کورونا وائرس کی وبا جس نے دنیا کے تقریبا ہر ملک کو متاثر کیا ہے لیکن دس ممالک ایسے ہیں جہاس اب تک اس کا ایک بھی مریض سامنے نہیں آیا، لیکن کیا واقعی یہ ممالک کووڈ 19 کے اثرات سے دور ہیں؟ جانتے ہیں کہ وبا کے بعد وہاں کیا حالات ہیں؟
سنہ 1982 میں کھولا گیا ‘پلاؤ ہوٹل’ اس وقت ایک ‘بڑی چیز’ ہوا کرتا تھا۔ اس ہوٹل کا بڑا نام تھا کیونکہ اس وقت وہاں کوئی دوسرا ہوٹل نہیں تھا۔
اس وقت سے آسمانی رنگ کے بحر الکاہل سے گھرے ہوئے اس چھوٹے سے ملک نے سیاحت کا بھرپور لطف اٹھایا ہے۔
سنہ 2019 میں تقریبا 90 ہزار سیاح پلاؤ پہنچے، یعنی اس ملک کی کل آبادی سے پانچ گنا زیادہ۔
سنہ 2017 کے آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق ‘ملک کی جی ڈی پی کا 40 فیصد سیاحت سے آتا ہے۔’
لیکن یہ سب کورونا سے پہلے کی باتیں ہیں۔
پلاؤ کی سرحدیں مارچ کے آخری دنوں سے بند ہیں۔ تقریباً اسی وقت سے جب انڈیا میں پہلے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم پلاؤ دنیا کے ان دس ممالک (شمالی کوریا اور ترکمانستان کو چھوڑ کر) میں سے ایک ہے جہاں پر کورونا انفیکشن کا کوئی سرکاری معاملہ رپورٹ نہیں کیا گیا ہے۔
لیکن کسی بھی انسان کو متاثر کیے بغیر کورونا وائرس نے ان ممالک کو تباہ کردیا ہے۔
دی پلاؤ ہوٹل مارچ سے ہی بند ہے۔ اور یہ واحد ہوٹل نہیں ہے۔ پلاؤ کے تمام ریستوراں خالی پڑے ہیں۔ سیاح جہاں سے تحائف خریدتے تھے وہ دکانیں بند ہیں۔ اور صرف وہی ہوٹل کھلے ہیں جو بیرون ملک سے واپس آنے والے پلاؤ کے شہریوں کو قرنطینہ کی سہولت فراہم کر رہے ہیں۔
دس ممالک جہاں کووڈ 19 کا کوئی معاملہ درج نہیں ہے
- پلاؤ
- مائکرونیشیا
- مارشل جزائر
- ناورو
- کریباتی
- سلیمان جزائر
- ٹوالو
- ساموا
- وانواتو
- ٹونگا
دی پلاؤ ہوٹل کے منیجر برائن لی کا کہنا ہے کہ ‘یہاں کا سمندر دنیا کے کسی بھی مقام سے زیادہ خوبصورت ہے۔’
ان کے مطابق یہ آسمانی رنگ کا نیلا سمندر ہی ہے جو انھیں کاروبار دیتا ہے۔ کووڈ سے پہلے ان کے ہوٹل کے 54 کمروں میں سے 70-80 فیصد ہمیشہ بھرے رہتے تھے۔ لیکن سرحدیں بند ہونے کے بعد ان کے پاس کوئی کام نہیں رہ گیا ہے۔
برائن کا کہنا ہے کہ ‘یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے، اس لیے مقامی لوگ تو پلاؤ ہوٹل میں نہیں ٹھہریں گے۔’
ان کی ٹیم میں تقریباً 20 ملازمین ہیں اور انھوں نے اب تک سب کو ملازمت پر رکھا ہوا ہے، تاہم ان کے کام کے اوقات کم کردیے گئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ‘میں ان کے لیے ہر روز کام تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جیسے رکھ رکھاؤ کا کام، کسی حصے کی تزئین و آرائش کا یا دوسرے اقسام کے کام۔’
لیکن خالی ہوٹل میں مینٹینینس اور تزئین و آرائش کا کام ہمیشہ تو نہیں کیا جاسکتا۔ برائن نے کہا: ‘میں اس طرح مزید چھ ماہ تک چلا سکتا ہوں، لیکن اس کے بعد مجھے ہوٹل بند کرنا پڑے گا۔’
برائن اس صورتحال کے لیے حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے ہیں کیونکہ حکومت نے پلاؤ کے رہائشیوں کو مالی مدد کی پیشکش کی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ کورونا کی وبا کو کامیابی سے ملک سے دور رکھا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘حکومت نے اپنی سطح پر اچھا کام کیا ہے۔’ لیکن پلاؤ کے سب سے پرانے ہوٹل کی اگر یہ حالت ہے تو وہاں جلد ہی کچھ بدلاؤ کی ضرورت ہے۔
