مگر کیسے؟ پڑھیے پروفیسر برے کے اس مضمون میں۔ بی بی سی ریڈیو تھری کی اس سیریز میں سنہ 750 سے سنہ 1258 تک کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس سیریز میں اس دور کے اہم واقعات اور شخصیات کے علاوہ فن تعمیر، طب کے شعبے میں کام، ایجادات اور فلسفے جیسے مضامین میں اہم پیشرفت کا ذکر ہو گا۔ بی بی سی اُردو نے ریڈیو پر نشر ہونے والی اس سیریز کا ترجمہ کیا ہے۔
ہارون الرشید وہ خلیفہ ہیں جن کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ مشہور داستان ’الف لیلی‘ کے خلیفہ۔ مصنف ٹینیسن کے نیک دل ہارون الرشید۔۔۔ لیکن ہم اُن کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ ہمارے خیال میں ہم جانتے ہیں کہ ان کا دور خلافت کا ’سنہرا دور‘ تھا۔
ہارون الرشید کی تخت نشینی ہر اُن کی سلطنت وسطیٰ ایشیا سے لیبیا تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس دور کے بارے میں ٹینیسن نے لکھا ’ایک اچھا وقت، ایک اچھی جگہ کیونکہ یہ نیک ہارون الرشید کے عروج کا زمانہ تھا۔‘
لیکن وہ دور کتنا اچھا تھا؟ اس دور کے ’سنہرے‘ ہونے کا تصور بہت بعد میں پیدا ہوا اور یہ شاید خلافت کی انتہائی الجھی ہوئی 600 سالہ تاریخ کو ایک نقطے پر مرکوز کرنے کا طریقہ ہے۔ ان 600 سو برسوں میں سنہ 786 سے سنہ 809 تک ہارون الرشید کا دورِ خلافت 20 برسوں سے کچھ زیادہ ہے۔
مجھ سمیت بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ فنون لطیفہ، سائنس اور ادب میں بہت سا بہترین کام ہارون الرشید کے بعد ابھی آنا تھا۔
ہمارے نزدیک ہارون الرشید اور بغداد کا نام ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا بغداد ہہت زبردست جگہ رہی ہو گی، بالکل اس طرح جیسے ’الف لیلی‘ میں پیش کی جاتی ہے۔ لیکن وہ حقیقت میں کیسا تھا؟ اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہارون الرشید کے بغداد کا اب کچھ بھی نہیں بچا۔
لیکن ہم جانتے ہیں کہ خلافت کے دور کے آخری دس برسوں میں ان کا پسندیدہ شہر شام کا علاقہ رقعہ تھا جو بغداد سے شمال میں خلافت کی بازنطینی سلطنت کے ساتھ ملنے والی شمال مغربی سرحد کے قریب واقع تھا۔
ماہرین آثار قدیمہ نے اب رقعہ میں صرف محلات ہی نہیں بلکہ فیکٹریاں بھی دریافت کی ہیں۔ آٹھویں صدی میں فیکٹریوں کا تصور یقیناً پُرجوش کر دینے والا ہے۔ لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں کہ وہاں صنعت کو فروغ دینے میں ہارون الرشید کا خود کتنا ہاتھ تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہارون الرشید کے بارے میں ہم کہانیوں سے جو جانتے ہیں وہ اس سے مختلف ہے جو قرونِ وسطیٰ کی تاریخ کی کتابوں سے ہمیں پتا چلتا ہے اور شاید جدید دور آثار قدیمہ کی دریافتیں ہمیں کچھ مزید نیا بتائیں۔
