کووڈ 19: بند کمروں میں کورونا وائرس سے بچنے کے پانچ طریقے
جیسے جیسے موسم خزاں قریب آ رہا ہے اور لوگ اپنا زیادہ وقت گھروں میں گزاریں گے تو ایسے میں کورونا وائرس سے بچنے کے لیے صاف ہوا کی درست آمدورفت اہم ثابت ہو سکتی ہے۔
کورونا وائرس کو شکست دینے کے لیے مہینوں سے ہمیں ہاتھ دھونے اور سماجی فاصلے برقرار رکھنے کے بارے میں بتایا جا رہا ہے۔ لیکن سائنس دانوں اور انجینئیرز کا کہنا ہے جب بچے سکولوں میں واپس لوٹ رہے ہیں اوربہت سے لوگ دفاتر میں بھی جا رہے ہیں تو ایسے میں ہمیں اس ہوا کے بارے میں بھی سوچنا ہو گا جس میں ہم سانس لیتے ہیں۔
ہوا کی اچھی آمدورفت پانچ طریقوں کی وجہ سے اہم ہے۔
1. اگر کہیں بھیڑ ہے تو باہر نکل جائیں
جب آپ کسی کمرے میں داخل ہوں اور ہوا باسی محسوس ہو تو ہوا کی آمدورفت کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کمرے میں تازہ ہوا داخل نہیں ہوئی جس سے آپ کا کورونا وائرس سے متاثر ہونے کا خدشہ بڑھ سکتا ہے۔
حالیہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ بند جگہوں میں وائرس کا ’ہوا کے ذریعے سے منتقل ہونے میں اضافہ‘ ہو سکتا ہے کیونکہ وائرس کے چھوٹے چھوٹے ذرات ہوا میں رہتے ہیں۔ وبا سے قبل کام کی جگہ کے لیے طے ضوابط کے مطابق ہر شخص کو ہر دس سیکنڈ میں تازہ ہوا کے دس لیٹر لینے چاہیں اور اب یہ پہلے سے بھی زیادہ اہم ہو چکا ہے۔
چارٹرڈ انسٹیٹیوٹ آف بلڈنگ سروسز انجینیئرز کے تکنیکی ڈائریکٹر ڈاکٹر ہویل ڈیوس کہتے ہیں کہ تو اگر کوئی جگہ پر ہجوم ہو لگے تو وہاں سے باہر نکل جائیں۔
وہ کہتےہیں کہ تازہ ہوا کا بہاؤ اہم ہے۔ ‘اگر عمارت میں کوئی ایسا شخص موجود ہے جسے انفیشکن ہے اور آپ باہر سے بہت زیادہ ہوا اندر لا رہے ہیں تو آپ اسے انفیکشن والے مادہ کے ساتھ مکس کر رہے ہیں۔ آپ لوگوں کے انفیشکن سے متاثر ہونے کا خدشہ کم کر رہے ہیں۔’
2. ایئر کنڈیشنگ پر دھیان رکھیں
دفاتر سے لے کر دکانوں تک، گرمی کے دنوں میں ایئر کنڈیشنگ کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کسی بھی دفتر یا دکان پر لگا اے سی یونٹ کس قسم کا ہے۔ عمومی طور پر دیواروں یا چھتوں پر ایک سادہ سے سفید باکس نما اے لگا ہوتا ہے جسے سپلٹ ایئر کنڈیشنر کہا جاتا ہے۔
یہ کمرے کی ہی ہوا کھینچتا ہے اسے ٹھنڈا کرتا ہے اور دوبارہ اسے کمرے میں پھینک دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ ہوا کی بازگردانی کرتا ہے۔ ایسی کسی جگہ میں تھوڑے وقت کے لیے آنے میں کوئی حرج نہیں لیکن گھنٹوں بیٹھنے سے خطرہ ہو سکتا ہے۔
چین میں ایک ریستوران کے مطالعے میں اس قسم کی ایئر کنڈیشنگ پر وائرس کے پھیلاؤ کا الزام لگایا گیا۔ ایک کسٹمر جو وائرس سے متاثر ہو چکا تھا لیکن اسے اس بارے میں علم نھیں تھا کیونکہ اس میں کسی قسم کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔
سائنسدانوں نے حساب لگایا کہ اس شخص کے سانس لینے اور بات کرنے سے وائرس کمرے میں منتقل ہوا دیوار پر لگے یونٹس کی ہوا کی وجہ سے کمرے میں پھیل گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نو مزید افراد اس وائرس سے متاثر ہو گئے۔
ڈاکٹر ڈیوس تازہ ہوا کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں: ‘اگر باہر سے ہوا کی اچھی فراہمی ہو تو بہت کم لوگ وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔’
3. ‘تازہ ہوا کے تناسب’ کے بارے میں پوچھیں
جدید عمارات میں جہاں کھڑکیاں سیل ہوتی ہیں تو وہاں آپ تازہ ہوا کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
