منتخب تحریریں

سرخ خون سیاہ کیوں پڑ جاتا ہے؟

Share

جید مذہبی سکالر و فلسفی ڈاکٹر علی شریعتی نے دورِ جدید کو اسلامی نظریے کے انطباق و تشریح سے مانوس کرنے کے لیے جو گراں قدر علمی کام کیا اس میں ان کا ایک شہرہ آفاق مقالہ سرخ شیعت بھی شامل ہے۔

علی شریعتی کے مطابق سرخ رنگ مزاحمت، قربانی اور ملوکیت کی ہر شکل کے خلاف جہدِ مسلسل کا استعارہ ہے ۔جبکہ سیاہ رنگ سوگ اور ٹھہراؤ کی کیفیت ظاہر کرتا ہے۔کربلا میں امام حسین کے روضے پر آج بھی سرخ پھریرا لہراتا ہے ۔یعنی باطل کے مقابل حق کا بنیادی رنگ۔

مگر طاغوت کے خلاف مزاحمت کے پیغام کی عالمگیری رسائی کو محدود و مسخ کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کیے گئے۔ اسے اموی و ہاشمی قبائلی و خاندانی رقابت کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔

اسے تخت نشینی کی لڑائی قرار دیا گیا۔ اسے ایک مسلمان ریاست کے خلاف ایک باغی گروہ کا خروج بتایا گیا۔ اسے ایک فرد کی دوسرے فرد سے اقتدار چھیننے کی کوشش قرار دیا گیا۔ یا پھر لوگ سیاہ و سفید کے بارے میں ازخود فیصلہ کرنے سے باز رہیں، چنانچہ کہا گیا کہ ہم کون ہوتے ہیں یہ طے کرنے والے کہ دونوں میں سے کون حق پر ہے اور کون ناحق۔ یہ فیصلہ تو صرف خدا کی عدالت میں ہی ممکن ہے۔

اور یہ تمام سازشی نظریات ملوکیت سے نتھی مذہبی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے تیار کیے اور پھیلائے گئے تاکہ اہلِ بیت کی قربانی کے اصل پیغام کو عوام الناس کا ترانہ بننے سے روکا جا سکے اور اسے مسلمانوں کے اتحاد کا محور بننے کے بجائے مزید فروعی تقسیم کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

عباسی دور کے اختتامی زمانے تک جب اصولوں کی سربلندی کے لیے تن من دھن کی پرواہ نہ کرنے والا آئمہ کرام کا سلسلہ تھما۔ تو آلِ بویہ اور پھر صفوی دور میں نظریہ مزاحمت کو رسومات و ادب آداب کے سانچے میں ڈھالنے کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں ایک اور طرح کی دربار دار مذہبی اسٹیبلشمنٹ وجود میں آئی (اسٹیبلشمنٹ کا مطلب ہی سٹیٹس کو کی برقراری اور نظریاتی جمود کا دفاع ہے۔)

یوں باطل کی ہر شکل کے خلاف جدوجہد اور کسی صورت سمجھوتا نہ کرنے کی کربلائی روح کو رسومات کے جسد میں قید کر کے محض سوگ کا رنگ اوڑھا دیا گیا اور سرخ پھریرا بتدریج پیچھے ہوتا چلا گیا۔

واقعہ کربلا

ڈاکٹر علی شریعتی کے مطابق آج سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ مزاحمت کے کربلائی نظریے کو سٹیٹس کو کے جمودی و مفاداتی ملبے تلے سے نکال کر کیسے زندہ رکھا جائے اور اس سے اجتماعی خیر کی قوت کشید کی جائے۔

ڈاکٹر علی شریعتی نے جس بنیادی مسئلے کی جانب توجہ دلائی ہے وہ کسی ایک نظریے، فرقے یا مذہبی اسٹیبلشٹنٹ تک محدود نہیں۔

( مذہبی اسٹیبلشمنٹ سے مراد وہ تمام راہب، فقیہہ، رباعی، پنڈت، بھکشو، پادری، علما و مشائخ ہیں جنہوں نے اہلِ حق کو راہ سے ہٹانے کے لیے حاکمِ وقت کو شریعت کے نام پر جواز مہیا کئے۔ لوگوں کی تعلیم کرتے رہنے اور انہیں سچائی کے راستے پر رکھنے کے لیے مشکلات و قربانیوں کا راستہ چھوڑ کر سچائی کو ریاست و ملوکیت کے مفادات کے تابع کر دیا اور مزاحمتی روح کو تھپک تھپک کے سلا دیا اور بدلے میں مراعات، ملوکیت کی عطا کردہ دستارِ فضیلت، اقتدار میں حصہ داری، سجادہ نشینیاں اور فروغ دین کے نام پر نسل در نسل املاک و خطابات و جاگیریں پائیں اور بنائیں اور اس سب کا جواز دین سے جوڑ کر اسے جائز ثابت کرنے اور دکھانے کی کوشش کی۔)

آپ دیکھیں کہ جتنے بھی بڑے مذاہب اور نظریات وجود میں آئے ان کا بنیادی ہدف باطل کے مقابلے میں حق و انصاف کا بول بالا تھا۔

