منتخب تحریریں

وجدان کے راستے

Share

عمر ہم نے اپنی پتا نہیں کہاں ضائع کر دی۔ اَب کہیں جا کے استاد بڑے غلام علی خاں کا راگ یمن میں ترانہ سننے کا نادر موقع میسر ہوا ہے۔ یوٹیوب پہ آوارگی کررہے تھے کہ یہ تقریباً ساڑھے تین منٹ کا ترانہ ملا اور سنتے ہی کیفیت یوں ہوگئی جیسے غش طاری ہوگیا ہے۔ خاں صاحب کی تعریف میں کچھ کہنا بیکار کی بات ہے کیونکہ اُن کی گائیکی کا معترف عالم چھوڑئیے آسمان بھی ہے۔ لیکن پھر بھی یہ کہنے کی اجازت ہونی چاہیے کہ جوکوئی اس ترانے کے تھوڑے سے ٹکڑے کو پہلی بار سُنے وہ محوِ حیرت ہوجائے۔ دن کاآغاز اس ترانے کے سننے سے ہو تو میرایقین ہے کہ انسان کے ذہن میں کم ازکم اُس ایک دن کیلئے کوئی لغو یا گھٹیا سوچ نہ آئے۔
کیا عجب کہ روزِ حساب کوئی گناہگاراس ترانے سے آگاہی کا بتائے اور وہ باعثِ رعایت بن جائے۔ سوال کرنے والوں کے لبوں پہ بھی ہلکی سی مسکراہٹ پھیل جائے؛ البتہ ہمارا ملال اپنی جگہ ہے۔ تمام عمر ہم کیا جھَک مارتے رہے کہ ایسی عظیم گائیکی سے اب تک ناآشنا رہے۔ خاں صاحب کو سُنتے تو آئے ہیں۔ ایک آدھ بار ہندوستان گئے تو اِن کے دو تین سی ڈیز اُٹھا لائے۔ اِن میں سے ایک ان کا گایا ہوا راگ جے جے وَنتی ہے۔ یقین مانیے اِس سے بڑھ کے گائیکی ناممکن ہے۔ یوٹیوب نے آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ تمام نہیں تو بہت سا اِن کا ذخیرہ وہاں محفوظ ہے۔ ایک یمن انہوں نے 1956ء میں بنگلور میں گایا۔ اِسے سنیے تو انسان دنیا بھول جائے۔ اکثر رات کو جب نیند نہ آئے تو یہ والی ریکارڈنگ میں لگا لیتا ہوں۔ ایسی مسحور کن گائیکی ہے کہ چند لمحوں میں نیند کی وادی آغوش میں لے لیتی ہے۔
جس ترانے کا ذکر کیا اُس کے علاوہ ایک خاں صاحب کا راگ کیدار چند روز پہلے ہی یوٹیوب کے ذخیرے سے دستیاب ہوا۔ تعریف کرنے کیلئے الفاظ نہیں مل رہے۔ خاں صاحب کی گائیکی کا تکنیکی تجزیہ میں پیش نہیں کر سکتا کیونکہ کلا سیکل موسیقی کی میری اتنی جانکاری نہیں۔ سچ پوچھیے تو تکنیکی نالج میرا کلاسیکی موسیقی کے بارے میں بالکل نہیں۔ موسیقی کا کچھ اثر ہو تو بیان کرنے کی جسارت ہوجاتی ہے۔ اس موقع پہ بھی کیفیت کچھ ایسی ہی ہے۔ خاں صاحب کے راگ کیدار کا صحیح معنوں میں تجزیہ میرے بس کی بات نہیں لیکن اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ایسا گانا تان سین نے گایا ہو گا اور اکبر اعظم نے سنا ہو گا۔ اور کوئی بشر ایسا گا نہیں سکتا۔ ممکن ہے اگلے جہان بھی خان صاحب کا کوئی چاہنے والا اس راگ کی فرمائش کر دے۔ ایک گائیکی ہوتی ہے زمانے کیلئے اور ایک ہوتی ہے زمانوں کیلئے۔ یعنی وہ جسے ہم انگریزی میں for the ages کہتے ہیں۔ خاں صاحب کسی ایک راگ کے گانے کیلئے مشہور نہیں۔ انہوں نے جو بھی گایا کمال ہی کر دیا‘ لیکن چھوٹے منہ سے یہ بات ضرور کروں گا کہ اُن کا یہ گایا ہوا راگ واقعی لافانی ہے۔
