پاکستا ن کے بارہ ہیجڑوں نے جن کے سربراہ پھوپھی امیر علی عرف نیلو فر ہیں حکومت پاکستان سے اپیل کی ہے کہ ان کا ثقافتی طائفہ بیرون ملک بھیجا جائے۔ پھوپھی امیر علی عرف نیلو فر نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ہیجڑوں کے اس بارہ رکنی ثقافتی طائفے کے دورہ سے ملکوں کے درمیان خیر سگالی کے جذبات میںا ضافہ ہوگا۔ پھوپھی امیر علی نے بتایا کہ اگر انہیں باہر بھجوانے کا انتظام کیا گیا تو وہ وہاں کے زعماء کے سامنے پنجابی اور اردو کے معروف فلمی گانوں کے علاوہ انگریزی ماہیے اور ٹپے بھی پیش کریںگے۔ ان کا مخصوص رقص ان کے لئے بالکل نئی چیز ہوگی۔ چنانچہ وہ بیلے ڈانس اور بیلی ڈانس دونوں کو بھول جائیں گے۔
اس مطالبے سے مجھے رہ رہ کر اپنے ایک ڈاکٹر دوست یاد آ رہے ہیں وہ اگر آج پاکستان میں اس منصب جلیلہ پر فائز ہوتے جس پر وہ ایک عرصے تک فائز رہے ہیں تو آج پھوپھی امیر علی عرف نیلو فر کی یہ اپیلیں رائیگاں نہ جاتیں کیونکہ ڈاکٹر صاحب قبلہ خالی خولی سیاست دان ہی نہیں اعلیٰ درجے کے دانشور بھی تھے اور وہ عوامی فنون لطیفہ کے بہت بڑے داعی اور سرپرست بھی تھے۔ لیکن یہ پھوپھی عرف نیلو فر کی بدقسمتی ہے کہ جن صاحبان اقتدار سے انہیں اگر اور کچھ نہیں مورل سپورٹ مل سکتی تھی وہ آج اقتدار میں نہیں ہیں اور جو آج اقتدار میں ہیں ان کے آگے پیچھے کئی پھوپھی امیر علی پھرتے ہیں کہ ان سے کوئی خدمت لی جائے چنانچہ ان کی خدمات حاصل کرلی گئی ہیں مگر ظاہر ہے سب کو تو ایڈجسٹ نہیں کیا جاسکتا باقیوں کے جذبہ خلوص کو تو صرف سراہا ہی جا سکتا ہے۔
ویسے پھوپھی امیر علی عرف نیلو فر نے حکومت سے جو فرمائش کی ہے اس سے میں اصولی طور پر متفق ہوں ان کے مطالبے کو میں نے فرمائش اس لئے کہا ہے کہ ہیجڑے مطالبے نہیں فرمائش ہی کیا کرتے ہیں سو میں ان کی اس فرمائش کو پورا کرنے کے حق میں ہوں بلکہ اسے قدرے وسیع تناظر میں دیکھتا ہوں۔ یعنی میرا خیال یہ ہے کہ بارہ ہیجڑوں اور ان کے سربراہ پھوپھی امیر علی پر مشتمل جو ثقافتی طائفہ سب سے پہلے لندن بھیجا جائے اسے بعد ازاں ایک مستقل طائفے کی صورت دے دی جائے اور اسے اندرون ملک بھی خوشی وغیرہ کے موقع پر استعمال کیا جائے۔ مثلاً دوسرے ملکوں سے سربراہان مملکت پاکستان آتے رہتے ہیں کسی زمانے میں پنجاب آرٹس کونسل یا پی آئی اے کا ثقافتی طائفہ ان مہمانوں کے سامنے رقص و سرود کا مظاہرہ کیا کرتا تھا، اب یہ خدمت پھوپھی امیر علی کے طائفے کے سپرد کردی جائے ۔اس سے ایک شرعی مسئلہ بھی حل ہو جائے گا کیونکہ خواتین کے رقص پر بہت سے حلقوں کی طرف سے اعتراضات ہوتے رہتے ہیں۔ ہیجڑوں کے رقص پر کسی کو اعتراض نہ ہوگا کیونکہ یہ رقص تو گلی گلی اور کوچے کوچے میں ہوتا ہے اور آج سے نہیں برس ہا برس سے ہو رہا ہے۔ دراصل ہیجڑوں کا رقص بےضرر ہوتا ہے یہ نہ جذبات کو مشتعل کرتا ہے اور نہ کسی کو اکساتا ہے ۔ یہ ہیجڑے دیکھا جائے تو مرد ہی ہوتے ہیں، بس اتنا ہے کہ انہوں نے اپنی بچی کھچی مردانگی چھپانے کے لئے رگڑرگڑ کر شیو کیا ہوتا ہے ، چہرے پر غازہ اور ہونٹوں پر سرخی ملی ہوتی ہے۔ سو یہ اگر رقص کریں گے بھی تو کیا کریں گے، کولہے مٹکائیں گے بھی تو کیا مٹکائیں گے، ٹھمکا لگائیں گے بھی تو کیا لگائیں گے اور اگر کمر ہلائیں گے بھی تو کیا ہلائیں گے۔ سو ان کا رقص کسی کو مشتعل نہیں کرتا، اگر مشتعل کرتا ہے تو صرف اس تھوڑی بہت جمالیاتی حس کو جو ہر انسان میں موجود ہوتی ہے۔ لہٰذا پھوپھی امیر علی کا ثقافتی طائفہ ایک بے ضرر طائفہ ہوگا اس کے ارکان تو اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان کے سامنے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر سکتے ہیں بلکہ میری تجویز تو یہ ہےکہ مختلف اہم مواقع پر ارکان کی تفریح طبع کے لئے پھوپھی امیر علی کوبھی ’’دعوت سخن‘‘ دی جائے جہاں وہ پائوں میں گھنگھرو باندھ کر:
میں چھج پتاسے ونڈاں
اج قیدی کر لیا ماہی نوں
کے بول پر اپنے فن کا مظاہرہ کرے!
اور آخر میں صرف ایک گزارش مجھے یہ کرنی ہے کہ اگر پھوپھی امیر علی کی فرمائش پوری کردی جائے اور یوں انہیں سب سے پہلے لندن بھیجنے کا فیصلہ ہو جائے تو وہ واپسی پر اپنے ثقافتی طائفے سمیت عرب ملکوں کا بھی ایک خیرسگالی دورہ کرے جو اس وقت اسرائیل کو تسلیم کرنے کے موڈ میں ہیں، جنہوں نے اپنے پٹرول کی ساری دولت اپنے امریکی بھائیوں پر نچھاور کر دی ہے اور جن کے ہاتھوں پر اب ’’شکروں‘‘ کی اکڑی ہوئی گردنیں بھی نظر نہیں آتیں! بس پھوپھی امیر علی وہاں جائیں اور پائوں میں گھنگھرو باندھ کر رقصِ والہانہ کریں اور یوں امن عالم کے لئے ان کی اس قربانی کو جو وہ فلسطینیوں کے جان و مال اور ان کے ملک کو یہودیوں کے پاس گروی رکھنے کی صورت میں دینے کا جو ارادہ کیا ہے، اس پر انہیں خراج تحسین پیش کریں۔