کھیل

کرکٹ سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے 10 سال: دنیا کو دھوکہ دینے والی تین ’نو بالز‘ جو بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں

Share

26 اگست 2010 یعنی آج سے ٹھیک دس برس قبل پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ٹیسٹ سیریز کا چوتھا اور آخری ٹیسٹ لارڈز میں شروع ہوا۔ کپتان سلمان بٹ نے ٹاس جیت کر انگلینڈ کو بیٹنگ کی دعوت دی لیکن خراب موسم کی وجہ سے صرف 12.3 اوورز کا کھیل ہی ہو پاتا ہے۔

محمد عامر انگلینڈ کی اننگز کا تیسرا اوور کروانے آئے تو اُن کے سامنے الیسٹر کک بیٹنگ کر رہے تھے۔ اوور کی پہلی گیند پر محمد عامر کا پیر لائن کو کراس کرتا ہے جس پر امپائر بلی باؤڈن نو بال کا اشارہ دیتے ہیں۔

اننگز کا دسواں اوور محمد آصف کراتے ہیں ان کے سامنے کپتان اینڈریو اسٹراؤس ہیں۔ اس اوور کی چھٹی گیند پر امپائر ٹونی ہل کی جانب سے نو بال کا اشارہ ہوتا ہے۔

27 اگست 2010 کو چوتھے ٹیسٹ میچ کے دوسرے دن انگلینڈ کی بیٹنگ لائن محمد عامر کی بولنگ کے سامنے مشکلات کا شکار نظر آتی ہے۔ عامر صرف تیرہ گیندوں پر بغیر کوئی رن دیے چار وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اس دوران وہ ٹیسٹ کرکٹ میں پچاس وکٹیں مکمل کرنے والے دنیا کے سب سے کم عمر بولر کا اعزاز بھی حاصل کر لیتے ہیں۔

محمد عامر اپنی بولنگ کے اس شاندار مظاہرے کے دوران اُس دن کے اپنے تیسرے اوور کی تیسری گیند جوناتھن ٹراٹ کو شارٹ پچڈ کرتے ہیں، لیکن امپائر بلی باؤڈن کو اسے نو بال دینے میں کوئی دشواری اس لیے نہیں ہوتی کیونکہ عامر کا پاؤں کریز سے کافی آگے چلا جاتا ہے یہاں تک کہ سکائی ٹی وی پر کمنٹری کرنے والے مائیکل ہولڈنگ اور ای این بوتھم بھی حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔

نو بال

بوتھم کی آواز سنائی دیتی ہے ’یہ نیٹ میں کی جانے والی بولنگ معلوم ہو رہی ہے۔‘

طوفان آنا ابھی باقی ہے

دو دن کے کھیل میں یہ تین نو بالز بظاہر کھیل میں معمول کا حصہ معلوم ہو رہی تھیں لیکن کسے خبر تھی کہ ان تین نو بالز کے تانے بانے پہلے سے بُنے جا چکے تھے۔

28 اگست 2010 کو لارڈز گراؤنڈ میں پویلین کی بالکونی میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے منیجر یاور سعید کے ہاتھوں میں اخبار ’نیوز آف ورلڈ‘ کا شمارہ تھا اور اُن کی نظریں اُس خبر پر جمی ہوئی تھیں جن کا تعلق انھی تین نو بالز سے تھا جو ان کے فاسٹ بولرز محمد عامر اور محمد آصف کرا چکے تھے۔

اس خبر میں چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ ان بولرز نے یہ تین نو بالز پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت کروائی تھیں۔

نیوز آف دی ورلڈ کی خبر میں بتایا گیا تھا کہ یہ منصوبہ 25 اگست 2010 کو لندن کے ایک ہوٹل کے کمرے میں طے پایا تھا جب پاکستانی کرکٹرز کے ایجنٹ کے طور پر دنیا کے سامنے رہنے والے مظہر مجید نے ایک انڈر کور صحافی مظہر محمود سے ملاقات کی۔