اسے بد بختی ہی سمجھنا چاہیے کہ خاں صاحب تھے اُس دھرتی کے جو ہمارے حصے میں آئی۔ قصور اُن کا آبائی شہر تھا جیسا کہ نور جہاں کا بھی تھا‘ لیکن وہ کیا اسباب تھے کہ خاں صاحب یہاں ٹھہر نہ سکے اور وہ ہندوستان ہجرت کر گئے۔ سارے کے سارے راگ ہم مسلمانوں کے نہیں ہیں لیکن بہت سے ہیں۔ اونچے گوّیے ہندو بھی بہت رہے لیکن مسلمان گوّیوں کی فہرست بنائی جائے تو آدمی اش اش کر اُٹھتا ہے۔ کتنے بڑے نام تھے لیکن سوال اُٹھتا ہے کہ یہاں وہ کیوں نہ رہ سکے۔ جن بچے کُھچے ناموں نے اس دیس کو اپنا گھر بنایا یہاں کے ماحول نے اُن کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک نہ کیا۔ خاں صاحب کو تو یہاں رہنا چاہیے تھا لیکن دل سے یہ آواز بھی اُٹھتی ہے کہ ہم نے اُنہیں ذلیل کرکے رکھ دینا تھا۔ اپنا دیس ہم نے اور چیزوں کیلئے تو بنایا ہو گا لیکن فن کی پرورش کیلئے نہیں۔ میڈم نور جہاں نے اپنا مقام برقرار رکھا تو اپنے فن اور ہمت کے زور پر۔ مہدی حسن نے نام کمایا تو وہ بھی اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پہ۔
ہمارے زعم کچھ اور تھے۔ جسے ہم آرٹ یا فنون لطیفہ کہتے ہیں اُنہیں ہم تھوڑے پرلے درجے کے مشاغل سمجھتے تھے۔ وہ کیا شعر ہے ‘طاؤس و رباب آخر اور شمشیر و سناں اول‘ ایسا بھی صحیح معنوں میں ہوتا پھر بھی ٹھیک تھا۔ یونان کے جو پرانے سٹی سٹیٹ تھے اُن میں سپارٹا (Sparta) جنگجو قسم کا سٹی سٹیٹ سمجھا جاتاتھا۔ جنگ کے میدان میں پھر سپارٹا نے اپنا لوہا منوایا۔ انگریزی کا لفظ سپارٹن (spartan) یعنی جان فشانی کا مظہر سپارٹا کے نام سے آتا ہے۔ اگر فنون لطیفہ کو ہم وہ پذیرائی نہ دے سکے جو دینی چاہیے تھی پھر ہم سپارٹا تو بنتے‘ لیکن ایسا بھی نہ ہوسکا۔ سپارٹا ہوتے تو کشمیر پہ قبضہ کرلیتے‘ اوردنیا کے ہرکونے میں کشمیر کا رونا نہ رو رہے ہوتے۔ ہندوؤں کو ہم میدان جنگ کے قابل سمجھتے ہی نہیں تھے۔ پاکستان کے شروع کے سالوں میں ہمارا زعم تھا کہ میدان جنگ میں ایک مسلمان دس ہندوؤں کے برابر ہے لیکن جب جنگ کا میدان سجا تو ہمارا ریکارڈ کوئی اتنا حوصلہ افزا نہ ٹھہرا۔ یعنی شمشیروسناں میں بھی اول نہ رہے اور طاؤس و رباب میں تو ہم ویسے ہی پیچھے تھے۔ نہ سپارٹا بنے نہ اُستاد بڑے غلام علی خاں جیسے لوگوں کو رکھ سکے۔