قرون وسطیٰ کی دستاویز پڑھیں تو ہارون الرشید اپنی زیادہ تر بالغ زندگی میں ایک کمزور انسان نظر آتے ہیں جن کے ہاتھوں سے خلافت جاتے جاتے بچی تھی، جو اپنی والدہ اور اہلیہ زبیدہ کے زیرِ اثر تھے اور جن کی حکومت کا زیادہ تر انتظام بیوروکریسی چلا رہی تھی جو بارمکید خاندان کے زیرِ اثر تھی۔
اپنے دور حکومت کے آخری حصے میں انھوں نے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور بارمکید خاندان (برمکیان) کو جیل میں پھینک دیا اور اپنے پسندیدہ جعفر کو قتل کر دیا۔ لیکن وہ مستقبل کی اچھی منصوبہ بندی نہیں کر سکے۔
وراثت کے باقاعدہ نظام کی عدم موجودگی میں انھوں نے خلافت کا عہدہ اپنے اور زبیدہ کے بیٹے امین کو اور آدھی سلطنت امین کے سوتیلے بھائی مامون کو دینے کا وعدہ کیا جو ایک لونڈی کے بیٹے تھے۔
اُن کی موت کے بعد دونوں بھائیوں میں جنگ چھڑ گئی اور بغداد کھنڈر کا نقشہ پیش کرنے لگا۔
مامون نے امین کو مروا کر تخت پر قبضہ کر لیا اور آئندہ کے لیے ایک مثال قائم کر دی۔ ان واقعات کی روشنی میں تاریخ کے کردار ہارون الرشید کی سیاسی میراث کو شاندار نہیں کہا جا سکتا اور اگر ان کا سنہرا دور تھا، تو وہ بہت مختصر تھا۔ اُن کا اپنی عمر کی 40 کی دہائی میں انتقال ہو گیا تھا۔
لیکن داستان ’الف لیلی‘ کا ابدی کردار ہارون الرشید ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ہارون الرشید کی موت کے کچھ عرصے کے بعد منظر پر آیا تھا۔ یہ یہی وہ ہارون ہے جو ہماری یادوں میں زندہ ہے۔
وہ ان اچھے دنوں کی یادیں ہیں جو کبھی تھے ہی نہیں، لیکن شاید ہو بھی سکتے تھے۔ ماضی کئی بار آگے چل کر بُرے وقتوں میں امید کی کرن بن کر بھی سامنے آتا ہے۔ وہ نہ صرف ایک نیک دل حکمران ہیں بلکہ وہ سب کچھ کرتے ہیں جو ایک حکمران مہذب معاشرے کے قیام کے لیے کرتا ہے۔
وہ دانشوروں اور شعرا کے سرپرست ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ ایک رومانوی ہیرو ہیں، ایک نرم دل اور خوبصورتی کے دلدادہ انسان، خاص طور پر ایسی خوبصورت لونڈیوں کے جو ہوشیار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں اور جنھیں موسیقی اور شاعری پر دسترس حاصل تھی۔
وہ ہیار کرنے والے شوہر ہیں، ان کی بیوی بھی ان سے پیار کرتی ہے۔ زبیدہ نے، جو ذہین، سخی اور نیک عورت ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ میں صاحبِ حیثیت تھیں، ہر اچھے بُرے وقت میں اُن کا ساتھ دیا۔
انھیں نے بڑے بڑے فلاحی کام کیے خاص طور پر مکہ اور مدینہ کے راستے پر ایسے پراجیکٹس بنوائے اور جنھیں اپنی انفرادی حیثیت میں اچھے الفاظ میں اور پیار سے یاد کیا جاتا ہے۔
یہ ہارون الرشید آج بھی زندہ ہیں اور صرف کہانیوں میں نہیں بلکہ طویل عرصے سے عرب ٹی وی چینلوں پر نشر ہونے والے ڈراموں میں بھی، جو یوٹیوب پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
