Site icon DUNYA PAKISTAN

بارشوں سے تباہی

Share

اس کالم میں گزشتہ برس کے اپریل سے گندم کی فصل کے حوالے سے بے موسم کی بارشوں کا ذکر تواتر سے ہوا۔ چند قارئین اس کی وجہ سے ناراض بھی ہوئے۔شکایات شروع ہوگئیں کہ ان کی نظر میں ’’اہم ترین‘‘ سیاسی موضوعات کو نظراندازکرتے ہوئے میں ’’موسم کا حال‘‘ بتانا شروع ہوگیا ہوں۔ دورِحاضر کا کالم نویس سوشل میڈیا پر اپنی تحریروں کے لئے زیادہ سے زیادہ Likesاور Sharesحاصل کرنے کا محتاج ہے۔ چند دن ’’اڑی‘‘ دکھانے کے بعد میں بھی مقبولیت کے شوق میں ’’فرمائشی‘‘ کالم لکھنا شروع ہوگیا۔اس برس کا مون سون شروع ہونے سے قبل مگر بارہا یاد دلانے سے باز نہیں آیا کہ موسمیات کے ماہرین اس خدشے کا اظہار کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ رواں سال ساون بھادوں معمول سے زیادہ بارشیں لاسکتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو لہٰذا ہنگامی حالات کے لئے تیار رہنا ہوگا۔حکمران مگر اخبار نہیں پڑھتے۔کبھی کبھار ٹی وی دیکھ لیتے ہیں۔ٹی وی صحافت کی بدولت حکمران ہی نہیں بلکہ پاکستان کے عام شہریوں کی اکثریت کو بھی گزشتہ کئی دنوں سے بالآخر ’’دریافت‘‘ ہوگیا ہے کہ اب کی بار ساون بھادوں واقعی غضب ناک ثابت ہوا ہے۔سب سے زیادہ تباہی نظر بظاہر اس نے پاکستان کے آبادی کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مچائی۔اس تباہی کا ذمہ دار بنیادی طورپر پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو ٹھہرایا جارہا ہے جو کئی برسوں سے اس شہر پر ’’قابض‘‘ رہی ہیں۔’’بکائو میڈیا‘‘ کے مقابلے میں سوشل میڈیا ان دنوں ’’حقائق‘‘ کا اصل ترجمان ثابت ہورہا ہے۔وہاں حاوی ہوئی بحث پر غور کریں تو بنیادی پیغام یہ ملتا ہے کہ چونکہ ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی پیپلز پارٹی کو کراچی سے ووٹ نہیں ملتے اس لئے وہ اس شہر کے بارے میں سفاکانہ لاتعلقی اختیار کئے ہوئے ہے۔وفاق سے اٹھارویں ترمیم کی بدولت ’’خراج‘‘ کی مانند وصول کی ہوئی رقوم کو اندرونِ سندھ ’’ترقیاتی کاموں‘‘ کے لئے مختص کردیتی ہے۔ یہ رقوم بھی اعلان شدہ منصوبوں پر خرچ نہیں ہوتیں۔ ’’فیک اکائونٹس‘‘ میں چلی جاتی ہیں۔ وہاں جمع ہوئی رقوم سے بیرون ملک قیمتی جائیدادیں خریدی جاتی ہیں۔ کراچی کے مسائل حل کرنا ہے تو اس شہر کو پیپلز پارٹی سے ’’واگزار‘‘ کروانا ہوگا۔بہتر ہوگا کہ وفاقی حکومت اسے براہِ راست اپنی پناہ میں لینے کا بندوبست کرے۔ویسے بھی 2018کے انتخابات میں کراچی نے تحریک انصاف کو کھڑکی توڑ ووٹ دئیے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اس کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے 14اراکین موجود ہیں۔ حتیٰ کہ لیاری نے بھی بھٹو خاندان کو ٹھکراکر تحریک انصا ف میں شامل ہوئے شکورشاد کو منتخب کیا۔ عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو مگر صوبائی حکومت گھاس نہیں ڈالتی۔ انہیں صوبائی حکومت کی ’’محتاجی‘‘ سے بچانے کے لئے وفاقی حکومت کو متحرک ہونا پڑے گا۔وفاقی حکومت کی معجزہ ساز صلاحیتوں کا ذکر چھڑا ہے تو آپ کو یہ اطلاع دینا بھی ضروری ہے کہ ذاتی طورپر میں 1975سے اسلام آباد کا رہائشی ہوں۔ آج سے ایک سال قبل میں نے اور میری بیوی نے برسوں کی محنت سے جو کمایا تھا اسے ورثے میں ملے ایک گھر کی تعمیرنو پر صرف کردیا۔ یہ گھر اسلام آباد کے ایک نام نہاد پوش سیکٹر میں واقع ہے۔یہ کالم لکھنے سے قبل میں نے اور میری بیوی نے دو گھنٹے لگاکر اپنے کمروں میں جمع ہوئے بارش کے