اس صحافی نے خود کو میچ فکسر ظاہر کیا لیکن دراصل یہ ایک سٹنگ آپریشن تھا جس میں اس کی مظہر مجید کے ساتھ ہونے والی تمام گفتگو ریکارڈ ہو رہی تھی۔

اس ویڈیو میں میز پر سجے ڈیڑھ لاکھ نشان زدہ برطانوی پاؤنڈز کے سامنے بیٹھے مظہر مجید کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ محمد عامر اور محمد آصف میرے بتائے ہوئے منصوبے کے مطابق کب کب نو بال کریں گے۔

مظہر مجید نے جن جن گیندوں کی نشاندہی کی تھی محمد عامر اور محمد آصف نے انھی گیندوں پر نو بالز کی تھیں۔

مظہر مجید
،تصویر کا کیپشنمظہر مجید (فائل فوٹو)

لارڈز ٹیسٹ کے تیسرے دن کے اختتام کے بعد لندن پولیس نے پاکستانی ٹیم کے ہوٹل پر چھاپہ مارا۔ اس دوران محمد عامر کے کمرے سے پندرہ سو پاؤنڈ اور کپتان سلمان بٹ کے کمرے سے ڈھائی ہزار پاؤنڈ کے نشان زدہ نوٹ برآمد ہوئے۔

ہیڈ کوچ وقاریونس نوبال پر حیران

سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے وقت وقار یونس پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ تھے۔

وقار یونس نے بی بی سی اردو کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا تھا کہ جب انھوں نے ڈریسنگ روم میں محمد عامر کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ تم نے اتنی بڑی نو بال کیسے کی تو اس سے پہلے کہ عامر جواب دیتے کپتان سلمان بٹ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے عامر کو ہدایت کی تھی کہ آگے نکل کر باؤنسر کرو کیونکہ بیٹسمین فرنٹ فٹ پر کھیل رہا تھا۔

وقار یونس کا کہنا تھا کہ جب کپتان نے یہ بات کہہ دی تو کوچ کی حیثیت سے ان کے پاس کپتان کی بات ماننے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا لیکن انھوں نے اپنی اس حیرانی کا اظہار آئی سی سی اینٹی کرپشن یونٹ کے سامنے بیان میں ضرور کیا تھا۔

وقار یونس نے اپنے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ جب یہ سکینڈل سامنے آیا تو وہ دن جس طرح گزرے وہ بیان سے باہر ہیں۔

محمد آصف

پولیس تینوں کرکٹرز کو حراست میں لینا چاہتی تھی

سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے موقع پر لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن تھے۔ دس سال گزر جانے کے باوجود وہ اس واقعے کی تلخی کو آج بھی محسوس کرتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے واجد شمس الحسن نے بتایا کہ اس واقعے نے ملک اور خاص کر برطانیہ میں رہنے والے پاکستانیوں پر منفی اثرات مرتب کیے تھے اور پاکستانی کرکٹ شائقین سخت ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ہائی کمشنر کی حیثیت سے انھیں بھی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا خاص طور پر ایسے وقت میں جب پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ لندن میں ہوتے ہوئے بھی منظر نامے سے غائب ہو چکے تھے اور انھیں خود بھی میڈیا کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ اس وقت ان کے ساتھ صرف پاکستان کرکٹ بورڈ کے قانونی مشیر تفضل حیدر رضوی موجود تھے۔

واجد شمس الحسن کا کہنا ہے کہ انھیں آج بھی یاد ہے کہ جب پولیس نے ٹیم ہوٹل پر چھاپہ مارا تو اطلاع ملتے ہی وہ وہاں پہنچ گئے تھے اور وہاں موجود چیف پولیس سپرنٹنڈنٹ کریسیڈا ڈک سے ان کا سخت جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ پولیس تینوں کرکٹرز کو حراست میں لینا چاہتی تھی لیکن انھوں نے کہا کہ جب تک ان کرکٹرز کے خلاف شواہد نہ ہوں وہ ایسا نہیں کر سکتی کیونکہ جب تک الزامات ثابت نہیں ہو جاتے ان کرکٹرز سے مجرموں جیسا سلوک نہیں کیا جا سکتا۔