ٹی وی کے ہارون الرشید، ان کے اہلخانہ، درباریوں اور رعایا کو ان ڈراموں میں اپنے جذبات کو پرکھنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کے المیوں کا سامنا کرتے ہیں، ان کی وفاداری کا امتحان لیا جاتا ہے۔ وہ تشدد سے بھرپور ایک انتہائی دغاباز ماحول میں جی رہے ہیں۔ لیکن اپنی زندگی کے حوادث سے نمٹنے میں اور اس دوران زندگی میں سمجھوتے کرتے ہوئے وہ آرٹ اور اخلاقی حُسن کو جنم دیتے ہیں۔
ہارون الرشید اور ان کے دور کے لوگوں کی ٹی وی پر دکھائی جانے والی یہ تصویر آج کے عربوں کو اصل میں آئینہ دکھانے کے مترادف ہے۔ قرون وسطیٰ کی کہانیوں اور ٹی وی کے ہارون میں کچھ چیزیں مشترک بھی ہیں۔ بالکل ویسے جیسے شیکسپیئر کے تاریخ پر مبنی ڈراموں کے کردار۔ وہ زندگی کے ان ڈراموں، امکانات اور نظریات کا مرکز ہیں جن سے ہم سب مانوس ہیں۔
ہم تاریخ کے ہارون الرشید سے کہانیوں کے ہارون الرشید تک کیسے پہنچے اور کیا وہ ایک ہی انسان ہیں؟ تواریخ متفق ہیں کہ ہارون الرشید ’ممیز بوائے‘ تھے۔
ان کی والدہ، خیزران غلام کنیز تھیں جن سے ان کے والد خلیفہ المہدی نے، جو ایک بھرپور شخصیت کے مالک تھے، انتہائی غیر روایتی عمل میں انہیں آزاد کر کے شادی کر لی تھی۔
اس رومانوی آغاز کے بعد حالات خرابی کی طرف جانا شروع ہو گئے۔ المہدی کا کم عمری میں انتقال ہو گیا۔ ان کے خیزران سے دو بیٹے تھے جنھوں نے باری باری خلیفہ بننا تھا۔
ہمیں نہیں معلوم اس وقت ان دونوں کی درست عمر کیا تھی لیکن اندازہ ہے کہ ان عمریں 20 برس کے آس پاس تھیں۔ ان کے نام پیغمبروں (حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون) پر رکھے گئے تھے جو کہ اچھا شگون ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ان دونوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت پیدا ہو گئی تھی۔
موسیٰ کا ایک چھوٹا بیٹا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ان کے بعد خلافت اس بچے کو ملے اور انھوں نے ہارون کے ساتھ ولی عہد کا سلوک کرنے کی بجائے انھیں ہراساں کرنا شروع کر دیا۔
ہارون کی زندگی خطرے میں تھی۔ اس موقع پر خیزران آگے بڑھیں اور معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ وہ خلیفہ المہدی کی زندگی میں بھی بااختیار رہی تھیں لیکن موسیٰ نے ان کی بھی توہین کی اور انھیں خواتین کے معاملات سے نمٹنے اور ریاست کے معالات سے دور رہنے کے لیے کہا۔
یہ ذاتی لڑائی نہیں تھی بلکہ ان مفادات کا ٹکراؤ تھا جو المہدی کے دنوں میں سر اٹھا چکے تھے۔ خیزران اور بارمکید خاندان نے مل کر موسیٰ کو تخت سے اتار کر ہارون کو خلیفہ بنانے لیے سازش شروع کر دی۔
موسیٰ کا جلد ہی انتقال ہو گیا۔ کچھ حوالے خیزران پر ان کو زہر دینے کا الزام لگاتے ہیں۔ ایک حوالے کے مطابق خیزران نے ایک کنیز کے ذریعے موسیٰ کے منہ پر تکیہ رکھ کر ہلاک کروایا تھا۔ لیکن ان کے مقابلے میں ایک غیردلچسپ روایت کے مطابق موسیٰ کا انتقال پیٹ کے السر کی وجہ سے ہوا تھا۔
