عاصم سلیم باجوہ: آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ پر صحافی احمد نورانی کے الزامات، ’خاندانی کاروبار کا پھیلاؤ اور اُن کی فوج میں ترقی ساتھ ساتھ چلیں’
گذشتہ ماہ جب حکومت نے وزیر اعظم عمران خان کے معاونین خصوصی اور مشیران کے اثاثوں اور شہریت کی تفصیلات جاری کی تو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ان کا خوب چرچا ہوا۔
ان تفصیلات کے سامنے آنے کے بعد پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سابق سربراہ اور بعد میں فوج کے سدرن کمانڈ کی قیادت کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ، جو کہ اب وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات اور سی پیک اتھارٹی کے سربراہ ہیں، کے اثاثہ جات پر کڑی تنقید کی گئی۔
مگر جب 27 اگست کو صحافی احمد نورانی کی لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ اور ان کے خاندان کے کاروبار کے بارے میں ایک مفصل تحقیقاتی رپورٹ ‘فیکٹ فوکس’ نامی ویب سائٹ پر شائع ہوئی تو بس پھر سوالات اور تنقید کا ایک ایسا پنڈورا باکس کھل گیا جو کہ رات گئے تک بند ہونے نام ہی نہیں لے رہا تھا اور ٹوئٹر پر مسلسل ‘عاصم باجوہ’ اور ‘باجوہ لیکس’ ٹرینڈ کر رہا تھا۔
رپورٹ میں عاصم باجوہ اور ان کے خاندان کے بارے میں کیا کہا گیا ہے؟
صحافی احمد نورانی نے اپنے مضمون میں دعوی کیا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ کے ‘خاندان کی کاروباری سلطنت کا پھیلاؤ اور جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی فوج میں اہم عہدوں پر ترقی، دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلیں۔’
اپنے مضمون میں احمد نورانی لکھتے ہیں کہ عاصم باجوہ کے بھائیوں، اہلیہ اور بچوں کی ‘ چار ممالک میں 99 کمپنیاں، 130 سے زیادہ فعال فرینچائز ریسٹورنٹس، اور 13 کمرشل جائیدادیں ہیں جن میں سے امریکہ میں دو شاپنگ مال بھی شامل ہیں۔’
یہاں پر احمد نورانی نے اہم نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ’عاصم سلیم باجوہ نے وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی بننے کے بعد جمع کروائی گئی اپنے اثاثہ جات کی فہرست میں اپنی بیوی کے پاکستان سے باہر بزنس کیپیٹل کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ متعلقہ کالم میں باقاعدہ ‘نہیں ہے‘ لکھا ہے۔’
احمد نورانی نے اپنے مضمون میں دعوی کیا کہ ان کی تحقیق کے مطابق جنرل (ر) عاصم باجوہ کی اہلیہ فرخ زیبا اپنے شوہر کے بھائیوں کے قائم کردہ باجکو گروپ کے تمام کاروباروں میں ان کے ساتھ برابر کی حصہ دار اور مالک ہیں۔
احمد نورانی مزید لکھتے ہیں کہ عاصم باجوہ کے بیٹوں نے بھی اس گروپ میں 2015 میں شمولیت اختیار کی اور پاکستان اور امریکہ میں مزید نئی کمپنیوں کی بنیاد اس وقت رکھی جب ان کے والد آئی ایس پی آر کے سربراہ تھے اور پھر بعد میں کمانڈر سدرن کمانڈ بلوچستان بن گئے تھے۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ جاری کیے گئے اثاثہ جات کی فہرست میں عاصم باجوہ نے اپنی اہلیہ کے نام پر ‘خاندانی کاروبار’ میں صرف 31 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری ظاہر کی اور اس حلف نامے کے آخر میں تصدیق کی کہ ‘میری، اور میری بیوی کی اثاثہ جات کی فہرست نہ صرف مکمل اور درست ہے بلکہ میں نے کوئی چیز نہیں چھپائی۔’
