دنیا میں ڈیری کی صنعت کے ماحول پر اثرات کو بہتر کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی لیبارٹری میں دودھ پلانے والے جانوروں کے خلیوں سے اصلی دودھ بنایا جا رہا ہے۔ اس کام کے لیے کسی ڈیری فارم کی ضرورت نہیں۔ کیا خلیوں سے بنائی جانے والی ڈیری مصنوعات روایتی ڈیری فارمنگ کی جگہ لے سکتی ہیں؟
اسی موضوع پر بی بی سی کی ناعیمہ پریٹن نے ٹرٹل ٹری لیبز نامی کمپنی کے چیف سٹریٹیجسٹ میکس رائی کا انٹرویو کیا۔ یہ انٹرویو بی بی سی کی سیریز ’فالو دا فوڈ‘ کا حصہ ہے۔ اس سیریز میں جائزہ لیا گیا ہے کہ کاشتکاری اور ڈیری فارمنگ کی صنعتیں آب و ہوا اور ماحول میں تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل سے کیسے نمٹ رہی ہیں۔
میرے خیال میں ڈیری کی موجودہ صنعت ماحول کے لحاظ سے دیر پا نہیں۔ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں چار فیصد حصہ ڈیری فارمنگ کا ہے۔
یہ ہر سال تقریباً دو ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ کے برابر ہے۔ عالمی سطح پر میتھین گیس کا 37 فیصد مویشیوں کی افزائشِ نسل کے کاروبار سے پیدا ہوتا ہے۔
میتھین گیس ایک خطرناک گرین ہاوس گیس ہے جو کاربن ڈائی آکسائڈ کے مقابلے میں زہریلے مادوں کو اپنے اندر قید کرنے کی 25 فیصد زیادہ صلاحیت رکھتی ہے۔
ڈیری کے کاروبار میں زمین اور پانی سمیت دیگر وسائل بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے ہیں۔
آلودگی پھیلانے کا یہ سلسلہ مزید جاری نہیں رہ سکتا۔ خاص طور پر اگر ہمارا ہدف اس دنیا میں مزید ایک ارب لوگوں کے پیٹ بھرنا ہے تو ہمیں ایسی نئی ٹیکنالوجیز لانے کی ضرورت ہے جو ہمیں دودھ، پنیر، کریم اور مکھن جیسی ہی مزیدار اشیا فراہم کریں لیکن جنھیں بنانے میں کم آلودگی پیدا ہو۔ ٹرٹل ٹری لیباریٹریز میں ہمارا ہدف یہی ہے۔
ہم دودھ پلانے والے جانوروں کے خلیوں کی اپنی لیباٹریوں میں افزائش کر کے ان کے ذریعے خام دودھ بنانے کے قابل ہیں۔
یہ دودھ بڑے بڑے بائیو ری ایکٹرز میں تیار ہوتا ہے۔ یہ خلیے چھوٹی چھوٹی نالیوں میں چپک جاتے ہیں پھر اس میں سے سیال گزارا جاتا ہے اور نالیوں کی دوسری جانب سے دودھ بن کر نکلتا ہے۔
ہم خلیے استعمال کر کے دودھ پیدا کرنے والی دنیا کی پہلی کمپنی ہیں۔ یہ سوچ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ یہ بائیو ری ایکٹرز دنیا میں کہیں بھی بھیجے جا سکتے ہیں جہاں دودھ کی کمی ہو اور یہ وہاں فوراً ہی دودھ کی پیداوار شروع کر سکتے ہیں۔
ہمیں یہ دیکھ کر بھی خوشی ہوتی ہے کہ ہم لیباریٹری میں تیار ہونے والے اپنے دودھ سے کیا کچھ بنا سکتے ہیں۔
اب تک ہمیں گائے، بکری، بھیڑ اور اونٹ کے خلیے استعمال کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے، جس کا مطلب ہے کے اس میں اور بڑے امکانات موجود ہیں۔ جب ہم اس دودھ سے مختلف طرح کے پنیر او ر مکھن بنانے شروع کریں گے تو اس کی قدر میں مزید اضافہ ہو گا۔
ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ دوسری کمپنیوں نے یہی کام گوشت کے ساتھ کیا ہے۔ صارفین پہلے ہی ایسی اشیا پر زور دے رہے ہیں جو جانوروں پر ظلم کے بغیر تیار ہوتی ہوں۔ صارفین اب گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں اپنے کردار کے بارے میں زیادہ سوچ رہے ہیں۔
اپنی لیباریٹریوں میں خلیوں کے ذریعے دودھ پیدا کر کے ہم اپنے سیارے اور جانوروں کو نقصان اور تکلیف پہنچائے بغیر اصلی دودھ حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی مستقل ہے۔