موسیٰ کی ہلاکت سے ہارون کی بجائے دراصل بارمکید خاندان کا دور شروع ہوا۔ بارمکید اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے آباؤ اجداد کا تعلق ایران سے تھا۔ یہ خاندان ماضی میں وسطی ایشیا میں بدھ مت کی ایک بڑی عبادت گاہ کا نسل در نسل نگران ضرور رہا تھا، لیکن اب وہ لوگ مقامی رنگ میں ڈھل چکے تھے اور عربی زبان بولنے والے مسلمان تھے، خلافت کے حکومتی ڈھانچے میں اپنی جگہ بنا چکے تھے اور اپنی حیثیت قائم رکھنا چاہتے تھے۔
وہ ماہر ’سٹیٹسمین‘ تھے جو اپنے آقا کی زندگی کا درد اپنے سر لینا جانتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ انتہائی دولت مند اور کھلے دل کے مالک تھے اور وسیع پیمانے پر وفاداریاں خریدنا ان کے لیے مشکل کام نہیں تھا۔
بارمکید خاندان کی ایک عورت نے ہارون کو اپنا دودھ بھی پلایا تھا۔ اس اعتبار سے بارمکید خاندان کے ساتھ ان کا رشتہ بھی تھا اور اس زمانے میں دودھ کا رشتہ خون کے رشتے کی طرح مضبوط ہی سمجھا جاتا تھا۔
اس کے علاوہ بارمکید خاندان کے ایک بزرگ یحیٰ ہارون کے استاد اور سرپرست بھی رہے تھے۔ ہارون ان کو والد کہہ کر مخاطب ہوتے تھے۔ یحیٰ اُن کے وزیر بن گئے اور یحیٰ کے دو بیٹوں نے باقی ذمہ داریاں آپس میں بانٹ لیں۔
ہارون کا رضائی بھائی فضل قابل اعتبار اور لائق تھا جبکہ جعفر ذہین اور دلکش شخصیت کا مالک تھا اور ہارون کا سب سے قریبی دوست بن گیا۔
ان گہرے خاندانی رشتوں اور جذباتی تعلقات کو دیکھتے ہوئے یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ ہارون الرشید کے دور کی کہانی فیملی ڈرامہ کے طور پر لکھی گئی ہے۔ اس کہانی کا ہر واقعہ اتنے مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ ان میں ٹھوس شواہد تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔
لیکن یہ تمام کہانیاں خاندانی رشتوں کی کہانیوں کی طرز پر بیان کی گئی ہیں جن میں مرکزیت شخصیات، احساسات، جذبات، حسد، خوف اور محبت کے نفرت میں بدلنے کو حاصل ہے۔
موسیٰ کی ہلاکت کے بارے میں بھیانک روایات اس کی ایک مثال ہے۔ ایک اور مثال یہ سوال ہے کہ ہارون کیوں فضل اور یحیٰ کے خلاف ہو گئے اور انھوں نے جعفر کو کیوں مروایا؟
نفسیات کے نقطہ نظر سے اس کی ایک اچھی وضاحت یہ ہے کہ ہارون کو محسوس ہونے لگا تھا کہ بارمکید خاندان پر انحصار کی وجہ سے وہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے تھے اور گھٹن کا شکار ہونے لگے تھے اور دوسرا یہ کہ انھیں بارمکید خاندان خاص طور پر جعفر کی شہرت کھٹکنے لگی تھی۔
اس کے استعارے کے طور پر ایک کہانی بیان کی جاتی ہے کہ ہارون نے بارمکید خاندان پر حاوی ہونے کی کوشش کی اور جعفر کو اپنے بس میں کرنے کے لیے پہلے خاموشی سے اس کی اپنی بہن عباسہ سے شادی کروا دی اور پھر دونوں کو اکٹھے سونے سے منع کر دیا۔
ظاہر ان دونوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی اور ہارون نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے جعفر کو مروا دیا۔ مؤرخین صدیوں سے اس کہانی کو جھوٹ تو کہہ رہے ہیں لیکن وہ خود بھی اس دوران بارمکید خاندان کے زوال کی کوئی سیاسی طور پر قابل قبول وضاحت دینے میں کامیاب نھیں ہوئے۔