تاہم احمد نورانی کے مضمون میں دعوی کیا گیا ہے کہ امریکی حکومت کی سرکاری دستاویزات کے مطابق ‘عاصم باجوہ کی اہلیہ فرخ زیبا پاکستان سے باہر (امریکہ میں) تیرہ کمرشل جائیدادیں، جن میں دو شاپنگ سنٹر بھی شامل ہیں، کی مشترکہ مالک ہیں اور تین ممالک میں 82 کمپنیوں میں ان کے سرمائے کی کل مالیت تقریباً چالیس ملین ڈالر ہے جس کی وہ عاصم باجوہ کے بھائیوں کے ساتھ برابر کی مالکن ہیں۔’
کیا ایس ای سی پی کی ویب سائٹ سے معلومات کو حذف کیا گیا؟
احمد نورانی کے مضمون میں ایک بڑا دعوی یہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کاروباری کمپنیوں کے نظام کی نگرانی کرنے والے ادارے سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) نے ‘اپنی آفیشل ویب سائٹ سے جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ کے بیٹوں کی ملکیتی کمپنیوں کا ڈیٹا غائب کرنا شروع کر دیا۔’
مضمون میں دعوی کیا گیا ہے کہ ایس ای سی پی کی ویب سائٹ پر اس کاروباری ڈیٹا میں کی جانے والی تبدیلیوں کے مکمل شواہد موجود ہیں۔
صحافی احمد نورانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ایس ای سی پی کی ویب سائٹ سے عاصم باجوہ کے بیٹوں کی ملکیت کے بارے میں معلومات اتوار پہلی اگست کو ہٹائی گئی تھیں جو کہ عید کی چھٹی تھی۔
انھوں نے دعوی کیا: ’ایس ای سی پی کے پورے ادارے کو معلوم ہے یہ بات اور میرے پاس تمام ڈیجیٹل شواہد موجود ہیں۔‘
عاصم سلیم باجوہ کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی ‘پر زور تردید’
احمد نورانی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ جب انھوں نے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ سے ان کی اہلیہ کی امریکہ میں جائیداد اور بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے متعلق سوال کیا اور پوچھا کہ ‘انھوں اپنے اثاثہ جات کی ڈیکلیریشن میں اپنی بیوی کے حوالے سے واضح طور یہ کیوں لکھا کہ انکا پاکستان سے باہر کوئی کاروباری سرمایہ نہیں ہے تو جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ نے جواب دینے سے گریز کیا۔’
تاہم مضمون کی اشاعت کے بعد ٹوئٹر پر عاصم باجوہ نے دو ٹوک انداز میں الزامات کی تردید کرتے ہوئے لکھا کہ ‘ایک غیر معروف ویب سائٹ پر میرے اور میرے خاندان کے خلاف عناد پر مبنی ایک کہانی شائع ہوئی ہے جس کی میں پرزور انداز میں تردید کرتا ہوں۔’
جب بی بی سی نے احمد نورانی سے اس بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ ‘میں صرف یہ کہوں گا مناسب طریقے سے جواب دینے کے لیے انھیں واضح کرنا ہوگا کہ میرے مضمون میں کون سے حقائق غلط ہیں اور انھیں اس کے لیے شواہد فراہم کرنے ہوں گے۔’
احمد نورانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ‘عاصم سلیم باجوہ کے بھائیوں، اہلیہ اور بچوں کا سنہ 2002 سے قبل مکمل ملکیت کا کوئی ذاتی کاروبار نہیں تھا اور اسی سال وہ سابق آمر پرویز مشرف کے دور میں لیفٹنٹ کرنل کے عہدے پر فائز ہوئے اور پرویز مشرف کے سٹاف میں تعینات ہوئے۔’