پانی کو باہر نکالا ہے۔ یہ مشقت ہمارا معمول بن چکی ہے۔ہمارے گھر کے قریب CDAکا لگایا جو گٹر ہے وہ کئی سال پرانا ہے۔یہ نسبتاََ کم آبادی کے لئے تیار ہوا تھا۔ یہ سیکٹردریں اثناء کم از کم چار گنا پھیل گیا ہے۔گزشتہ تین برسوں سے شدید بارش ہوتی ہے تو یہ گٹر ابل کر گھروں سے آتے پانی کو ہضم کرنے کے بجائے واپس گھروں میں دھکیلنا شروع کردیتا ہے۔مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ مجھ جیسے شہری اب کس سے فریاد کریں کہ ہمارے شہر کا بلدیاتی بندوبست اپنی نگرانی میں لے کر ہم سے دعائیں وصول کرے۔اسلام آباد کے ’’بلدیاتی مسائل‘‘ کے ذکر سے مگر ٹی وی سکرینوں پر رونق نہیں لگائی جاسکتی۔ سوشل میڈیا پر Likesاور Shareبھی نہیں ملتے۔ سنا ہے یہاں ایک ’’منتخب‘‘ بلدیاتی حکومت بھی ہے۔مسلم لیگ (نون) کے ایک صاحب اس کے میئر ہیں۔ ان سے کہیں طاقت ور مگر سی ڈی اے ہے۔یہ ’’ترقیاتی‘‘ ادارہ وفاقی حکومت سے احکامات لیتا ہے۔وفاقی حکومت تحریک انصا ف کی ہے اور قومی اسمبلی کے تینوں اراکین اس شہر سے اسی جماعت کے منتخب ہوئے ہیں۔اسد عمر اگرچہ قومی اسمبلی میں بہت مان سے کھڑے ہوکر خود کو ’’فرزندِ کراچی‘‘ پکارتے ہیں۔ اسلام آباد نے تاہم انہیں 2013اور 2018میں ’’اپنا نمائندہ‘‘ بنایا اوراسد عمر صاحب کو مگر اسلام آباد سے کراچی کی زیادہ فکر لاحق رہتی ہے۔معاف کردیں۔اپنے کمرے میں جمع ہوئے پانی کی وجہ سے صبح چھ بجے اُٹھ گیا تھا۔ دو گھنٹے اس پانی کو نکالنے کی اذیت کی نذر ہوگئے۔ اصل موضوع سے لہٰذا بھٹک گیا۔ کراچی پر توجہ مبذول نہ رکھ پایا۔اس پیغام کو فروغ دینے میں اپنا حصہ کماحقہ انداز میں ڈال نہ سکا جو آپ کو یقین دلائے کہ ’’اندرونِ سندھ سے آئے وڈیرے‘‘ کراچی کے مسائل سے سفاکانہ حد تک لاتعلق ہیں۔ بھٹو کی بنائی پیپلز پارٹی نے اپنے ’’تعصب‘‘ کے جنون میں ’’روشنیوں کے شہر‘‘ کو تباہ وبرباد کردیا ہے۔یہاں کوڑے کے ڈھیر ہیں۔بارش ہوجائے تو پورا شہر جوہڑ میں بدل جاتا ہے۔بجلی کئی گھنٹوں تک میسر نہیں ہوتی۔ کراچی کے مسائل کا واحدحل یہ ہے کہ اسے ’’نااہل،بدعنوان اور متعصب‘‘سیاستدانوں کے قبضے سے چھڑا کر کسی نہ کسی طرح وفاقی حکومت کی براہِ راست نگرانی کے سپرد کردیا جائے۔کراچی کے مسائل کی بابت صوبائی حکومت کی نااہلی کو نظرانداز کرنا صحافیانہ بددیانتی ہوگی۔میں اس کا مرتکب ہونہیں سکتا۔مسائل کے حل کی بابت مگر سنجیدہ بحث ہو تو اصولی طورپر چند سوالات اٹھانا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔سیاسی مسائل پر ہماری رہ نمائی فرمانے والے اینکرخواتین وحضرات کے گرانقدر خیالات اگر توجہ سے سنے جائیں تو وہ نہایت فکرمندی سے ہم جاہلوں کو یہ سمجھارہے ہوتے ہیں کہ شہری مسائل کا حل فقط ’’منتخب اور بااختیار‘‘ بلدیاتی ادارے ہی فراہم کرسکتے ہیں۔کتابی اعتبار سے ان کا فرمان سو فیصد درست ہے۔سوال مگر یہ اٹھانا بھی ضروری ہے کہ کراچی کو ’’منتخب اور بااختیار‘‘ بلدیاتی حکومت کب سے میسر نہیں ہے۔جنرل ضیاء الحق نے جولائی 1977میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اس ملک میں صاف ستھری انتظامیہ فراہم کرنے کے لئے بلدیاتی اداروں کو توانا تر بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ سیاسی جماعتوں کو ’’کالعدم‘‘ ٹھہرانے کے بعد انہوں نے ’’غیر جماعتی بنیادوں‘‘ پر بلدیاتی ادارے قائم کرنا شروع کئے۔ انہیں ’’بااختیار‘‘ بنانے کا دعویٰ بھی ہوا۔ اس حوالے سے 1980کی دہائی میں کراچی کے میئر جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی ہوا کرتے تھے۔ ان کے ہوتے ہوئے مگر ’’مہاجروں‘‘ کے دُکھوں کے ازالے کے لئے ایک جماعت ابھری۔ یہ جماعت 1988سے 2016تک گج وج کر ’’شہر کراچی‘‘ کی مائی باپ رہی۔ اس جماعت کے بانی عزیز آباد کے نائن زیرو میں براجمان ہوئے یہ فیصلہ کرتے تھے کہ وفاق اور سندھ میں کس کی حکومت بنے گی۔محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے طاقت ور ترین وزراء ان کی دلجوئی کے لئے ملاقات کو بے چین رہتے تھے۔ بعدازاں یہ صاحب مگر1990کے آغاز میں ’’اپنی جان کو خطرے‘‘ میں دیکھتے ہوئے لندن روانہ ہوگئے۔ اس کے بعد لندن میں ایک ’’سیکرٹریٹ‘‘ بنا۔ اسے چلانے کے لئے بھاری بھر کم رقوم درکارتھیں۔ ظاہر ہے وہ کراچی ہی سے جمع ہوئیں۔ قوم کی رہنمائی فرمانے کے مشن پر مامور اینکر خواتین وحضرات کی اکثریت اپنے شوز کی Ratingsکو یقینی بنانے کے لئے ایم کیو ایم کے عروج کے دنوں میں نائن زیرو میں حاضری لازمی شمار کرتی تھی۔لندن میں موجود ’’بانی‘‘ سے ہزاروں جتن کے بعد ملاقاتیں ہوتیں۔اس ملاقات کے بعد ’’ان کے ہاتھ کی بنائی حلیم‘‘ کے ذائقے پر قصیدے پڑھے جاتے۔ کسی ایک فرد یا جماعت کی ’’چمچہ گیری‘‘ لیکن معیوب تصور ہوتی ہے۔ اس ’’داغ‘‘ سے بچنے کے لئے تھیوری یہ بھی ایجاد ہوئی کہ پاکستان کے مسائل کا حل فقط اسی صورت ممکن ہے کہ سیاست کو ’’جاگیرداروں‘‘ کے تسلط سے آزاد کیا جائے۔ اقتدار ’’متوسط طبقے‘‘ کو ملے۔ ’’مہاجروں‘‘ کے دُکھوں کے ازالے کے لئے بنی جماعت نے یہ کارنامہ انجام دے ڈالا ہے۔اس سے فریاد ہوئی کہ بجائے کراچی تک محدودرہنے کے وہ آگے بڑھے اور پورے ملک میں متوسط طبقے کو متحد کرتے ہوئے اس کی کمان سنبھالے۔ ایم کیو ایم سے ’’مہاجر‘‘ کو ہٹاکر لہٰذا ’’متحدہ‘‘ بنادیا گیا۔ خواب مگر خواب ہی رہے۔ 2016میں بالآخر ان کے بھیانک نتائج دیکھنے کو ملے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو اب کراچی کے مسائل کا مشترکہ ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔اسلام آباد جیسے نسبتاََ چھوٹے شہر میں بارش کے پانی کے آگے بے بس ہوئی وفاقی حکومت سے امید باندھی جارہی ہے کہ وہ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے بلدیاتی مسائل اپنی ذہانت وفطانت سے چٹکی بجاکر مستقل بنیادوں پر ’’حل‘‘ کردے گی۔

