سپریم کورٹ نے دوسری شادی سے قبل پہلی بیوی یا ثالثی کونسل کی اجازت کو ضروری قرار دیا ہے
پاکستان کی سپریم کورٹ نے حق مہر سے متعلق ایک درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ دوسری شادی سے قبل پہلی بیوی یا ثالثی کونسل کی اجازت لینا ضروری ہے تاکہ معاشرے میں توازن قائم رکھا جا سکے۔
سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور کے شہری کی پہلی بیوی کو حق مہر کی فوری ادائیگی کے خلاف دائر درخواست کو مسترد کرتے ہوئے سنایا۔
عدالت نے اس ضمن میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پشاور کے ایک شہری محمد جمیل کی طرف سے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی درخواست کی سماعت کی۔
پشاور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں مذکورہ شخص کو کہا تھا کہ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی پیشگی اجازت ضروری ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پہلی بیوی کو معجل اور غیر معجل حق مہر کی ادائیگی کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کے سیکشن چھ کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ‘اس دفعہ کے تحت دوسری شادی کی ممانعت نہیں ہے۔’
عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ مذکورہ سیکشن معاشرتی ڈھانچے کو مجموعی طور پر منظم کرنے کے لیے دوسری شادی سے قبل اجازت کی بات کرتا ہے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نے فیصلے میں کہا ہے کہ اس سیکشن کی خلاف ورزی کے باعث معاشرے میں کئی مسائل جنم لیں گے۔
پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے مکمل ہونے کے بعد جسٹس مظاہر علی نقوی نے پانچ صفحات پر مشتمل فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے میں پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے دوسری شادی سے قبل پہلی بیوی کو حق مہر فوری ادا کرنے کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ بغیر اجازت دوسری شادی پر پہلی بیوی کو حق مہر فوری ادا کرنا ہوگا۔
فیصلے میں وضاحت کی گئی ہے کہ حق مہر معجل ہو یا غیر معجل دونوں صورتوں میں فوری واجب الادا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ درخواست گزار نے دوسری شادی سے قبل نہ تو پہلی بیوی سے اور نہ ہی ثالثی کونسل سے اجازت لی اور حق مہر بھی واجب الادا تھا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ درخواست گزار حق مہر کی فوری ادائیگی کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل میں قابل ذکر وجوہات بیان کرنے سے قاصر رہے اس لیے درخواست خارج کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے دوسری شادی کے لیے مصالحتی کونسل کی اجازت کو ضروری قرار دیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پہلی بیوی کی اجازت کے باوجود اگر مصالحتی کونسل انکار کر دے تو دوسری شادی پر سزا ہو گی۔
اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے مصالحتی کونسل کی اجازت کے بغیر شادی کرنے پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے رہائشی لیاقت علی میر کو ایک ماہ قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کیا تھا تاہم اسلام آباد کی ایک اور مقامی عدالت نے عدالتی دائرہ اختیار کو دیکھتے ہوئے ملزم کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ جس شخص کے پاس قومی شناختی کارڈ ہے، اس پر ملک کے تمام قوانین کا اطلاق ہوگا۔