Site icon DUNYA PAKISTAN

لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خونچکاں

Share

5جولائی 1977 کے ”آپریشن فیئر پلے‘‘ کے چھٹے روز یہ جنرل ضیاالحق کی پہلی پریس کانفرنس تھی۔ جی ایچ کیو کا آڈیٹوریم اخبار نویسوں سے بھرا ہوا تھا۔ لاہور اور کراچی سے نمایاں اخبارات ورسائل کے مدیران بھی موجود تھے۔ جنرل صاحب کے دائیں بائیں سینئر سول بیوروکریٹ براجمان تھے۔ 5جولائی کے بعد جنرل صاحب نے سول بیوروکریسی میں کوئی اکھاڑ پچھاڑ نہیں کی تھی۔ بھٹو صاحب کے دور میں جو جہاں تھا اب بھی وہیں تھا۔ ممکن ہے اس کا ایک سبب یہ ہوکہ جنرل صاحب 90 روز میں انتخابات کرانے کے حوالے سے سنجیدہ تھے (یہ سنجیدگی ڈیڑھ، دو ماہ قائم رہی۔ اس وعدے سے انحراف کے اسباب ایک الگ موضوع ہے) بھٹو صاحب پی این اے کے لیڈروں کی طرح مری میں حفاظتی تحویل میں تھے، تو اس وقت بھی ”وزیر اعظم کا ملٹری سیکرٹری‘‘ ان کے ہمراہ تھا۔ جنرل ضیاالحق کی درخواست پر فضل الٰہی چودھری نے باقی ماندہ مدت کے لیے منصبِ صدارت پر برقرار رہنا قبول کرلیا تھا۔ امریکیوں نے جنرل صاحب سے فرانس سے نیوکلیئر پلانٹ کا سودا منسوخ کرنے کے لیے کہا تو ان کا جواب تھا: یہ معاہدہ ایک منتخب سول حکومت (ذوالفقار علی بھٹو) نے کیا تھا‘ ہم تو 90 روز کے لیے آئے ہیں‘ انتخابات کے بعد نئی سول حکومت ہی اس معاہدے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی۔
قارئین سے معذرت کہ بات کسی اور طرف نکل گئی، ہم چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر جنرل ضیاالحق کی اولین پریس کانفرنس کی بات کررہے تھے جس میں وفاقی حکومت کے سینئر بیوروکریٹ بھی موجود تھے۔ جنرل صاحب آپریشن فیئر پلے کے اغراض ومقاصد اور ان کی تکمیل کے لیے اپنے عزم کا اظہار کرچکے تو سوال، جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ مدیران کرام نے کراچی کے جناب صلاح الدین (شہید) کی رہائی کا مطالبہ کیا، جن کی (دوسری) قید کا یہ دوسرا سال تھا۔ اس کے بعد درمیانی عمر کا ایک دھان پان سا اخبار نویس کھڑا ہوا۔ اس کا سوال تھا: کیا آپ واقعی ان اعلانات کے بارے میں سنجیدہ ہیں؟ جنرل نے حسب عادت، سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنے اخلاص اور نیک نیتی کا یقین دلایا۔ ”تو کیا آپ یہ سب کچھ ان لوگوں کے ذریعے کر سکیں گے، جو بھٹو صاحب کی وفاداری میں آخری حد تک جانے کو تیار رہتے تھے‘‘؟ جنرل صاحب کے پہلو میں بیٹھے وفاقی سیکرٹری اطلاعات کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے اخبار نویس کا کہنا تھا، ”یہ وہ صاحب ہیں جو ہمیں کسی ٹریفک حادثے میں مروانے کی دھمکیاں دیا کرتے تھے‘‘۔ ماحول خاصا کشیدہ ہو گیا تھا، جنرل صاحب نے پریس کانفرنس سمیٹی اور مہمانوں کو چائے کی میز کی طرف چلنے کی دعوت دی۔ شامی صاحب اس اخبار نویس کو اپنی ”حفاظتی تحویل‘‘ میں لے کر، جنرل صاحب والی میز پر لے آئے۔ جنرل کا موڈ نارمل ہوچکا تھا۔ انہوں نے شامی صاحب سے کہا، کیسے پاگل لوگ آپ کی ٹیم میں شامل ہیں۔ شامی صاحب نے ہنستے ہوئے کہا: جناب! بھٹو صاحب کے ساتھ جنگ انہی پاگلوں کے ذریعے لڑی جا سکتی تھی، وہ کوئی عقلمندوں کا کام تھوڑی تھا۔ جنرل صاحب کے جوابی قہقہے نے ماحول کو خوشگوار بنا دیا تھا۔ یہ ”منہ پھٹ‘‘ اخبار نویس سعود ساحر تھے، شامی صاحب کے رفیقِ کار۔ وقت کے ساتھ جنرل صاحب کے ساتھ سعود کے تعلقات شناسائی سے بڑھ کر آشنائی کو پہنچ گئے تھے اور کبھی تو بے تکلفی میں پروٹوکول کے تقاضوں کا احساس بھی نہ رہتا۔ یہ 1978 کا یوم مئی تھا، سرخ سویرے والوں نے راولپنڈی پریس کلب میں ایک تقریب رکھ لی تھی۔ ان میں بڑی تعداد بھٹو صاحب کے جیالوں کی تھی جن پر قتل کا مقدمہ چل رہاتھا۔ پریس کلب میں دائیں بازو کے کچھ نوجوان بھی موجود تھے، ”سرخ ہے‘‘ کے جواب میں، سبز ہے‘‘ کے نعرے تصادم کی صورت اختیار کرگئے، دونوں طرف کے کچھ افراد مارشل لاء کے تحت گرفتار کرلئے گئے۔ جنرل ضیاالحق دوتین روز بعد غیر ملکی دورے پر جارہے تھے۔ اخبار نویس بھی ہوائی اڈے پر موجود تھے۔ سعود ساحر نے صحافیوں کی گرفتاری کا ذکر کیا تو جنرل صاحب کا کہنا تھا، فکر نہ کریں یہ ایک آدھ دن میں رہا ہو جائیں گے۔ غیر ملکی دورے سے واپسی پر پریس پھر ایئر پورٹ پر موجود تھا۔ جنرل صاحب نے حال احوال پوچھا، تو سعود نے ایک شعر کو وسیلہ ٔ اظہار بنایا۔