احمد نورانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ ‘یہ تمام سلسلہ شروع کیسے ہوا اور ابتدائی سرمایہ کیسے لگایا گیا اور وہ رقم کہاں سے حاصل کی گئی اور تین ہفتوں تک جوابات کا انتظار کرنے کے باوجود عاصم سلیم باجوہ خاموش کیوں رہے۔’
فیکٹ فوکس کی ویب سائٹ پر ‘حملہ’؟
مضمون کی اشاعت کے بعد جہاں ایک جانب سوالات کی بھرمار تھی اور سوشل میڈیا پر اس رپورٹ پر ٹرینڈز چل رہے تھے، تو دوسری طرف رات گئے فیکٹ فوکس کی ویب سائٹ تک کچھ دیر کے لیے رسائی بند ہو گئی تھی جس نے مزید سوالات کو جنم دیا۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی سے تعلق رکھنے والی محقق رابعہ محمود نے بھی ٹوئٹر پر تبصرہ کیا کہ وہ فیکٹ فوکس کی ویب سائٹ تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہی ہیں۔
اس بابت احمد نورانی نے بی بی سی کو وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ویب سائٹ کو پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی نے بند نہیں کیا بلکہ دعوی کیا کہ اس پر ‘ڈی ڈوس حملہ کیا جا رہا ہے ‘ جس کی وجہ سے صارفین اس مضمون کو پڑھ نہیں پا رہے۔
واضح رہے کہ ڈی ڈوس یعنی ڈینائیل آف سروس اٹیک ایک ایسا عمل ہوتا ہے جس کی مدد سے کسی بھی ویب سائٹ پر ایک ہی وقت میں بڑی تعداد میں رسائی حاصل کرنے کا حملہ کیا جاتا ہے اور انٹرنیٹ ٹریفک بڑھ جانے کی وجہ سے وہ ویب سائٹ بیٹھ جاتی ہے۔
تاہم ایک سے دو گھنٹے کے بعد ویب سائٹ بحال ہو گئی تھی۔
سوشل میڈیا پر رد عمل کیا رہا؟
جب گذشتہ ماہ اثاثہ جات کی فہرست شائع ہوئی تھی تو اُس وقت عاصم سلیم باجوہ سے ان کی ‘ٹیوٹا زیڈ ایکس’ گاڑی کی قیمت کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے تھے۔
اس بار احمد نورانی کے مضمون کی اشاعت کے بعد ایک بار پھر سوشل میڈیا کی توپوں کا رخ ان کی جانب ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ اچھا ہے کہ آپ نے رپورٹ کی تردید کر دی لیکن عوامی عہدے پر فائز ہونے کے بعد ایک فقرے کی تردید کافی نہیں ہوگی۔’
عسکری امور کی تجزیہ نگار اور محقق عائشہ صدیقہ نے بھی عاصم باجوہ کی ٹویٹ کی جواب میں کہا کہ ‘جنرل صاحب، یہ بہت مناسب ہوگا اگر آپ دستاویزی ثبوت کے ساتھ الزامات کی تردید کریں۔ ایک جملے سے بات نہیں بنے گی۔’
صارف ذیشان خان نیازی لکھتے ہیں کہ ‘بالکل غلط ہوگی سٹوری سر، آپ عدالت سے رجوع کریں اور اس جھوٹی سٹوری پر سزا دلوائیں۔تمام منی ٹریل مہیا کریں تاکہ یہ روز روز کے الزامات ختم ہوں۔’
اسی نوعیت کا تبصرہ ایک اور صارف شفیق احمد نے بھی کیا جو لکھتے ہیں کہ ‘باجوہ صاحب جس طرح احمد نورانی صاحب نے مکمل تفصیلات دیں ہیں تو آپ بھی اسی طرح ہر بات کا تفصیلاً جواب دیں تاکہ ہم بھی انکی غلط بیانی کی مذمت کرسکیں کیونکہ انھوں ایسے ہی تماشا بنایا ہوا ہے۔۔۔’
صارف علی اظہر نے عاصم باجوہ کی تردیدی ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ ‘امریکہ، کینیڈا، متحدہ عرب امارات کے آڈٹرز اور حکام سے شفاف اور جامع تحقیقات کرائیں تاکہ یہ معاملہ ختم ہو سکے۔
بشکریہ بی بی سی اُردو