بدھ کی صبح چھپا کالم لکھتے ہوئے میں نے بہت ڈھٹائی کے ساتھ یہ طے کردیا تھا کہ بالآخر سینٹ میں اپنی بھاری بھر کم اکثریت کے باوجود اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں منی لانڈرنگ سے متعلق قانون میں وہ ترامیم بھی منظور کرلیں گی جنہیں عمران حکومت نے اپوزیشن کو رعونت سے نظرانداز کرتے ہوئے پیر کی شام قومی اسمبلی سے پاس کروایا تھا۔
میرے اعتماد کی وجہ مسلم لیگ (نون) کے سینئر رہنما خواجہ آصف صاحب کا ایک بیان تھا۔پیر کی شام قومی اسمبلی کے ایوان میں کھڑے ہوکر انہوں نے غیر جذباتی انداز میں یہ اطلاع دی کہ قومی سلامتی سے متعلق ادارے چند قوانین کو سرعت سے منظور کروانا چاہ رہے ہیں۔پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے باہر نکلوانے کے لئے ان قوانین کی اشد ضرورت ہے ۔اس ضرورت کو ذہن میں رکھتے ہوئے مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی عمران حکومت سے مطلوبہ قانون سازی کیلئے تعاون فراہم کرنے کو آمادہ ہوئیں۔ان کے محب وطن اور ذمہ دارانہ رویے کا مگر حکومتی ترجمان اعتراف نہیں کررہے۔ تاثر بلکہ یہ پھیلایا جارہا ہے کہ آصف علی زرداری اور شریف خاندان کی مبینہ منی لانڈرنگ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں ڈالنے کا باعث ہوئی۔ خواجہ صاحب کی تقریر کے بعدبھی عمران حکومت کے وزراء کشادہ دلی دکھانے کو تیار نہ ہوئے۔اس حکومت کے ’’قائدِ احتساب‘‘ جناب شہزاد اکبر مرزا بلکہ پاپڑ اور فالودہ بیچنے والوں کے نام سے کھولے ’’جعلی اکائونٹس‘‘ کا حقارت سے تذکرہ کرتے رہے۔قومی اسمبلی میں حکمران جماعت نے اکثریت کے بل بوتے پر منی لانڈرنگ کے خلاف موجود قانون میں اپنی ترجیح کے مطابق تیار ہوئی ترامیم بغیر کسی بحث مباحثے سے منظور کروالیں۔
سینٹ میں عمران حکومت کو سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں۔اس کے باوجود میں یہ لکھنے کو مجبور ہوا کہ خواجہ صاحب کی بتائی کہانی کے بعد حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں کے لئے قومی اسمبلی سے منظور ہوئی ترامیم کو رد کرنا ممکن نظر نہیں آرہا۔معاملہ اس کے قطعاََ برعکس ہوا۔ جو ہوااس نے ایک بار پھر مجھے یہ سمجھایا ہے کہ صحافی کو نجومیوں کی طرح پیش گوئی کی حماقت سے گریز کرنا چاہیے۔
اپنی حماقت کا اعتراف کرنے کے بعد آپ کو ’’خبر‘‘ یہ بھی دینا ہے کہ سینٹ کا اجلاس شروع ہونے تک مسلم لیگ (نون)اور پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہ نمائوں نے باہمی مشاورت کے بعد یہ طے نہیں کیاتھا کہ قومی اسمبلی سے پاس ہوئی ترامیم ان کے روبرو پیش ہوں تو کیا رویہ اختیار کرنا ہے۔جبلی طورپر اپوزیشن کی اکثریت نے البتہ سوچ رکھا تھا کہ پیر کی شام قومی اسمبلی سے منظور ہوئی ترامیم کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو بھیجتے ہوئے سوچ بچار کے لئے مزید وقت طلب کیا جاسکتا ہے۔عمران حکومت کے وزراء مگر اس ارادے پر ڈٹے ہوئے تھے کہ قومی اسمبلی سے پاس ہوئی ترامیم کو سینٹ سے بھی بغیر کسی تبدیلی کے منگل کی شام ہی منظور کروانا ہے۔