پلاؤ کے صدر نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ ‘یکم ستمبر تک ضروری فضائی سفر دوبارہ شروع ہوسکتا ہے۔’ دریں اثنا یہ افواہ بھی ہے کہ تائیوان کے ساتھ پلاؤ کا ‘ایئر کوریڈور’ بنانے کے متعلق بات چیت ہوئی ہے، جس سے سیاحوں کو آنے کی اجازت ہوگی۔
بہر حال برائن کا خیال ہے کہ یہ جلد ہونے والا نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں: ‘حکومت کو کاروبار دوبارہ کھولنا ہوگا۔ شاید نیوزی لینڈ یا اس طرح کے دوسرے ممالک سیاحوں کے لیے ایئر ببل شروع کریں۔ ورنہ یہاں کوئی بھی کاروبار فائدہ مند نہیں ہوگا۔’
اسی طرح پلاؤ سے چار ہزار کلومیٹر فاصلے پر مشرق میں وسیع بحر الکاہل میں مارشل جزائر واقع ہے۔ پلاؤ کی طرح کورونا سے پاک ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔
ہوٹل رابرٹ ریمرز یہاں کا ایک مشہور ہوٹل ہے۔ اس کی لوکیشن شاندار ہے۔ کووڈ سے پہلے ہوٹل کے 37 کمروں میں سے تقریبا 75-88 فیصد ہمیشہ بھرے رہتے تھے۔ یہاں پر بنیادی طور پر ایشیا اور امریکہ کے سیاح پہنچتے تھے۔
لیکن جب سے سرحدیں بند ہیں ہوٹل میں 3-5 فیصد کام باقی بچا ہے۔
اس ہوٹل گروپ کے لیے کام کرنے والی سوفیا فاولر نے کہا: ‘ہمارے پاس پہلے ہی دوسرے جزیروں سے آنے والوں کی تعداد محدود تھی، لاک ڈاؤن نے تو سب کچھ ختم کردیا۔’
قومی سطح پر کووڈ 19 کی وجہ سے مارشل جزائر میں 700 سے زیادہ ملازمتیں جانے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے جو 1997 کے بعد سب سے بڑی کمی ہے۔ ان میں سے 258 ملازمتیں ہوٹل اور ریستوراں کے شعبے میں جانے کا خدشہ ہے۔
لیکن مارشل جزائر کی ‘خود ساختہ تنہائی’ سے سیاحت زیادہ متاثر ہوئی ہے، کیونکہ پلاؤ کے مقابلے میں مارشل جزائر سیاحت پر کم منحصر ہیں۔ یہاں سب سے بڑا مسئلہ فش انڈسٹری کا بند ہو جانا ہے۔
ملک کو کووڈ سے پاک رکھنے کے لیے متاثرہ ملکوں سے آنے والی کشتیوں پر مارشل آئلینڈ کی بندرگاہوں میں داخلے پر پابندی عائد ہے۔ ایندھن کے ٹینکروں اور کنٹینر والے جہازوں سمیت دیگر بڑی کشتوں کو داخلے سے پہلے 14 دن تک سمندر میں قرنطینہ کی ہدایت دی گئی ہے۔ ماہی گیری کے لائسنس منسوخ کردیے گئے ہیں اور کارگو پروازوں میں بھی کمی کی گئی ہے۔
مختصراً یہ کہ آپ وائرس کو ملک سے باہر رکھ سکتے ہیں لیکن اسے شکست نہیں دے سکتے۔ کورونا آپ کو ایک نہیں تو دوسرے راستے سے متاثر کرتا ہے۔
تاہم صوفیا کو امید ہے کہ ‘چیزیں جلد اچھی ہوجائیں گی۔’
کچھ ممالک کووڈ 19 کے لیے سرحدوں کی بندش کی وجہ سے واقعتاً غریب ہوئے ہیں، لیکن سب پھر سے سرحدیں کھولنے پر راضی نہیں ہیں۔
ڈاکٹر لین ٹاریوونڈا وانواتو محکمۂ صحت عامہ کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ تین لاکھ کی آبادی والے دارالحکومت پورٹ ولا میں کام کرتے ہیں۔ ان کا تعلق امبے سے ہے جس کی آبادی تقریباً دس ہزار ہے۔
