‘کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے، ظلم کی نہیں‘
سیدنا علیؓ کا یہ قول اتنی بار دہرایا گیاکہ بچے بچے کو ازبر ہو گیا۔ اہلِ حکمت کی پہچان یہی ہے کہ کوزے میں دریا بند کر دیتے ہیں۔ زندگی کی سچائیاں اُن کے حضور میں ہاتھ باندھے کھڑی ہوتی ہیں اور الفاظ بھی۔ انہیں ابلاغ کے لیے تکلف نہیں کرنا پڑتا۔ سیدنا علیؓ کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ ان کے اقوال صدیوں سے دہرائے جاتے ہیں اور ہر زمانہ ان پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا چلا جاتا ہے۔
اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کے اصحاب ایسے ہی تھے۔ صدیق اکبرؓ ہوں، فاروقِ اعظمؓ ہوں یا کوئی اور، ان کی باتیں یاد رہیں گی۔ باتیں کیا تھیں، قرآن کی تفسیر یا پھر صحبتِ پیغمبر کی خوشہ چینی۔ مراتب ایسے ہی ارزاں نہیں ہوتے۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا ”اگر آسمان سے یہ ندا آئے کہ اس زمین پر بسنے والا ہر انسان جہنم میں جائے گا، سوائے ایک کے تو مجھے امید ہوگی کہ وہ میں ہی ہوں‘ اور اگر آواز آئے کہ سب جنت میں جائیں سوائے ایک کے تو مجھے خوف ہوگا کہ کہیں وہ میں ہی نہ ہوں‘‘۔
یہ قول کیا ہے؟ قرآن مجید کی تفسیر اور حدیثِ پیغمبرﷺ کی شرح۔ قرآن مجید نے جنت کے بارے میں بتایا کہ وہاں کے مکینوں کو کوئی خوف ہوگا اور نہ اندیشہ۔ زندگی میں انسان اندیشوں میں گھرا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ عمرِ فاروقؓ بھی‘ جنہیں دنیا میں جنت کی بشارت دے دی گئی۔ وہ بھی اپنے انجام کے بارے میں اندیشے میں مبتلا ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا تھا: ‘ایمان خوف اور امید کے درمیان جینے کا نام ہے‘۔ سیدنا عمرؓ کے جملے نے قرآن مجید کی بات سمجھا دی اور حدیث کی بھی۔
سیدنا علیؓ کا جملہ ہم بہت دہراتے ہیں مگر اس پر غور کی توفیق کم ہی نصیب ہوتی ہے۔ لغت میں ظلم کا مفہوم لکھا ہے: ‘شے کو اپنے محل سے ہٹا دینا‘۔ جیسے ہی ہم اس غلطی کا ارتکاب کریں گے، ظلم وجود میں آئے گا۔ سماج اور ریاست کے باب میں انسان کی تاریخ صدیوں سے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی آئی ہے۔ یہ اشیا ہوں یا افراد، جب ہم انہیں ان کی جگہ سے ہٹا دیں گے، اس کا ناگزیر نتیجہ ظلم ہو گا۔
اللہ کی کتاب نے ہمیں تعلیم دی کہ امانتیں ان کے اہل لوگوں کے سپرد کی جائیں۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اقتدار کی امانت کا فیصلہ اگر عوام کو کرنا ہے تو ان افراد کو منتخب کریں جو اس کے اہل ہوں۔ یہ اہلیت اخلاقی ہوتی ہے اور عقلی بھی۔ معاملاتِ حیات چلانے کے لیے دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اخلاقی افلاس میں مبتلا اور کوڑھ مغز اگر حکمران بنائے جائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ایک شے کو وہاں رکھ دیا جو اس کا محل نہیں تھا۔
ایک دوسرے پہلو سے دیکھیے! پاکستان کا آئین بتاتا ہے کہ کس کا اصل مقام کون سا ہے۔ مقننہ کو کیا کرنا ہے اور عدلیہ کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ انتظامیہ کے فرائض کیا ہیں اور افواج کا کام کیا ہے؟ یہ تقسیم فطرت کے عین مطابق ہے۔ ریاست کا نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ کسی فردِ واحد یا کسی ایک ادارے کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم قانون سازی کا کام فوج سے اور دفاع کا اراکینِ اسمبلی سے لیں گے تو گویا ہم سب کو ان کی اصل جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ پر رکھ دیں گے جو ان کا آئینی مقام نہیں ہے۔
نظمِ حکومت کے باب میں، اس بات کو جتنا کھولتے چلے جائیں، سیدنا علیؓ کے قول کی شرح ہوتی چلی جائے گی۔ اگر ٹیکس جمع کرنے کام اساتذہ کو سونپ دیا جائے؟ اگر ایک سول انجینئر کو شعبہ محصولات کا نگران بنا دیا جائے؟ اگر اندھوں کو راہ دکھانے کا کام دے دیا جائے؟ اگر قومی بیانیے کی تشکیل محکمہ زراعت کے حوالے کر دی جائے؟ جہاں ایسا ہو گا، وہاں ظلم وجود میں آئے گا۔ ظلم ہو گا تو نظام قائم نہیں رہ سکے گا۔