ان ترامیم کو ڈاکٹر بابر اعوان صاحب کی جانب سے ایوان کے روبرو رکھنے کا مرحلہ آیا تو پیپلز پارٹی کی عقبی نشستوں سے مصطفیٰ نواز کھوکھر کھڑے ہوگئے۔وہ جواں سال مگر بہت ہی دھیمے مزاج کے حامل ہیں۔ نہایت خاموشی سے سرجھکائے سینٹ کی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے بنائی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت میں اپنا فرض نبھانے میں مصروف رہتے ہیں۔ایوان میں دھواں دھار تقاریر سے اجتناب برتتے ہیں۔
منگل کی شام مگروہ کھڑے ہوگئے۔ دُکھی دل کے ساتھ یاد دلایا کہ گزشتہ ہفتے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اطمینان کے لئے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کے بھرپور تعاون سے بنائے قوانین کی منظوری کے بعد تحریک انصاف کے نامزد کردہ قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم نے ایک تقریر فرمائی تھی۔اس خطاب کے ذریعے اپوزیشن کو سراہنے کے بجائے وسیم شہزاد نے نہایت حقارت سے مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف رکیک فقرے کسے۔ حکومت کو اگر منی لانڈرنگ والے قانون میں قومی اسمبلی سے منظور ہوئی ترامیم کو سینٹ سے بھی منظور کروانا ہے تو قائدِ ایوان کو اپنے رویے پر معذرت کا اظہار کرنا ہوگا۔معافی مانگنا ہوگی۔قومی سلامتی کی ترجیحات کو ذہن میں رکھتے ہوئے حکومت کو خلوص دل سے تعاون فراہم کرنے کے باوجود ’’ہم اپنی قیادت کی توہین‘‘ برداشت نہیں کرسکتے۔مصطفی نواز کھوکھر کو یہ اعتماد ہرگز میسر نظر نہیں آیا کہ ان کی جماعت کے سینئر رہنما وسیم شہزاد سے معافی کے مطالبے کی حمایت میں ڈٹ جائیں گے، غالباََ اسی خیال نے انہیں ’’اگلی صفوں پر بیٹھے‘‘ پیپلز پارٹی کے سینئروںسے اپنی تقریر کے دوران یہ درخواست کرنے کو مجبور کیا کہ وہ ان کے مطالبے پر سنجیدگی سے غور کریں۔
مصطفی نواز کھوکھر کے سینئر غالباََ گومگو کے عالم میں رہنے کو ترجیح دیتے۔ ڈاکٹر وسیم شہزاد نے مگر ان کی ’’مشکل‘‘ آسان کردی۔ مصطفی نواز کھوکھر کے بعد اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور انتہائی جارحانہ انداز میں یہ اعلان کردیا کہ انہوں نے اپنی تقریر میں جو کچھ کہا تھا وہ ’’اس کے ایک ایک لفظ‘‘ پر اب بھی کھڑے ہیں۔پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ پر عمران حکومت کے دوران نہیں گیا تھا۔ یہ واقعہ گزشتہ حکومتوں کے دوران رونما ہوا۔ مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کے رہ نمائوں کو بیان کرنا چاہیے کہ ان کی حکومتوں سے کیا ’’غلطیاں‘‘ سرزد ہوئیں جو اس واقعہ کا سبب ہوئیں۔شہزاد وسیم کے رعونت بھرے رویے نے پیپلز پارٹی کے مولا بخش چانڈیو کو مشتعل کردیا۔ انتہائی درشت انداز میں انہوں نے حکومت کو متنبہ کیاکہ وسیع ترقومی مفاد کی خاطر عمران حکومت سے تعاون کے بدلے وہ کسی ’’مسخرے‘‘ کو یہ حق نہیں دے سکتے کہ ایوان میں اُٹھ کر ہمارا شکریہ ادا کرنے کے بجائے ہماری قیادت کی توہین کرے۔عمران حکومت کے نمائندوں کو مگر اب بھی یقین تھا کہ ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کی فکر اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کو قومی اسمبلی سے منظور ہوئی ترامیم کو منظور کرنے کا حوصلہ فراہم نہیں کرے گی، غالباََ اسی سوچ کے ساتھ تحریک انصاف کی صفوں سے فیصل جاوید صاحب کھڑے ہوگئے۔ وہ اپنی گرجدار آواز سے عمران خان صاحب کے کنٹینر پر کھڑے ہوکر لگائے اجتماعات کو گرمانے کے عادی رہے ہیں۔ان کا ’’آتش‘‘ اب بھی جوان وسرگرم ہے۔منگل کی شام جوش خطابت میں وسیم شہزاد سے بھی دو قدم آگے بڑھ گئے۔ ’’مشفقانہ‘‘‘ انداز میں پیپلز پارٹی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اپنی عمر کے اعتبار سے ان کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ’’بے بی بلاول‘‘ ہی تو ہیں۔پنجابی محاورے والا گویا ’’موراوور‘‘ ہوگیا۔
وزیر قانون جناب فروغ نسیم صاحب بہت کائیاں شخص ہیں،انہیں فوراََ بھانپ لینا چاہیے تھا کہ فیصل جاوید کی جانب سے آیا ’’بے بی بلاول‘‘ والا لقب پیپلز پارٹی ہضم نہیں کر پائے گی۔ بہتر ہوتا کہ وہ چیئرمین سینٹ سے اجلاس کو ایک روز کے لئے مؤخر کرنے کی درخواست کرتے۔اس کے بعد ماضی کی طرح رات کے اندھیرے میں اپوزیشن رہنمائوں سے ملاقاتوں کے بعد کسی ’’مک مکا‘‘ کی راہ نکالتے۔
یہ بات مگر عیاں نظر آرہی تھی کہ پارلیمانی امور سے متعلق وزراء کو ان کی قیادت نے واضح الفاظ میں حکم دے رکھا ہے کہ اینٹی منی لانڈرنگ والی ترامیم کو ہر صورت منگل کی شام ہی سینٹ میں پیش کیا جائے،یقینا اس حکم کی مہارت سے تعمیل کرتے ہوئے ڈاکٹر بابر اعوان نے نہایت احترام سے اپوزیشن کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ’’ذاتی انائوں‘‘ کو فی الوقت بھول جائیں۔ہمارا ازلی دشمن بھارت پاکستان کو فنانشل ایکشن فورس کی ’’بلیک لسٹ‘‘ میں دھکیلنے کومراجارہا ہے۔ہم FATFکو مطلوب قوانین کو سرعت سے منظور کرتے ہوئے اس کے ارادوں کو خاک میں ملاسکتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی شیری رحمن ہماری تاریخ کے ایک نازک مقام پر امریکہ میں پاکستان کی سفیر رہی ہیں۔ کوچہ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل کئی برس صحافت کی نذر کئے ہیں۔انہیں ہماری سفارتی مشکلات کا بخوبی انداز ہے۔وہ بھی مگر یہ اعلان کرنے کو مجبور ہوگئیں کہ “We Have Had Enough”۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) وسیع تر قومی مفادات کی خاطر عمران حکومت سے تعاون کے عوض اپنی قیادت کی تذلیل کروائیں۔ راجہ ظفر الحق بھی سفارتی امور کی نزاکتوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔وہ سینٹ میں قائدِ حزب اختلاف بھی ہیں۔مسلم لیگ (نون) کے بزرگ ترین رہ نمائوں میں شمار ہوتے ہیں۔ان کی جماعت کے مشاہداللہ خان کی تقریر کے دوران وسیم شہزاد نے جو رویہ دکھایا اس نے راجہ صاحب کو بھی جارحانہ انداز اختیار کرنے کو مجبور کردیا۔
حکومت اس کے باوجود منی لانڈرنگ کے خلاف بنائے قوانین کو سینٹ سے منگل کی شام ہی منظور کروانے کو بضد رہی۔ بھاری بھر کم اکثریت والی اپوزیشن کے پاس اسے گونج دار آواز کے ساتھ ’’نامنظور‘‘ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ ہی باقی نہ بچا۔عمران حکومت اور اپوزیشن کی دوبڑی جماعتوں کے مابین’’ذمہ دارانہ انداز میں درمیانی راہ بنانے‘‘ کا عمل محض چند روز تک اپنا جلوہ دکھانے کے بعد اب ہوا میں تحلیل ہوگیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ’’آنے والی تھاں‘‘ پر واپس آگئی ہے۔تخت یا تختہ والے جنون کے ساتھ۔