’’وڈیروںکی حکومت‘‘ اور ایم کیو ایم کی مسلسل مذمت سے شاید تھک کر اب کراچی کے پوش اور قیمتی ترین علاقوں کے مکین گزشتہ دو روز سے اپنے ٹویٹس کے ذریعے ہمیں آگاہ کررہے ہیں کہ ان کے علاقے نہ توصوبائی حکومت کے اختیار میں ہیں اور نہ ہی بلدیاتی حکومت ان کی ذمہ دار ہے۔ ان علاقوں کا حتمی انتظام وانصرام تو کسی اور کے سپرد ہے۔اب حتمی انتظام وانصرام والوں کی مذمت شروع ہوگئی ہے۔یہ مذمت بھی لیکن فقط ’’سیاپا‘‘ ہے۔خلوص نیت سے شہری مسائل کا حل ڈھونڈنے کی لگن اس میں نظر نہیں آرہی۔ یہ حقیقت کوئی دریافت کرنے کو تیار نہیں کہ جدید ریاست کے شہریوں کے لئے جو ’’حقوق‘‘ کتابوں میں لکھے ہوتے ہیں ان کے حصول کے لئے جدوجہد ہوتی ہے ۔ محض ٹویٹس نہیں لکھے جاتے۔

Exit mobile version