پہلے چیکو سلواکیہ سے درآمدہ ایک مختصر سی کہانی۔
کسی جنگل میں ایک خرگوش کی اسامی نکلی۔ ایک بے روزگار اور حالات کے مارے ہوئے ریچھ نے بھی اس اسامی پر درخواست جمع کروا دی۔ اتفاق سے کسی خرگوش نے درخواست نہیں دی تو اسی ریچھ کو خرگوش تسلیم کرتے ہوئے ملازمت دے دی گئی۔ ملازمت کرتے ہوئے ایک دن ریچھ نے محسوس کیا کہ جنگل میں ریچھ کی ایک اسامی پر خرگوش کام کررہا ہے اور اسے ریچھ کامشاہرہ اورمراعات مل رہی ہیں۔ریچھ کو اس ناانصافی پر بہت غصہ آیا کہ وہ اپنے قد کاٹھ اور جثے کے ساتھ بمشکل خرگوش کا مشاہرہ اور مراعات پا رہا ہے جبکہ ایک چھوٹا سا خرگوش اس کی جگہ ریچھ ہونے کا دعویدار بن کر مزے کر رہا ہے۔ریچھ نے اپنے دوستوں اور واقف کاروں سے اپنے ساتھ ہونے والی اس ظلم وزیادتی کے خلاف بات کی۔ سب دوستوں اور بہی خواہوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ فوراً اس ظلم کے خلاف جا کر قانونی کارروائی کرے۔ریچھ نے اسی وقت جنگل کے ڈائریکٹر کے پاس جا کر شکایت کی‘ ڈائریکٹر صاحب کو کچھ نہ سوجھی تواس نے کوئی جواب نہ بن پڑنے پر اس کی شکایت والی فائل جنگل انتظامیہ کو بھجوا دی۔ انتظامیہ نے اپنی جان چھڑوانے کی خاطر چند سینئر چیتوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی۔ کمیٹی نے خرگوش کو نوٹس بھجوا دیا کہ وہ اصالتاً حاضر ہو کراپنی صفائی پیش کرے اور ثابت کرے کہ وہ ایک ریچھ ہے۔ دوسرے دن خرگوش کمیٹی کے سامنے پیش ہوا اور اپنے سارے کاغذات اور ڈگریاں پیش کر کے ثابت کر دیا کہ وہ دراصل ایک ریچھ ہے۔کمیٹی نے ریچھ سے غلط دعویٰ کرنے پرپوچھا کہ وہ ثابت کر سکتاہے کہ وہ خرگوش ہے؟ مجبوراً ریچھ کو اپنے تیار کردہ کاغذات پیش کر کے یہ ثابت کرنا پڑا کہ وہ ایک خرگوش ہے وگرنہ اسے خرگوش کی اس اسامی سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے جس پر وہ ریچھ ہوتے ہوئے بطور خرگوش کام کر رہا تھا اور بے روزگار ہو جاتا۔ کمیٹی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ سچ تو یہ ہے کہ خرگوش ہی ریچھ ہے اور ریچھ دراصل خرگوش ہے۔ اس لئے کسی بھی ردو بدل کے بغیر دونوں فریقین اپنی اپنی نوکریوں پر بحال اپنے اپنے فرائض سرانجام دیتے رہیں گے۔ ریچھ نے کسی قسم کا اعتراض کئے بغیر کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کر لیا اور اپنی راہ لی۔ریچھ کے دوستوں نے بلا کسی چوں و چرا ریچھ کو اتنی بزدلی سے فیصلہ تسلیم کرنے کا سبب پوچھا تو ریچھ نے کہا: بھلا میں چیتوں پر مشتمل کمیٹی کے خلاف کیسے کوئی بات کر سکتا تھا اور میں کیونکر ان کا فیصلہ قبول نہ کرتا کیونکہ کمیٹی کے سارے ارکان چیتے دراصل گدھے تھے‘ جبکہ ان کے پاس یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ چیتے ہیں باقاعدہ ڈگریاں اور کاغذات بھی تھے۔
قارئین! یہ کہانی چیک ادب سے ہے یا نہیں؟ مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں‘ میں اس کہانی کو پڑھنے کے بعد فی الحال کسی تحقیق یا تفتیش کے موڈ میں نہیں ہوں۔ گدھوں پر مشتمل چیتوں والی کمیٹی نے ریچھ کے کاغذات کے حامل خرگوش کو ریچھ اور خرگوش کے کاغذات کے حامل ریچھ کو اگر من و عن خرگوش تسلیم کر لیا ہے تو میں بھلا اس کہانی کو چیکو سلواکیہ کی کہانی تسلیم کرنے سے کس طرح انکار کر سکتا ہوں؟ لہٰذا آپ بھی اسے چیک ادب سے درآمدہ کہانی سمجھ کر لطف لیں اور اس کا تعلق کسی طرح بھی ملک عزیز میں ”درست اسامی پر درست آدمی‘‘ یعنی (Right Person for the Right Job) والے فلسفے کا تیا پانچہ ہونے سے جوڑنے کی کوشش نہ کر یں اور اسے محض اتفاق سمجھتے ہوئے نظر انداز کر دیں۔ اگر کوئی شرپسند شخص آپ کو اس کہانی کے حوالے سے موجودہ صورتحال کے تناظر میں گمراہ کرنے کی کوشش کرے تو اس مفسد کی باتوں پر یقین کرنے کے بجائے میری بات پر اعتبارکریں اور یقین کریں کہ درج بالا کہانی کا ہماری موجودہ ملکی و حکومتی صورتحال سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔
گزشتہ دنوں اخبار میں دیکھا کہ سرکار ٹائیگر فورس کو سرکاری افسران کی کارکردگی کو مانیٹر کرنے کا ٹاسک دینے کے بارے میں غور کر رہی ہے۔ اس سے مجھے پیپلزپارٹی کا اولین دور یاد آ گیا۔ تب نئی نئی جمہوری اقدار وجود میں آ رہی تھیں۔ ”طاقت کا سر چشمہ عوام ہے‘‘ نامی نعرے نے اس خطے کے عشروں بلکہ صدیوں سے پسے ہوئے لوگوں میں نئی روح پھونک دی تھی اور اپنی اس عوامی طاقت کا مظاہرہ سرکاری دفاتر اور افسران پر کرکے اپنی صدیوں سے ناآسودہ خواہشات کی تکمیل پراتر آئے تھے۔ چوک شہیداں کے محلہ چیتے واہن کا ایک پیپلز پارٹی کا عہدیدار جو غالباً کوچوان تھا ایک چوتھی کلاس میں فیل ہو جانے والے نالائق سے بچے کو پانچویں کلاس میں ترقی دلوانے کی غرض سے میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں پہنچا اور سکول کے نہایت ہی معزز اور نامور ماہر تعلیم ہیڈ ماسٹر پر چڑھ دوڑا۔ اس استاد کا نام لکھنے کی آج بھی مجھ میں ہمت نہیں۔ قواعد و ضوابط کے سختی سے پابند ہیڈ ماسٹر صاحب کے ا نکار پر اس عوامی طاقت کے سر چشمے نے ان کے منہ پر زور سے ایک طمانچہ مارا اور کہا کہ چیئرمین صاحب (ذوالفقار علی بھٹو) نے عوام کو اس لئے طاقت دی ہے تاکہ آپ جیسے فرعونوں کو سیدھا کیا جا سکے۔ نجیب آدمی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اگلے روز وہ اپنا تبادلہ کروا کر مثالی درسگاہ حسین آگاہی چلے گئے۔
میں نے شوکت علی سے پوچھا کہ وہ سارا دن لوگوں کے درمیان رہتا ہے‘ کیا اس نے گزشتہ دو چار ماہ کے دوران اس وبا کے دنوں میں کسی جگہ کسی ٹائیگر کو بھی کورونا سے نبرد ہوتے‘ کورونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کرتے‘ وبا کے کنٹرول کیلئے کئے جانے والے اقدامات میں کسی قسم کا حصہ ڈالتے یا ان کی مدد کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ شوکت نے کہا کہ اسے ایسا کوئی اتفاق نہیں ہوا۔ پھر میں نے ساتھ بیٹھے ہوئے دو چار اور دوستوں سے بھی اس بارے میں دریافت کیا۔ سب کا جواب انکار میں تھا ایک دوست کہنے لگا: اب آپ انہیں دیکھئے گا۔ آپ کو یہ لوگ دفتروں میں شرفا کی پگڑیاں اچھالتے نظر آئیں گے۔ شوکت پوچھنے
لگا :کیا یہ اخلاقیات یا قانون کے اعتبار سے درست ہے کہ پرائیویٹ لوگ جن کا نہ کوئی اتا پتہ ہے اور نہ کوئی معیار‘ نہ کوئی تجربہ ہے اور نہ کوئی اختیار‘ نہ کسی ضابطے کا علم ہے نہ قانون قاعدے کا‘ وہ سرکاری دفاتر میں سرکاری ملازمین پر نگرانی کریں اور ان پر دھونس دکھاتے پھریں؟ پہلے ہی ایک خاتون ایم پی اے ایم ڈی اے کے دفتر میں ایک کمرہ سنبھالے بیٹھی ہے اور وہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سارے شہر کو نظر آ رہا ہے۔ ایم ڈی اے کے معاملات میں دخل اندازی کا آغاز مسلم لیگ ن نے اپنے ایک عہدیدار اور ہمارے عزیز دوست بلال بٹ کو وائس چیئرمین بنا کر کیا تھا۔ تبدیلی کے نام پر آنے والی پی ٹی آئی نے معاملات درست کرنے کے بجائے ایم ڈی اے میں اپنا چیئرمین مقرر کر دیا اور اب وہ وہاں کمرہ سنبھالے ہوئے ہے اور دیگر معاملات میں دخل اندازی کر کے اپنا الو سیدھا اور باقیوں کا الو ٹیڑھا کر رہا ہے اور اوپر سے اس ایم پی اے نے بھی کمرہ سنبھال لیا ہے۔ یہ والی حکومت بھی اداروں کو درست کرنے کے بجائے سابق والی حکومتوں کی طرح اپنے وفاداروں کی معیشت درست کر رہی ہے۔ تبدیلی کیا آئی ہے؟ مسلم لیگ ن نے ایم ڈی اے میں وائس چیئرمیں لگایا تھا اب والوں نے پورا چیئرمین لگا دیا ہے۔
عمران خان ہمیشہ کہتے چلے آ رہے تھے کہ مہذب ملکوں میں یوں ہوتا اور یوں نہیں ہوتا۔ ہمیں تو یہ پتا چلا ہے کہ اپوزیشن میں جو کچھ کہا جاتا ہے‘ حکومت میں آ کر وہی نہیں کیا جاتا۔ خان صاحب اداروں کی درستی کی بات کرتے تھے اب اداروں کو درست کرنے کے بجائے ان میں غیر سرکاری حصہ دار ڈالے جا رہے ہیں ۔تاکہ کھانے پینے میں انصاف ہو سکے۔ آخر یہ ٹائیگر فورس والے بھی پاکستان کے شہری ہیں۔ حکومت کا نظریہ یقینا یہی ہے کہ ملک عزیز میں کوئی رہ نہ جائے۔