تاریخ کے اعتبار سے ایک حقیقی وضاحت ان کے بیٹے امین کے انجام کی کہانی ہے۔
بالکل اسی طرح جیسے موسیٰ نے ہارون کے ساتھ وعدہ خلافی کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو وارث قرار دے دیا تھا بالکل اسی طرح امین نے خلافت اپنے بیٹے کی بجائے اپنے بھائی مامون کو دینے کا سر عام کیا گیا وعدہ توڑ دیا۔
بارمکید خاندان خاندان کے ساتھ اقتدار کی طویل شراکت داری کے دوران خلیفہ ہارون الرشید کے لیے ایک بڑا سیاسی پراجیکٹ اپنے بیٹوں کو اقتدار کی منتقلی کا تھا۔ لیکن یہ پراجیکٹ بُری طرح ناکام ہو گیا۔
یہ انسانی فطرت یا کم سے کم اس کہانی کے کرداروں کی فطرت کے خلاف تھا۔ ایک بار پھر اس باب کو بھی استعارتاً ایک کہانی کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے جس میں سوال یہ ہے کہ اخلاقی طور پر کمزور انسان کو اقتدار منتقل کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے؟
کہا جاتا ہے کہ جس رات زبیدہ اپنے بیٹے امین کے ساتھ حاملہ ہوئیں انھوں نے خواب دیکھا جس میں تین عورتیں اُن کے پاس آ کر بیٹھ جاتی ہیں اور ان کے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بتاتی ہیں کہ ان کا بیٹا کیسا ہو گا۔ ان عورتوں نے بتایا کہ وہ بیکار، دغاباز اور بیوقوف ہو گا۔
جس رات امین کی پیدائش ہوئی وہی تینوں خواتین دوبارہ اُن کے خواب میں آئیں اور اپنی پیشینگوئی دہرائی۔ جس رات انھوں نے امین کا دودھ چھڑوایا یہی خواتین آخری بار ان کے خواب میں آئیں اور کہا کہ اس کے عیب اس کے زوال اور موت کا باعث بنیں گے۔
نجومیوں کے تمام تر خوش کُن زائچوں اور امین کی اعلیٰ تریبت کے باوجود وہ پیشینگوئیاں درست ثابت ہوئیں۔ اس کہانی کا سبق بتایا جاتا ہے کہ انسانی کردار اس کا نصیب ہوتا ہے۔ لیکن اس کا اس سے الٹ مطلب بھی نکالا جا سکتا ہے کہ اپنے نصیب کا علم انسان کا کردار بنا یا بگاڑ سکتا ہے۔
یہ عہد کہ وہ اقتدار اپنے بھائی کو منتقل کریں گے پہلی بار امین سے پانچ برس کی عمر میں لیا گیا تھا، پھر 15 سال کی عمر میں۔ جب 20 برس کی عمر کے کچھ عرصے بعد انھیں اقتدار ملا تو اس عہد کو توڑنے کی منصوبہ بندی کرنے کا انھیں بہت وقت مل چکا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں طاقت حلف کی پابند نہیں تھی۔ قانون کا عمل دخل تو اس سے بھی کم تھا۔ ہر خلیفہ خود طاقت حاصل کرتا اور اسے شکل دیتا تھا۔ تو ہارون نے خود بارمکید کی موجودگی میں اور ان کے بعد طاقت سے کیسے نمٹا؟ ان کے حاصل کرنے کے لیے طاقت تھی کتنی؟
انھوں نے خاموشی اختیار کرتے ہوئے بارمکید خاندان کو ریاست کے معاملات چلانے دیے۔ یعنی انھوں نے اپنے والد سے ورثے میں ملی طاقتور بیوروکریسی کو اپنا کام جاری رکھنے دیا۔
لیکن انھوں نے کچھ نئی چیزیں بھی متعارف کروائیں۔ انھوں نے اس خیال کو فروغ دیا کہ خلافت کو اپنے آپ کو ایک مذہبی منصب کے طور پر ثابت کرنا ہے اور انھوں نے اس خیال کو مقبول کرنے کے لیے کام کیا۔
