اگر آپ کو گردہ تبدیل یعنی ٹرانسپلانٹ کروانے کی ضرورت ہے یا مستقبل میں پڑ سکتی ہے تو ماضی کے مقابلے اب ایسا کرنے کے امکانات زیادہ روشن ہو گئے ہیں اور یہ سب کچھ ایک ماہرِ معاشیات ایلون روتھ کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے۔
پروفیسر روتھ نے معاشی منطق استعمال کر کے عالمی سطح پر گردے عطیہ کرنے کے طریقے میں انقلابی تبدیلی برپا کر دی ہے۔
ان کی کاوش کے بغیر ہر سال جو ہزاروں افراد گردے تبدیل کرا کر چل پھر رہے ہیں شاید صحت مند نہ ہو پاتے، ڈائلیسس کروا رہے ہوتے یا پھر زندگی کی جنگ ہار چکے ہوتے۔
گردہ عطیہ کرنا دوسرے انسانی اعضا عطیہ کرنے سے ذرا مختلف عمل ہے کیوں کہ انسانی جسم میں دو گردے ہوتے ہیں اور انسان ایک گردے کے سہارے بھی صحت مند زندگی بسر کر سکتا ہے۔
آپ اپنے کسی عزیز کو گردہ عطیہ کرنا چاہتے بھی ہیں تب بھی بعض اوقات عطیہ کرنے والے کا گردہ مریض کے گردے سے ’میچ‘ (مطابقت) نہیں کر پاتا اور یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات گردے عطیہ نہیں کیے جا سکتے۔
روتھ کے طریقہ کار سے پہلے کسی بھی مریض کو گردے کا عطیہ حاصل کرنے کے لیے مدتوں انتظار کرنا پڑتا تھا کہ جب تک گردہ عطیہ کرنے والا شخص مر نہیں جاتا یا کوئی شخص اپنا ایک گردہ عطیہ نہیں کر دیتا۔
ان کا خیال تھا ’گردوں کی تبدیلی میں اگر ایک عطیہ کرنے والے کے دونوں گردے دوسرے شخص کے گردوں سے مماثلت نہیں رکھتے تو انھیں دوسرے غیر مماثل جوڑوں سے ملا دینا چاہیے تاکہ ہر شخص جو گردہ عطیہ کر رہا ہے وہ کسی کے کام آ سکے۔‘
ایسی مثالیں بھی ہیں جہاں گردے عطیہ کرنے والوں کی ایک طویل کڑی بن گئی اور 70 افراد کے درمیان 70 کے قریب گردوں کا تبادلہ ممکن ہو سکا۔
گردوں کی فروخت ایران کے علاوہ کئی ملکوں میں ممنوع ہے کیونکہ بہت سی حکومتوں کا خیال ہے کہ یہ اخلاقی طور پر درست نہیں ہے کہ انسانی اعضا کی خرید و فروخت کو قانونی قرار دیا جائے اور لوگوں کو صرف پیسہ کمانے کے لیے اپنے اعضا کی فروخت کی اجازت دی جائے۔
پروفیسر روتھ کا کہنا ہے کہ گردوں کی مارکیٹ ایسی ہے جس میں قیمت کو اہمیت حاصل نہیں ہونے دی جا سکتی۔
انھوں نے امریکہ کی مثال دی جہاں ہر سال لوگوں کے لیے ایک ہزار گردے حاصل کیے جاتے ہیں۔
پروفیسر روتھ کے اس آئیڈیا کے لیے انھیں معیشت میں نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔
جرمنی میں گردوں کی تبدیلی
جرمنی کے شہر برلن میں کچھ نوبل انعام یافتہ افراد اور ماہرین، صحت عامہ کے مستقبل پر بات کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
ایلون روتھ بھی وہاں موجود تھے اور اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ جرمنی صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں واحد ملک ہے جہاں قانون گردوں کے تبادلے کی اجازت نہیں دیتا۔
ان کا کہنا ہے کہ وقتاً فوقتاً گردوں سے متعلق حکومتی قوانین اور ضابطوں کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے اور انھیں طب کے شعبے میں ہونے والی عملی پیشرفت سے ہم آہنگ رکھا جانا چاہیے۔
اس بارے میں جرمنی کے صحت عامہ کے شعبے کا کہنا تھا کہ وہ اس مسئلے پر عام بحث کرانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں لیکن اس کے لیے وقت کا ابھی تعین نہیں کیا گیا۔
پروفیسر روتھ کا کہنا تھا کہ جرمنی کی طرف سے جو پابندی عائد ہے اس کی وجہ وہ سمجھ سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ انسانی اعضا کے غیر قانونی کاروبار اور سمگلنگ کے بارے میں تشویش کا شکار ہیں۔
انھوں نے کہا کہ حکام کو یہ تشویش لاحق ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا گردہ عطیہ کرنے پر تیار ہو جاتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اسے پیسے دے کر تیار کیا گیا ہو۔
’لیکن اگر آپ کا بھائی آپ کو گردہ عطیہ کر رہا ہو تو پھر آپ کو ایسی کوئی فکر نہیں ہوتی۔‘
گردوں کی فروخت
پروفیسر روتھ کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے مستقبل میں لوگوں کو ان کے گردوں کے بدلے پیسے دیے جائیں۔
انھوں نے اس کا موازنہ امریکہ میں ویتنام کی جنگ کے بعد شروع ہونے والی بحث سے کیا جس کی وجہ لازمی یا زبردستی فوج میں بھرتی کو رضاکارانہ بھرتی سے بدل دیا گیا۔
پروفیسر روتھ کے مطابق ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب لوگ اپنا گردہ بیچنا چاہیں گے تو ان لوگوں کو حکومتیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھیں گی۔ اور وہ حکومتیں خود گردے جمع کر کے انھیں تقسیم کریں گی لہذا گردے صرف امیروں کو ہی نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی مل سکیں گے۔
پیسوں کے عوض انسانی اعضا حاصل کرنے کا سوال ایک اخلاقی مسئلہ ہے جو شعبۂ طب سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ عام لوگوں کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے ایک تجرباتی پروگرام کو قبول نہیں کیا تھا جس میں گردہ حاصل کرنے والا شخص (جس کا تعلق زیادہ آمدن والے ممالک سے تھا) تمام طبی اخراجات اس شخص کو ادا کرتا ہے جس نے گردہ عطیہ کیا (ان کا تعلق کم آمدن والے ممالک سے ہوتا ہے)۔
روتھ اس سکیم کے حق میں ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ لوگ بیوروکریسی کے ضابطوں کی وجہ سے موت کا شکار ہو جائیں گے۔