پولیس چیف نے کرکٹرز کو حراست میں نہ لینے کی بات مان لی تھی لیکن وہ ان کے پاسپورٹس اپنی تحویل میں لینا چاہتی تھیں تاہم ان کے کہنے پر وہ یہ پاسپورٹس پاکستانی ہائی کمیشن کے پاس رکھنے پر راضی ہو گئی تھیں۔

واجد شمس الحسن
،تصویر کا کیپشنپاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کو اس معاملے میں میڈیا کا سامنا کرنا پڑا تھا (فائل فوٹو)

واجد شمس الحسن کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں رہتے ہوئے وہاں کے قوانین کے مطابق ان کا یہ مؤقف بالکل بجا تھا کہ الزامات ثابت ہونے تک یہ کرکٹرز بے گناہ ہیں اور اسی نکتے کی بنیاد پر انھوں نے ان کرکٹرز کا اس وقت دفاع کیا تھا لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ اگر ان کرکٹرز پر الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو وہ خود اپنی حکومت سے کہیں گے کہ ان کرکٹرز کو سخت ترین سزائیں دی جائیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ تاثر درست نہیں کہ انھوں نے اُس وقت جو بیانات یا انٹرویو دیے تھے وہ جذباتی نوعیت کے تھے۔

واجد شمس الحسن کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس معاملے میں انڈین سازش کا نکتہ صرف اسی صورت میں اٹھایا تھا جب آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹیو ہارون لوگارٹ نے پاکستانی ہائی کمیشن میں ان سے ملاقات کے دوران آئی سی سی کے صدر شرد پوار سے رابطہ کیا۔

انھوں نے کہا کہ ان دونوں کی گفتگو انھیں پاکستان کو بدنام کرنے سے متعلق معلوم ہوئی تھی، ہارون لوگارٹ کا جھکاؤ بھی یہی بتا رہا تھا۔ ہارون لوگارٹ نے انھیں کسی قسم کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا تھا کیونکہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔

سلمان بٹ

تینوں کرکٹرز جھوٹ بول رہے تھے

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین اعجاز بٹ نے بی بی سی اردو کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں اس بات پر دکھ کا اظہار کیا تھا کہ سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں آئی سی سی کی جانب سے سزائیں ملنے کے باوجود مظہرمجید سے دور نہیں ہوئے اور اس سے رابطے میں رہے۔

تینوں کرکٹرز مسلسل جھوٹ بول کر حقیقت چھپاتے رہے تھے۔

اعجاز بٹ جب آئی سی سی کے اینٹی کرپشن یونٹ اور سکاٹ لینڈ یارڈ کے حکام سے دبئی میں ملے تھے تو انھوں نے اعجاز بٹ کو بتایا تھا کہ آئی سی سی کے اینٹی کرپشن یونٹ کی جانب سے سزائیں ملنے کے بعد بھی یہ تینوں کرکٹرز مظہر مجید سے رابطے میں رہے ہیں۔

ان حکام نے اعجاز بٹ کو جو تفصیلات فراہم کی تھیں ان کے مطابق پابندی کی سزا کے بعد بھی سلمان بٹ نے مظہر مجید سے فون کالز اور میسیجز کی شکل میں 140 مرتبہ رابطہ کیا جبکہ محمد عامر نے تقریباً سو مرتبہ اور محمد آصف نے تقریباً چالیس مرتبہ مظہر مجید سے رابطہ کیا، یہ تمام ریکارڈ آئی سی سی اور سکاٹ لینڈ یارڈ کے پاس موجود تھا۔