اس کا اطلاق محض حکومت و ریاست پر نہیں ہوتا۔ سماجی اداروں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ایک خانقاہ کا گدی نشین وہ ہو جو تزکیہ نفس کے باب میں سب سے ممتاز ہو۔ ایک مدرسے کا مہتمم اسے بنایا جائے جو علمی اور انتظامی استعداد میں دوسروں سے نمایاں ہو۔ سیاسی جماعت میں مناصب اخلاقی اور عقلی برتری کی بنیاد پر ملیں۔ ٹی وی سکرین اور اخبارات میں وہ لوگ تجزیہ کریں جو معاملات کا فہم اور ابلاغ کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
جب خانقاہوں کی گدی نشینی اور مدارس کے مہتمم کا فیصلہ صلاحیت کے بجائے وراثت کے اصول پر ہو تو اس کامطلب یہ ہو گا کہ ہم نے ایک جگہ پر کسی ایسے کو بٹھا دیا جس کی وہ جگہ نہیں تھی۔ اس کا لازمی نتیجہ خانقاہ اور مدرسے کی تباہی ہے۔ اگر ہم تعلیم کو اہلِ تجارت اور میڈیا کو پراپرٹی ڈیلرز کے سپرد کر دیں گے تو یہ ظلم ہوگا۔ ظلم سے حکومتیں قائم رہ سکتی ہیں نہ معاشرے۔
جن واقعات پر ہم عرفِ عام میں ظلم کا اطلاق کرتے ہیں، وہ بھی دراصل اسی وقت وجود میں آتا ہے جب ہم کسی کو اس جگہ پر بٹھا دیتے ہیں جو اس کی اصل جگہ نہیں ہوتی۔ اگر مُنصف کے منصب پر ایسا آدمی آبیٹھے گا جو اخلاقی یا ذہنی طور پر اس کا اہل نہیں ہے تو وہ لوگوں سے انصاف نہیں کر پائے گا۔ اسی طرح کے لوگوں کے فیصلوں پر ہم تبصرہ کرتے ہیں کہ فلاں کے ساتھ بڑا ظلم ہو گیا۔
حکومت کی دو سالہ کارکردگی زیرِ بحث ہے۔ اس باب میں کسی دوسرے رائے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ حکومت کی ناکامی تو ایسی حقیقت ہے جس کا انکار عقلاً محال ہے۔ حامی بھی صرف ناکامی کا جواز تلاش کر سکتا ہے۔ کوئی ایک شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں پہلے سے بہتری آئی ہو۔ یہاں تک کہ کرکٹ بھی نہیں۔ اس میں تو تجربے کی کمی کا عذر بھی نہیں تراشا جا سکتا۔ جس آدمی نے ساری عمر کرکٹ کھیلی ہو، وہ وزیر اعظم بننے کے بعد اس میں بھی کوئی اصلاح نہ کر سکے تو اس سے اور کون سی توقعات باندھی جا سکتی ہیں؟
میری درخواست ہے کہ اس نظام کو سیدنا علیؓ کے قول کی روشنی میں سمجھا جائے۔ یہ نظام ظلم پر مبنی ہے۔ یہ ظلم عوام نے کیا اور خواص نے بھی، جنہوں نے لوگوں کو ایسے مناصب پر فائز کر دیا جن کے وہ اہل نہیں تھے۔ جنہوں نے ایک شے کو وہاں رکھ دیا جو اس کی جگہ نہیں تھی۔ اس کے بعد یہ بحث عبث ہے کہ بہتری کیوں نہیں آئی؟ اگر کسی کو پیش پا افتادہ حقیقت دکھائی نہیں دیتی تو اس کا کوئی علاج نہیں۔
ہمیں سوچنا یہ ہے کہ اس ظلم سے نجات کیسے ملے؟ اصلاح کی ایک ہی صورت ہے: یہ عوام ہوں یا خواص، ظلم سے باز آ جائیں۔ جب فیصلہ کریں تو ہر شے کو وہیں رکھیں جو اس کی جگہ ہو۔ عوام ووٹ دیتے وقت ظلم نہ کریں اور خواص خود کو آئینی ذمہ داریوں تک محدود کر لیں۔ یہ بات عقلِ عام سے سمجھی جا سکتی ہے اور آئینِ پاکستان سے بھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم دونوں کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ تجزیے کرتے چلے جاتے ہیں کہ راستہ کیوں بند ہے لیکن سامنے رکھے بڑے پتھر کو دیکھنے کے لیے آمادہ نہیں۔
دنیا میں اہلِ دانش کی کمی نہیں۔ کیسے کیسے نادرِ روزگار لوگ دنیا میں آئے۔ اصحابِ رسول کی بات مگر دوسری ہے۔ ان کا ایک امتیاز ہے۔ وہ الہامی چراغ سے روشنی لیتے ہیں۔ قرآن مجید ان کے سامنے نازل ہوا اور سراجِ منیر کی روشنی نے ان کا احاطہ کیے رکھا۔ یہ وہ اعزاز ہے، جو اب قیامت تک کسی کو میسر نہیں آ سکتا۔ صحابہ کے اقوال پر غور کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر یہی بات کہ ‘کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے، ظلم کی نہیں‘۔