وہ کہتے ہیں: ‘اگر آپ امبے کے لوگوں سے بات کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ لوگ سرحدوں کو بند رکھنے کی وکالت کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس وبا کو ختم ہونے تک سرحدوں کو بند رکھنا چاہیے، کیونکہ انھیں وبا کا خوف زیادہ ہے۔ وہ اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔’
ڈاکٹر لین ٹاریوونڈا کے مطابق وانواتو کے 80 فیصد لوگ شہروں اور ‘باضابطہ معیشت’ سے باہر ہیں۔
ان کے مطابق: ‘انھیں بندش پر کوئی اعتراض نہیں، وہ کسان ہیں جو اپنا کھانا خود پیدا کرتے ہیں۔ وہ مقامی اور روایتی معیشت پر منحصر ہیں۔’
اس کے باوجود ملک کو نقصان سے بچانا مشکل محسوس ہوتا ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کا اندازہ ہے کہ وانواتو کی جی ڈی پی میں 10 فیصد کمی واقع ہوگی جو سنہ 1980 میں آزادی کے بعد وانواتو میں سب سے بڑی کمی ہوگی۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کووڈ کا اثر یہاں طویل عرصے تک رہے گا۔
جولائی میں وانواتو کی حکومت نے یکم ستمبر تک کچھ ‘محفوظ’ ممالک کے لیے اپنی سرحدیں دوبارہ کھولنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ لیکن یہ منصوبہ منسوخ کردیا گیا کیونکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ایک بار پھر کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔
ڈاکٹر ٹاریوونڈا کا کہنا ہے کہ پریشانی اور سرحد کھولنے کی ضرورت کے باوجود وانواتو جلدبازی نہیں کرے گا۔ پاپوا نیو گنی کی مثال دیتے ہوئے، ان کا کہنا ہے کہ جولائی کے آخر تک کوئی کیس نہیں ہوا تھا۔ لیکن انھوں نے جلدی کی اور انفیکشن آگ کی طرح پھیل گیا۔ اسی لیے ہم فکرمند ہیں۔
تو پھر کووڈ سے پاک ممالک کیا کر سکتے ہیں؟
قلیل مدتی حل ‘ملازموں اور کاروباری افراد کو کچھ مالی مدد فراہم کرنا ہے۔’ اور طویل مدتی حل ‘کورونا ویکسین کا انتظار’ کرنا ہے۔
اس وقت تک سیاحوں کو یہاں لانے کے لیے ‘ایئر ببل’ سے توقع کی جاسکتی ہے۔ لیکن ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اس پر عمل در آمد مشکل ہوگا۔
اور جیسا کہ وانواتو کے ‘ستمبر پلان’ میں دیکھا گیا ہے ہ ایئر ببل سے متعلق منصوبے بہت آسانی سے ‘پھٹ سکتے ہیں’۔ کیونکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے اب یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ پہلے ایک دوسرے کے ساتھ ائیر ببل منصوبہ آزمائیں گے۔
لووی انسٹی ٹیوٹ میں پیسیفک جزائر پروگرام کے ڈائریکٹر جوناتھن پریکے نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بین الاقوامی سطح پر ان ممالک کے پاس خود کو الگ تھلگ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
انھوں نے کہا: ‘اگر ان ممالک نے اپنی سرحدیں کھلی بھی رکھیں تو بھی سیاحت کے لیے اہم آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے اپنی سرحدیں بند کر رکھی ہیں۔’
‘لہٰذا، یقینی طور پر یہاں دوہری پریشانی ہے۔ انفیکشن اور بیماری کے ساتھ معاشی بحران بھی ہے۔ صحیح جواب تلاش کرنے میں سالوں کا وقت لگ سکتا ہے کہ کورونا کے دور میں صحیح فیصلہ کس نے لیا تھا اور غلط کس نے۔ لیکن پیچھے مڑ کر دیکھنے پر بحر الکاہل میں پھیلے جزائر کا اپنی سرحدیں بند رکھنے کے فیصلے کو کوئی بھی غلط نہیں کہے گا۔’