سزا پانے والے کھلاڑیوں کو جیل لے جایا جا رہا ہے
،تصویر کا کیپشنسزا پانے والے کھلاڑیوں کو جیل لے جایا جا رہا ہے (فائل فوٹو)

کرکٹرز کو جیل جانا پڑا

سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کو آئی سی سی کے اینٹی کرپشن ٹریبیونل کے ساتھ ساتھ لندن کی عدالت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

آئی سی سی کے اینٹی کرپشن ٹریبیونل نے سلمان بٹ پر دس سال کی پابندی عائد کر دی جن میں پانچ سال معطلی کے تھے۔ محمد آصف پر سات سال کی پابندی عائد کی گئی جن میں دو سال معطلی کے تھے جبکہ محمد عامر کو پانچ سالہ پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔

محمد آصف اور سلمان بٹ نے آئی سی سی کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے فیصلے کے خلاف کھیلوں کی عالمی ثالثی عدالت میں اپیل دائر کی تھی جو مسترد کر دی گئی۔

لندن کی عدالت نے تینوں کرکٹرز اور مظہر مجید کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائیں دیں جن کے مطابق سلمان بٹ کو ڈھائی سال، محمد آصف کو ایک سال اور محمد عامر کو چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ مظہرمجید کو دی گئی سزا دوسال آٹھ ماہ قید کی تھی۔

محمد عامر
،تصویر کا کیپشنسپاٹ فکسنگ سکینڈل نے سب سے زیادہ نقصان اٹھارہ سالہ محمد عامر کو پہنچایا جو اس سیزن میں شاندار بولنگ کرتے آ رہے تھے (فائل فوٹو)

عرش سے فرش پر

سپاٹ فکسنگ سکینڈل نے سب سے زیادہ نقصان اٹھارہ سالہ محمد عامر کو پہنچایا جو اس سیزن میں شاندار بولنگ کرتے آ رہے تھے۔

انھوں نے آسٹریلیا کے خلاف ہیڈنگلے ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سات وکٹیں حاصل کی تھیں۔ انگلینڈ کے خلاف اوول ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں انھوں نے پانچ بیٹسمینوں کو آؤٹ کیا اور پھر متنازع نو بال والے لارڈز ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں انھوں نے چھ وکٹیں حاصل کی تھیں۔

وہ اپنی شاندار بولنگ کی وجہ سے مین آف دی سیریز قرار پائے تھے لیکن شائقین کے شدید ردعمل سے بچنے کے لیے انعامات دینے کی تقریب گراؤنڈ کے بجائے ہال میں رکھی گئی تھی۔

اس تمام صورتحال کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ محمد عامر نے اس سیزن کے چھ ٹیسٹ میچوں میں 30 وکٹیں حاصل کی تھیں لیکن سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے وہ وزڈن کے سال کے پانچ بہترین کرکٹرز میں شامل نہیں کیے گئے تھے اور اس سال وزڈن نے پانچ کے بجائے چار کرکٹرز کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

وزڈن کے ایڈیٹر شلڈ بیری نے لکھا تھا کہ اس فہرست میں شامل پانچواں نام پاکستانی کرکٹر کا تھا لیکن مبینہ سپاٹ فکسنگ کی وجہ سے ان کا نام شامل نہیں کیا گیا۔ اگر وہ اس معاملے میں بے گناہ پائے گئے تو ان کے نام کو شامل کرنے کے بارے میں غور کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

سزا

یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ بھی ہوسکتا ہے

شاہد آفریدی انگلینڈ کے اس دورے میں پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے لیکن آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹیسٹ کے بعد انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا تھا۔