اگلے روز پتا چلا کہ مشہور انڈین ایکٹر، سکرپٹ رائٹر اور ڈائریکٹر آئی ایس جوہر (اِندر سنگھ جوہر) ہمارے تلہ گنگ علاقے میں پیدا ہوئے تھے۔ بعد میں لاہور میں پڑھے اور پھر ہندوستان چلے گئے۔ مشہور میوزک پروڈیوسر مدن موہن چکوال کے پیدائشی تھے۔ شاہد صدیقی صاحب کے کالم سے پتا چلاکہ اُن کے خاندان کا آبائی گھر ہمارے چکوال کے موتی بازار میں تھا۔ مشہور انڈین ایکٹر بلراج ساہنی بھیرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ سنجے دَت کے والد سنیل دَت جہلم کے قریب موضع کالا ڈپو کے پیدائشی تھے۔ مشہور لکھاری گلزار کا تعلق دینہ سے تھا۔ خشونت سنگھ خوشاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے۔ بلندیوں پہ پہنچے والی انڈین ایکٹر اور گلوکارہ ثریا گوجرانوالہ سے تھیں۔ شمشاد بیگم باغبان پورہ لاہورمیں پیدا ہوئیں۔ اپنے زمانے کی نہایت ہی خوبصورت ایکٹریس شیاما بھی باغبان پورہ کی تھیں۔
سوال یہ ہے کہ تلہ گنگ میں پھر کوئی آئی ایس جوہر کیوں نہ پیدا ہوسکا۔ چکوال سے ایک عدد اور مدن موہن کیوں نہ اُبھرا۔ بھیرہ سے دوسری صف کے سیاستدان ضرور آئے لیکن کوئی دوسرا بلراج ساہنی کیوں نہ آسکا۔ وہ ماحول کہاں گیا جس سے اِس قسم کے عظیم فنکاروں کو پرورش ملی؟ یہ علاقے پہلے اتنے مردم خیز کیوں تھے اور پھر انہیں کیا بیماری لگی کہ ایسے لوگوں کا آنا ہی بند ہوگیا۔ گوجرانوالہ اب کس چیز کیلئے مشہورہے؟ چڑوں کا ایک خاص سالن تیار ہوتاہے جس کا ذکر بڑے فخر سے کیاجاتا ہے۔ پہلوانوں کیلئے بھی شہر مشہور ہے اور کچھ ڈنڈا ماروں کیلئے۔ کوئی دوسری ثریا گوجرانوالہ کی گلیوں سے نمودار کیوں نہ ہو سکی؟
بلراج ساہنی سے یاد آیاکہ اداکاری دیکھنی ہو تو اُن کی فلم ‘گرم ہوا‘ دیکھی جائے۔ اس فلم کا موضوع تقسیم ہند ہے۔ زمین کا بٹوارہ کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔ کینیڈا کا صوبہ کیوبیک ملک سے علیحدہ ہونا چاہتا تھا۔ ریفرنڈم ہوا، کیوبیک والے ہار گئے جس کی وجہ سے کینیڈا کا بٹوار ہ نہ ہوا۔ سکاٹ لینڈ برطانیہ سے علیحدہ ہونا چاہتا تھا۔ وہاں بھی ریفرنڈم ہوا اور سکاٹ لینڈ والے ہار گئے۔ چیکوسلواکیہ ایک ملک تھا اب اس کی تقسیم ہوچکی ہے۔ ہندوستان کا بھی بٹوارہ ہوا اور ہمارے حصے میں اچھی خاصی زمین آئی۔ ہم اسے کیا سے کیا نہ بنا سکتے تھے۔ لیکن زمین کے علاوہ جو ورثے کا بٹوارہ ہوا ہم اُسے سنبھال نہ سکے۔ یہی وجہ تھی کہ اُستاد بڑے غلام علی خاں جیسے عظیم فنکار نے یہاں سے جانے میں عافیت سمجھی۔ نقصان ہمارا تھا لیکن اس سے بڑا المیہ کیا کہ اِس کا احساس تک ہمیں نہ ہوا۔