونج اور خوبصورتی’ کے لحاظ سے شیکسپیئر سے کرتی ہیں۔
رومی کے کلام کو ترجمہ کرکے امریکہ میں روشناس کروا کر نشاۃِ ثانیہ پیدا کرنے والے اور امریکہ میں رومی کو ’بیسٹ سیلنگ‘ کا درجہ دلوانے والے کولمین بارکس بتاتے ہیں کہ رومی کو دوام اس لیے نصیب ہے کیونکہ ‘ان کے تخیل کی حیرت انگیز تازگی ہے اور اس سے پیدا ہوتی ہوئی شدید آرزو ہے، ان کے حس مزاح اور ان کے کھیل میں بھی عقل و دانش مندی کی باتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔’
سنہ 1976 میں شاعر رابرٹ بلائی نے بارکس کولمین کو کیمبرج کے اے جے آربری کے رومی کے ترجمے کی ایک نقل پیش کی اور کہا: ‘ان اشعار کو پنجروں سے رہا کرنے کی ضرورت ہے۔’ بارکس نے انھیں سخت تعلیمی زبان سے نکال کر امریکی طرز کی آزاد نظم کے قالب میں ڈھال دیا۔ تب سے بارکس نے تراجم کی 33 سالوں میں 22 جلدیں تیار کر ڈالیں جن میں ‘دی ایسنشیئل رومی، اے ایئر ود رومی ، رومی: دی بگ ریڈ بک اور رومی کے والد کی روحانی ڈائری، دی ڈراونڈ بک، شامل ہیں اور یہ تمام کتابیں ہارپر ون نے شائع کی ہیں۔ اس کی 20 لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئی ہیں اور 23 زبانوں میں ان کا ترجمہ کیا گیا ہے۔
اپنے وقت سے 800 سال آگے
بارکس کا کہنا ہے کہ ‘مجھے لگتا ہے ابھی ایک مضبوط عالمی تحریک چل رہی ہے، ایک ایسا جذبہ بیدار ہے جو فرقہ وارانہ تشدد اور مذہب کی قائم کردہ حدود کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تمام مذاہب کے لوگ 1273 میں رومی کے جنازے میں آئے تھے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمارے عقیدے کو پختہ کرتے ہیں۔ ان کی اپیل میں یہ ایک طاقتور عنصر ہے۔’
رٹگرز یونیورسٹی میں قرون وسطیٰ کے تصوف کے سکالر اور رومی کے ایوارڈ یافتہ مترجم جاوید مجددی کہتے ہیں: ‘رومی فارسی شاعروں میں ایک تجرباتی جدت پسند تھے اور وہ ایک صوفی پیر تھے۔ صوفیانہ خیالات کو جرات مند شاعرانہ لباس میں پیش کرنا آج ان کی مقبولیت کی کلید ہے۔’
مجددی کہتے ہیں کہ رومی کی چار اہم ایجادات میں سے پہلا یہ ہے کہ وہ قاری کو براہ راست مخاطب کرتے ہیں جو کہ اس وقت نادر چیز تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ عصری قارئین اس براہ راست خطاب سے اچھی طرح خود کو ہم آہنگ پاتے ہیں۔’
دوسری چیز ان کی سکھانے کی کوشش ہے: ‘ترغیبی ادب کے قارئین رومی کی شاعری کی طرف راغب ہیں۔’ تیسرے ‘ان کا روزمرہ کی منظر کشی کا استعمال۔’ اور چوتھے ‘ان کی غزلیات میں محبوب سے وصل کی پرزور امید ہے۔ یہاں روایت محبوب کے ظلم کو بیان کرنے اور اس کے ناقابل حصول ہونے کی رہی ہے لیکن رومی محبوب سے وصل کا جشن مناتے ہیں۔
جیسے جیسے نئے تراجم سامنے آ رہے ہیں ان کے کلام کی گونج بڑھتی جارہی ہے۔ رومی کا اثر و رسوخ برقرار رہے گا۔ یہ اشعار اور دلپذیر الفاظ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ شاعری روز مرہ کی زندگی کا ایک پائیدار حصہ کیسے ہوسکتی ہے۔