شاہد آفریدی بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ون ڈے سیریز کھیلنے کے لیے انگلینڈ روانہ ہو رہے تھے کہ ایئرپورٹ پر انھیں اس واقعے کا پتا چلا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ بہت مشکل دن تھے جب انگلینڈ میں ہر کوئی پاکستانی کھلاڑیوں کو شک کی نظر سے دیکھ رہا تھا، انگلش میڈیا نے طوفان برپا کر رکھا تھا، تینوں کرکٹرز کی بدنامی تو ہوئی تھی لیکن ملک اور قوم کے لیے بھی یہ بڑی شرمندگی کی بات تھی۔

شاہد آفریدی نے اپنی کتاب گیم چینجر میں تینوں کرکٹرز کے مظہر مجید کے ساتھ قریبی تعلقات اور ان کے آپس میں کالز اور پیغامات کے تبادلے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

شاہد آفریدی نے اسی صورتحال کے پیش نظر ٹیسٹ کرکٹ سے اچانک ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا تھا۔

پہلے ہیلو گڈ مارننگ لیکن پھر۔۔۔!

سابق کپتان رمیز راجہ لارڈز ٹیسٹ میں کمنٹری کر رہے تھے اور ابتدا میں انھیں بھی یہ ایک بے ضرر سی نو بال معلوم ہوئی تھی لیکن جب انھیں بی بی سی کے کمنٹیٹرز نے بتایا کہ نیوز آف دی ورلڈ اس سلسلے میں ایک سکینڈل سامنے لانے والا ہے تو انھیں اس کی حقیقت کا پتا چلا۔

رمیز راجہ کہتے ہیں کہ اس واقعے سے ناک کٹ گئی، بدنامی ہوئی اور لوگوں کے رویے تبدیل ہو گئے۔ پہلے جب گراؤنڈ میں داخل ہوتے تھے تو ہیلو گڈ مارننگ کہا جاتا تھا لیکن پھر لوگ منھ پھیرنا شروع ہو گئے۔

رمیز راجہ کہتے ہیں کہ اس واقعے سے سبق نہیں سیکھا گیا جس کا انھیں بہت زیادہ افسوس ہے کیونکہ بار بار ایسے چہرے سامنے آتے ہیں اور ہم ان کو اپنے سسٹم میں دوبارہ شامل کرنے کی بات کرتے ہیں۔

پاکستان

انھوں نے کہا کہ یہ معاشرے اور شائقین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے لوگوں کو واپس نہ آنے دیا جائے چاہے کتنا ہی بڑا ٹیلنٹ کیوں نہ ہو۔ یہ شائقین اور سسٹم کی ناکامی ہے کہ ملک کو بدنام کرنے والے کرکٹرز واپس آ جاتے ہیں، دنیا میں کہیں اور ایسا نہیں ہوتا۔

تینوں کرکٹرز کی واپسی

محمد عامر پانچ سال کی پابندی کے بعد دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ میں آ گئے لیکن سلمان بٹ اور محمد آصف پر فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کے باوجود انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے نہ کھل سکے۔

محمد عامر کے معاملے میں پاکستان کرکٹ بورڈ خاصا متحرک رہا تھا کہ پابندی کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی انھیں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کی اجازت مل سکے۔ اس سلسلے میں آئی سی سی سے درخواست بھی کی گئی تھی تاہم یہ اسی وقت ممکن ہو سکا جب آئی سی سی کے اینٹی کرپشن قواعد وضوابط میں ترمیم عمل میں آئی جس کے تحت پابندی کا سامنا کرنے والے کرکٹرز پابندی کی مدت ختم ہونے سے قبل فرسٹ کلاس کرکٹ میں واپس آ سکتے ہیں۔

محمد عامر کی واپسی پر کچھ کرکٹرز کو تحفظات بھی تھے یہی وجہ ہے کہ کہ ان کی قومی تربیتی کیمپ میں واپسی پر اس وقت کے ون ڈے کپتان اظہرعلی اور محمد حفیظ نے کیمپ کا بائیکاٹ کر دیا تھا تاہم کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہر یار خان سے بات چیت کے بعد وہ کیمپ میں آنے کے لیے تیار ہو گئے تھے۔