قوم کی بد قسمتی کہ پاکستان اپنی تہتر سالہ زندگی میں ایک تجربہ گاہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں مسلسل تجربے ہوتے رہتے ہیں۔ سیاست، قانون، طرز حکمرانی، انتخابی عمل، تعلیم اور سماجی زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے ہونے والے تجربوں کے بعد ہم کچھ سیکھنے کے بجائے یا تو کوئی نیا تجربہ شروع کر دیتے ہیں یا وہی پرانا تجربہ دہرانے لگتے ہیں۔ یہ بات اب تک ہم پلے نہیں باندھ سکے کہ کچھ شعبے نت نئے تجربات کا نہیں بلکہ مسلسل بہتری اور دنیا کے نئے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جس طرح آج تک یہ بحث جاری ہے کہ پاکستان 14 اگست کو بنا تھا یا 15 اگست کو۔ اور جیسے آج بھی ہم صدارتی یا پارلیمانی نظام کی بحث میں الجھے رہتے ہیں۔ دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے ہم یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ طریقہ تدریس (medium of instruction) انگریزی ہونا چاہیے یا اردو۔ اسی طرح ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ہمیں اپنے بچوں کو کیا پڑھانا ہے؟ کیا ہماری توجہ کا مرکز مذہبی تعلیم ہونی چاہیے یا اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سائینس، ٹیکنالوجی، تحقیق اور عہد جدید کے علوم کو بھی فروغ دینا چاہیے؟ اس معاملے میں بھی ہم مخمصے کا شکار ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں کو صرف وہی بتانا چاہیے جوہم اب تک بتاتے چلے آرہے ہیں یا ہمیں کسی کمی بیشی کے بغیر نئی نسل کو اپنی تاریخ کی کمزوریوں اور ناکامیوں سے بھی آگاہ کرنا چاہیے اور یہ بھی بتانا چاہیے کہ ان ناکامیوں کے اسباب کیا تھے؟
آج کل “یکساں نصاب تعلیم” کی بحث عروج پر ہے۔ ذرا ہماری حالت کا اندازہ لگایئے کہ ہمیں اپنے پہلے عام انتخابات منعقد کرانے کو تئیس(23) سال لگ گئے۔ ہمیں اپنا آئین بنانے کو چھبیس (26) برس کا عرصہ لگ گیا۔ اور آج تہتر (73) برس بعد ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں کو کیا پڑھانا چاہیے۔ چلیں اچھی بات ہے کہ اب بھی اس ضرورت کا خیال کیا گیا۔ تحریک انصاف خصوصا عمران خان کا یہ پرانا اور نہایت پسندیدہ نعرہ ہے کہ ملک میں “یکساں نظام تعلیم” ہونا چاہیے۔ اس بات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہمیں ایک قوم بننا ہے، اگر ہمیں اپنا مستقبل ایک خاص سوچ اور نظریے کی بنیاد ہر تعمیر کرنا ہے اور اگر ہمیں ہر طرح کے تفرقوں سے نکل کر قوموں کی برادری میں ایک با عزت اور با وقارقوم کی حیثیت سے کھڑا ہونا ہے تو ہمیں سب سے ذیادہ توجہ تعلیم کو دینی چاہیے۔ ہمارے لا تعداد مسائل کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ تعلیم کے عمل کو نظر انداز کیا گیا اور اسے محض ایک رسمی مشق سمجھ کر چلایا گیا۔
یکساں نصاب تعلیم کی بحث میں ایک بنیادی نکتہ نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ عمران خان کا نعرہ “یکسا ں نصاب تعلیم” نہیں، “یکساں نظام تعلیم ” تھا۔ تحریک انصاف کے منشور میں بھی یہی لکھا ہے۔ اب بات ” نظام” سے ہٹ کر” نصاب”‘ تک آگئی ہے۔ حالانکہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نظام تعلیم پر نگاہ ڈالی جائے تو وطن عزیز میں کئی متوازی بلکہ ایک دوسرے سے متصادم نظام رائج ہیں۔ آپ پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے دینی تعلیم کے اداروں کو دیکھئے اور پھر ایچی سن کالج، ایڈ ورڈ کالج، بڑے بڑے ناموں سے قائم انگریزی میڈیم اداروں کو دیکھیے جو اے لیول، او لیول کے لئے برطانوی اداروں سے منسلک ہیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ دونوں کے درمیان کتنی وسیع خلیج حائل ہے۔ اب لمحہ بھر کو تصور کیجیے (اور ناقابل یقین ہونے کے با وجودمان لیجیے) کہ ہم نے چترال کے کسی مدرسے کے غریب، پیوند لگے کپڑے پہنے، کم خوراکی سے کمزور اور نڈھال بچے کے ہاتھ میں بھی وہی کتاب تھما دی جو لاہور مال روڈ پر واقع ایچی سن کالج کے امیر کبیر، خوش حال، خوش خوراک بچے کے ہاتھ میں ہو گی تو کیا نتائج یکساں رہیں گے؟ کیا چترالی بچے کو اپنی درس گاہ میں وہی ماحول ملے گا جو ایچی سن یا اسی طرح کی کسی دوسری بڑی شان والی درس گاہ کے بچے کو ملے گا؟ کیا اسے اتنے ہی پڑھے لکھے، جدید علوم سے آراستہ، فن تدریس کی باریکیوں سے آگاہ اساتذہ ملیں گے جو بڑے نام والے اداروں میں ہوتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ اور پھر فلسفہ تعلیم سے لگاو رکھنے والے جانتے ہیں کہ “نصاب” صرف اس کتاب کو نہیں کہتے جو کسی بچے کے ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے۔ استاد، مدرسے کا ماحول، بچے کا گھر، اس کے والدین کی تعلیمی اور مالی حالت، اسکی گلی، اس کا محلہ، اس کا گاوں، اس کے دوست، اسکے عزیز رشتہ دار، اس کا میل جول، یہ سب نصاب تعلیم کا غیر رسمی حصہ ہوتے ہیں۔ ماہرین تعلیم اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ یہ غیر رسمی نصاب تعلیم “کتابی نصاب ” سے کہیں ذیادہ گہرے اور دور رس اثرات ڈالتا ہے۔ ان تمام باتوں کو یکسر نظر انداز کر کے محض ایک جیسی کتابیں بچوں کے ہاتھوں میں تھما دینے سے کبھی مطلوبہ نتائج نہیں نکلیں گے جو ی”کساں نصاب” کا نعرہ لگانے والوں کے پیش نظر ہیں۔ شدید طبقاتی تقسیم کا شکار اس قوم کے تقاضے کچھ اور ہیں۔
بلا شبہ ہماری تعلیم کو لا تعداد مسائل درپیش ہیں۔ ان مسائل کے حل میں بھی وقت لگے گا لیکن کسی بھی حکومت یا قوم کیلئے سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ وہ کس شعبے کو سب سے ذیادہ اہمیت دیتی اور اسے سب سے اہم قرار دیتی ہے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو پاکستان میں تعلیم کا شعبہ، ترجیحات کی فہرست میں بہت نیچے ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ “یکساں نظام تعلیم” سے دستبردار ہو کر” یکساں نصاب تعلیم “تک آ جانے والی موجودہ حکومت کے دور میں تعلیمی شعبہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔ یوں بھی ہم اپنی قومی پیداوار کا صرف 3 فیصد کے لگ بھگ تعلیم کو دیتے ہیں۔ اس کا بھی اسی فیصد سے زائد تنخواہوں اور دوسرے غیر پیداواری اخراجات پر خرچ ہو جاتا ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ملک کی قدیم نامور یونیورسٹیوں کو اساتذہ اور عملے کی تنخواہیں ادا کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔محاورتا نہیں واقعتا کئی جامعات دیوالیہ ہو چکی ہیں۔ “یکساں نصاب ” کا ذکر کرتے ہوئے اس حقیقت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ جب تعلیم کا شعبہ اسی طرح مالی بحران کا شکار رہے گا تو اس “یکساں نصاب” کے خواب کو کس طرح شرمندہ تعبیر کیا جا سکے گا؟ اگر ہماری ستر فیصد سے زائد آبادی دیہات اور قصبات یا شہروں کے سرکاری سکولوں کے رحم و کرم پر رہے گی۔ جہاں نہ عمارتیں مکمل ہیں، نہ تربیت یافتہ اساتذہ ہیں، نہ لائیبریری، نہ لیبارٹری، نہ لیٹرین، نہ چار دیوری، نہ کھیل کا میدان تو “یکساں نصاب” کی حامل ایک کتاب کو سا انقلاب لا سکے گی؟ (جاری ہے)