آپ ایک وینٹیلیشن سسٹم پر انحصار کر رہے ہوتے ہیں جس میں باسی ہوا کو کمرے سے نکالا جاتا ہے اور ایئر یونٹ تک لگے پائپ اکثر چھت تک ہوتے ہیں۔ جہاں عمارت میں بھیجنے سے پہلے تازہ ہوا کو باہر سے کھینچ کر کمرے میں پرانی ہوا کے ساتھ مکس کیا جاتا ہے۔
کورونا وائرس انفیکشین کے خطرے کے پیش نظر، ماہرانہ رائے یہی ہے کہ تازہ ہوا کی فراہمی کو زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔
یونیورسٹی آف لیڈز کی پروفیسر کیتھ نواکس کہتی ہیں ‘باہر کی 100 فیصد یا 100 فیصد کے قریب ہوا ایک اچھی چیز ہے۔’
‘جتنی تازہ ہوا ہو گی، عمارت میں وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ اتنا ہی کم ہو گا۔’
ہوا کے اس مناسب امتزاج کا فیصلہ عمارت کے مینیجر کرتے ہیں جو مالکان یا کرایہ داروں کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ سو فیصد تازہ ہوا کے انتظام پر کافی لاگت آتی ہے، سردیوں میں آنے والی ہوا کو گرم کرنا اور گرمیوں میں ٹھنڈا کرنے کے لیے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
4. وینٹیلیشن فلٹرز میں وائرس کی موجودگی کی جانچ کریں
وینٹیلیشن کے جدید نظام میں فلٹرز ہوتے ہیں لیکن وہ فول پروف نہیں ہوتے۔ امریکہ میں آریگون ہیلتھ اور سائنس یونیورسٹی ہسپتال کے محققین نے فلٹرز میں کورونا وائرس کے نشانات کا پتا لگایا جو کسی نہ کسی طرح وہاں سے نکل گئے۔
پروفیسر کیون وین ڈین ویملنبرگ جنھوں نے اس پراجیکٹ کی سربراہی کی، کا خیال ہے کہ فلٹرز کی جانچ سے پتا چل سکتا ہے آیا عمارت میں کوئی متاثرہ شخص کام کر رہا ہے یا نہیں۔
جنوبی کوریا میں ایک عمارت کی گیارہویں منزل پر ایک کال سینٹر میں ایک شخص کی وجہ سے 90 افراد کو متاثر ہوتے دیکھا گیا۔ اگر فلٹرز کو باقاعدگی سے چیک کیا جائے تو وائرس کی موجودگی کی جلد نشاندہی ممکن ہو سکتی ہے۔
پروفیسر ویملنبرگ کہتے ہیں کہ انفیکشن کا مقابلہ کرتے ہوئے فلٹرز کے اعداد و شمار ہمیں بتاتے ہیں کہ ‘کہاں گھونسہ مارنا اور کب گھونسہ مارنا ہے۔’
5۔ ہوا کی نقل حرکت کا خیال رکھیں
اس شعبے میں کسی بھی ماہر سے بات کریں اور وہ یہی کہیں گے کہ تازہ ہوا اہم ہے لیکن ہوا کی نقل و حرکت پر کام کرنے والے ایک ماہر ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ اتنا آسان بھی نہیں۔
نک ورتھ جو فارمولا ون ریسنگ کار بناتے تھے اب سپر مارکیٹس اور فوڈ پراسیسنگ کمپنیوں کو لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ہوا کے بہاؤ کا انتظام کرنے پر مشاورت دیتے ہیں۔ انھیں تشویش ہے کہ اگر کوئی متاثرہ شخص کھلی کھڑکی کے پاس بیٹھا ہے تو وہ دوسرے افراد میں بھی وائرس پھیلا سکتا ہے۔
وہ پوچھتے ہیں ‘اگر آپ ایک کھڑکی کھولتے ہیں تو ہوا کہاں جاتی ہے؟ ہم نہیں چاہتے کہ لوگ اس ہوا کے بہاؤ کی براہ راست لائن میں ہوں۔’
‘عام طور پر زیادہ تازہ ہوا اچھی ہے لیکن اگر وہ عمودی سطح پر بہہ رہی ہو اور وائرس سے بھری پڑی ہو تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔’
میں نے یہ منظر نامہ پروفیسر کیتھ نواکس کے سامنے رکھا۔ وہ کہتی ہیں کہ تازہ ہوا کی فراوانی وائرس سے مل کر خطرے کو زیادہ کر دے گی۔ ان کے خیال میں ایک کھلی ہوئی کھڑکی سے شاید زیادہ افراد وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں لیکن اس کی نوعیت کم خطرے والی ہو گی۔
اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اختلاف رائے موجود ہے کیونکہ اس وائرس کے بارے میں ابھی بہت کچھ ایسا ہے جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے۔
لیکن ہم جس ہوا میں سانس لیتے ہیں وہ عمارتوں کو محفوظ تر بنانے کی کسی بھی کوشش کا حصہ بننے کی پابند ہے۔