وہ مستقل مسیحی بازنطینی سلطنت کے خلاف جہاد پر مشن روانہ کرتے رہے اور کئی بار خود بھی اُن کی قیادت کی۔ انھوں نے کئی بارحج کیا اور مقدس مقامات پر قیمتی چڑھاوے چڑھائے۔ یہی طریقہ زبیدہ کا بھی تھا جنھوں نے مکہ اور مدینہ میں پانی کی سپلائی کی ایک سکیم کے لیے اور ان دونوں شہروں کے راستے میں پینے کے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے خطیر رقم خرچ کی۔
یہ زبیدہ ہی کی مثال تھی جس کے بعد اسلامی ریاستوں میں خیرات کے فلسلفے کی تشہیر کے لیے بڑے بڑے فلاحی ادارے قائم کرنا معمول بن گیا۔ حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک عورت کے طور پر ریاست کے اچھے کاموں میں اس کی شناخت بننے میں زبیدہ اپنے وقت سے بہت آگے تھیں۔ یہ ایک ایسا اہم سیاسی کردار تھا جو آنے والے وقتوں میں بھی خواتین ادا کرتی رہیں۔
ریاست کاری کے نقطہ نظر سے اس میں ہارون کا حصہ علامتی مگر بھرپور تھا۔ ہارون اور زبیدہ نے جو مثال قائم کی وہ صدیوں تک آنے والے مسلمان حکمرانوں کے لیے مثال بن گئی۔ یعنی کسی بھی ریاست کا جواز اس کے کاموں سے پیدا ہوتا ہے۔
اس کا مطلب صرف فلاحی کام اور جہاد نہیں تھا بلکہ عدل و انصاف کی فراہمی کو ریاستی کی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس شعبے کو علامتی سرپرستی میں لے کر قاضی کے عہدے کا قیام بھی اس میں شامل تھا۔
ہارون کی زندگی میں بحیثیت حکمران عدل، خاندان اور سیاست ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اسی لیے ان کی میراث میں نجی اور سرکاری کو الگ کرنا مشکل ہے۔ اپنے والد کی طرح انھیں موسیقی اور شاعری پسند تھی۔ ان کی ایک سوتیلی بہن اور سوتیلے بھائی دونوں پیشہ وارانہ معیار کے موسیقار اور شاعر تھے۔ ان کی نظمیں آج بھی پڑھی جاتی ہیں۔
آرٹ ایک نجی شوق تھا۔ لیکن یہ ناممکن تھا کہ کوئی صاحب حیثیت اس کے فروغ میں حصہ نہ ڈالے اور اس کی نمائش نہ کرے چاہے صرف اپنے دربار میں اشرافیہ کے لیے ہی ہو۔
ہارون نے فنون لطیفہ کی شاہی سرپرستی کی، یہ روایت جاری رکھتے ہوئے انھیں عوامی سطح پر بھی قبولیت دی۔ یہ ایک اور ایسی روایت تھی جو صدیوں تک قائم رہی۔
تو حتمی تجزیے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہارون اس مقام کے حقدار ہیں جو انھیں لوگوں کی یادوں(سوشل میموری) میں دیا جاتا ہے۔ انھوں نے تہذیب کے ابدی نظریے کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ہارون اور زبیدہ نے آنے والے حکمرانوں کو بتایا کہ کس طرح ریاستیں (گرینڈ جیسچرز) بڑے بڑے کام کر کے عوام کے ساتھ تعلق قائم کر سکتی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہارون، زبیدہ، ان کے بچوں اور بارمکید خاندان کی زندگی کی کہانیوں نے صدیوں تک لوگوں کو غور و فکر کے لیے مواد فراہم کیا اور انٹرنیٹ اور ٹی وی کی مہربانی سے آج بھی کر رہی ہیں۔