مثلاً یہودیت حضرت ابراہیم علیہ سلام سے شروع ہوتی ہے جنہوں نے نمرود کی خدائی کو چیلنج کیا اور پھر حضرتِ موسی فرعونیت کے آگے سینہ سپر ہو گئے ۔ شریعتِ موسوی وجود میں آ گئی۔اور پھر رفتہ رفتہ روح نکلتی چلی گئی اور رسومات کی شکل میں جسم باقی رہ گیا اور پھر جسم کو بھی موقع پرستی کھا گئی۔

حضرت عیسی علیہ سلام کی جدوجہد رومن استبداد اور ریا کار یہودی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف شروع ہوتی ہے ۔آپ سمیت آپ کے حواریوں اور پھر ان کے بعد آنے والے تابعین نے عدم تشدد کی بنیاد پر استوار عیسوی نظریے کی سربلندی کے لیے کیا کیا مظالم نہ سہے اور کون سی قربانیاں نہیں دیں۔مگر پھر ریاست اور مسیحی نظریے میں اتحاد ہو گیا اور جدوجہد کا پیغام ایک نئے سٹیٹس کو اور رسوماتی جال میں پھنس گیا۔ اور پھر آنے والی صدیوں میں پاپائیت نے بھی وہی شکل و حربے اختیار کئے جو کسی بھی ملوکیت کا طرہِ امتیاز ہے۔

صلیب

اسلام بنیادی طور پر انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال اور ملوکیت کی ہرشکل کے خاتمے کے لیے وحدانیت کے محور پر پیش کیا گیا۔ مگر رسول اللہ نے خطبہ حجتہ الوداع میں اتحادِ بین المسلمین، ردِ عصبیت، عربی و عجمی کے امتیاز پر تقویٰ کی فوقیت اور معیشت کے بارے میں جو جو اصول دھرائے اور نصیحتیں کیں ۔آپ کے پردہ فرمانے کے بعد چند عشروں میں ہی ایک کے بعد ایک ہدایت و نصیحت طاق پر رکھ دیے گئے اور پھر وہی ہوا جو کہ ہوتا ہے یعنی ہر شکل کی ملوکیت و مذہبی اسٹیبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ یا پھر نظریے کی بالادستی کے نام پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور عوام الناس کو ضعیف الاعتقادی و جہالت سے نجات دلانے کے بجائے اسے اپنے فائدے کے لیے ہتھیار بنانے کی کوشش۔

اگر ہم مشرقِ وسطی سے باہر دیکھیں تو وہاں بھی یہی کہانی ہے۔ ہندو مت کی بنیاد ہے ‘وسودیو کٹم بکم’ یعنی ساری دنیا میرا کنبہ ہے۔مگر پھر یہ تعلیم ذات پات اور تنگ نظری کے ہاتھوں مندروں کے تہہ خانوں میں دفن ہوتی چلی گئی اور راجہ اور پروہت نے مفاداتی دستانے پہن کر مصافحہ کر لیا۔

آج ہر انسان کو گلے لگانے کی تعلیم دینے والے ہندومت کو ہندوتوا کی صندوقچی میں قفل بند کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

مندر

گوتم بودھ کی بنیادی تعلیمات سوائے اس کے کیا ہیں کہ نسلی تفریق کی مزاحمت کی جائے اور ہر جاندار کو ظلم سے تحفظ حاصل ہو اور انسانوں کے دکھ بڑھانے کے بجائے انہیں بانٹا جائے۔’

ڈھائی ہزار برس قبل یہ سب کہنا کتنا بڑا انقلابی کام تھا۔ مگر اسی بدھا کے نام پر سری لنکا، برما اور جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر بودھ اکثریتی ممالک نےماضی ِ قریب اور حال میں کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے یا سہے۔

یہ محض مذہبی نظریات کے ساتھ نہیں ہوا۔

انیسویں اور بیسویں صدی میں سوشلزم کی تحریک کتنے جذبے اور ارمان کے ساتھ پروان چڑھی ۔آدھی دنیا نے ایک زمانے میں اسے گلے لگایا۔مگر پھر انقلابی ہی جامدیت کے سہولتی اسیر ہوتے چلے گئے ۔ مارکسسٹ لیننسٹ نظریہ علاقہ در علاقہ قومی، ریاستی و انفرادی انا کے جوتے تلے دبتا چلا گیا۔

کل تک چین سوویت یونین کو نظریاتی ترمیم پسند کہتا تھا۔ آج وہی چین سرمایہ داری پر سوشلزم کا ٹیگ لگانے پر مصر ہے جبکہ شمالی کوریا کی خاندانی بادشاہت بھی خود کو کیمونسٹ کہنے پر بضد ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ سرخ کا سیاہ میں بدلنا جتنا آسان ہے ۔سیاہ پر دوبارہ سرخ رنگ چڑھانا اتنا ہی مشکل۔مگر مایوس نہیں ہونا چاہیے۔

سرخ رنگ ہر دور میں ایک نئے انداز میں تازہ ولولے کے ساتھ ابھرتا ہے اور رفتہ رفتہ جب اس پر مصلحتی سیاہ رنگ غالب آنے لگتا ہے تو کہیں اور سے ایک اور سرخ فوارہ ابل پڑتا ہے۔

خود ہمارے گرم خون کے ساتھ بھی تو یہی ہوتا ہے۔ کچھ دیر سرخ رہتا ہے مگر گرنے کے بعد بتدریج سیاہی مائل ٹھنڈا ہوتا چلا جاتا ہے۔

یہ معرکہ سرخ و سیاہ شاید اسی طرح جاری رہے گا۔