تیرے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
جنرل صاحب کو اخبار نویسوں کی رہائی کا وعدہ یاد آ گیا۔ شام تک ان کی رہائی عمل میں آ گئی تھی۔
شامی صاحب نے شہرت اور سربلندی کا سفر، پلک جھپکتے میں طے کرلیا، تو اس کے لیے وہ قریشی برادران کے لیے ممنونیت کے فراواں جذبات کا اظہار کرنے کے علاوہ بھٹو عہد کی اپنی صحافت میں، ان رفقا کے ذکر میں بھی کسی بخل سے کام نہیں لیتے، جو اس دشت کی سیاحی میں ان کے ہمقدم رہے۔ ان میں سے جناب مختار حسن اگست 1995 میں ہارٹ اٹیک سے اللہ کو پیارے ہوگئے، اتنے بہادر کہ دسمبر1979 میں افغانستان میں روسی فوجوں کی آمد پر ”قصہ زمین، برسرِ زمین‘‘ کے مصداق کے لیے کابل جا پہنچے اور وہاں مہینوں گرفتار رہے۔ ان کے لیے تعزیتی تقریب میں قادرالکلام مجیب شامی کے لیے بات کرنا محال تھا، اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیئے تھے۔ قریشی برادران اور شامی صاحب کی گرفتاری کے ساتھ ان کے ماہنامہ اردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی کے ڈیکلریشن بھی منسوخ ہوگئے تھے۔ ایسے میں سجاد میر، آغا شورش کاشمیری کے دفتر جا پہنچے۔ آغا صاحب کے برادرِ نسبتی صادق کاشمیری کے پاس ہفت روزہ ”اداکار‘‘ اور ”ستارہ صبح‘‘ کے ڈیکلریشن تھے۔ آغا صاحب نے اداکار کا ڈیکلریشن سجاد میر کے سپرد کیا اور کہا کہ فی الحال اس سے کام چلائو، ستارہ صبح بعد میں کام آجائے گا۔ ان دنوں قریشی برادران اور آغا صاحب کے تعلقات میں قدرے کشیدگی تھی۔ اس کے باوجود اداکار کا ڈیکلریشن ان کی نذر کرنے کے علاوہ، وہ اٹھے اور اسیروں سے ملاقات اور ان کی دل جوئی کے لیے، سول لائنز کی حوالات پہنچ گئے۔ یہ پورا دور بھٹو صاحب اور ”شامی اینڈ کمپنی‘‘ میں آنکھ مچولی کا دور تھا۔ انہیں اپنا ڈیکلریشن ملنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، ایسے میں قدرت کوئی وسیلہ پیدا کردیتی۔ بعض لوگوں نے اپنے ڈیکلریشن لے رکھے تھے۔ شامی صاحب کی زیر ادارت ایک رسالہ بند ہوتا، تو اللہ کا کوئی بندہ اپنا ڈیکلریشن لے کر پہنچ جاتا۔ زندگی بند ہوا تو اداکار آ گیا اور پھر ایک لمبی قطار، وہ سارے نام شاید شامی صاحب (اور ان کے رفقا) کو بھی یاد نہ ہوں: ذہن پر بہت زور دے کر کچھ نام یاد آئے: اذانِ حق (اس کا ڈیکلریشن میانوالی سے تھا) رفاقت (سرگودھا سے) الحدید، طاہر، لیل و نہار اور اسلامی جمہوریہ۔
شامی صاحب اس دور ابتلا کے جن ساتھیوں کا ذکر اب بھی بڑی محبت سے کرتے ہیں، ان میں ممتاز اقبال ملک بھی ہیں، بعد میں صلاح الدین صاحب کے زیر ادارت جسارت کے لاہور میں بیوروچیف ہو گئے۔ 1980 میں وہ مسلح افواج کے ترجمان ‘ہلال‘ کے ایڈیٹر ہو کر راولپنڈی چلے گئے تو لاہور میں یہ خاکسار ان کا جانشین ہو گیا (زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن)۔ ملک صاحب ان دنوں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کاش! وہ اپنی صحافتی زندگی کے یادیں قلم بندکر سکیں، تو یہ اس دور کی سیاسی و صحافتی تاریخ میں ایک گراں قدر اضافہ ہو گا۔ سندھ بھٹو صاحب کا ہوم پراونس تھا (اگرچہ ان کا اصل پاور بیس پنجاب تھا) حیدر آباد میں بیٹھ کر، سندھ کے اصل احوال لکھنا، کوئی آسان کام نہ تھا۔ یہ بلا شبہ جان ہتھیلی پر رکھنے والی بات تھی اور ظہیر احمد اس سارے عرصے میں جان ہتھیلی پر رکھے رہے‘ اور راولپنڈی/ اسلام آباد کے جڑواں شہروں میں، بھٹو اقتدار کی عین ناک کے نیچے، آزادانہ صحافت کے لیے واقعی سعود ساحر جیسا حوصلہ درکار تھا۔

Exit mobile version