نواز شریف کا عدالت میں جواب: ’میری صحت، نہ ہی ڈاکٹرز اس وقت پاکستان واپسی کی اجازت دیتے ہیں‘
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے کہا ہے کہ وہ ابھی لندن میں قیام پزیر ہیں اور جیسے ہی ان کے معالج انھیں وطن واپسی کی اجازت دیں گے تو وہ واپس پاکستان آ جائیں گے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے حکومت کی طرف سے ان کی ضمانت میں توسیع نہ دینے کے فیصلے کو طے شدہ منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب ان کی بدنامی کے لیے کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں طبی بنیادوں پر ضمانت ملی تھی جس کے بعد وہ علاج کی غرض سے لندن چلے گئے تھے۔
عدالت نے یہ ضمات ابتدائی طور پر چھ ہفتوں کے لیے منظور کی تھی اور یہ کہا تھا کہ اگر ان کو علاج کی غرض سے مزید ضمانت درکار ہو تو وہ پنجاب حکومت سے اس عرصے میں مزید توسیع حاصل کرنے کے لیے درخواست کر سکتے ہیں۔
تاہم پنجاب حکومت نے ان کو مزید توسیع دینے سے انکار کر دیا تھا۔
منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک بینچ سابق وزیر اعظم کی قومی احتساب بیورو (نیب) کی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کرے گا۔ نیب کی دو احتساب عدالتوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف تین فیصلے سنا رکھے ہیں۔
لندن فلیٹس سے متعلق ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر ضمانت پر ہیں جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں احتساب عدالت سے نواز شریف بری ہو گئے تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ اب ان تینوں مقدمات کی اپیلوں پر فیصلہ کرے گی۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے وکلا کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے کہا ہے کہ برطانیہ میں کورونا وائرس کی وجہ سے ان کے علاج میں تاخیر ہوئی اور معمر فرد کے طور پر وہ اس عرصے میں گھر تک ہی محدود رہے۔
نواز شریف کے مطابق پاکستان واپسی کا بھرپور عزم رکھنے کے باوجود وہ اس وقت آنے سے قاصر ہیں۔ ان کے مطابق ان کے ڈاکٹرز نے ان کی صحت کو تسلی بخش قرار نہیں دیا ہے اور انھیں علاج کے لیے لندن میں ہی رکنے کا مشورہ دیا ہے۔
’نہ میری صحت، نہ ہی ڈاکٹرز اس وقت پاکستان واپسی کی اجازت دیتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں پاکستان آکر سرنڈر کیا تھا جب میری اہلیہ شدید علیل تھیں۔‘
نواز شریف کے مقدمات پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی سماعت کریں گے۔
نواز شریف کی مشروط طبی ضمانت
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ان تینوں مقدمات کی تفصیلات ہم آپ کو بتائیں گے مگر پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ نواز شریف کو ضمانت کن شرائط پر ملی تھی۔ اب عدالت پہلے اس پہلو پر غور کرے گی کہ انھیں طبی بنیادوں پر جو ضمانت دی گئی تھی کیا اس میں توسیع دی جا سکتی تھی یا نہیں۔
عدالت نے جب نواز شریف کو ضمانت پر رہائی دی تھی تو فیصلے میں لکھا تھا کہ ان کی ضمانت میں توسیع کے اختیارات پنجاب حکومت کے پاس ہوں گے۔
نواز شریف کے وکلا نے پنجاب حکومت سے جب توسیع کے لیے درخواست کی تو حکومت کے بنائے گئے میڈیکل بورڈ نے ان کی میڈیکل رپورٹس پر غور کرنے کے بعد ضمانت منسوخی کی سفارش کی جس کے بعد پنجاب حکومت نے ضمانت میں مزید توسیع کی درخواست مسترد کر دی۔
خیال رہے کہ نواز شریف کی لندن میں واک کرتے اور ریستوران میں کافی پینے والی تصاویر جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو حکومت نے نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے کوششیں تیز کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں بیرون ملک جانے کی اجازت دینا ایک غلطی تھی۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا جبکہ ان کے مشیر برائے داخلہ امور شہزاد اکبر نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ حکومت پاکستان نے نواز شریف کی حوالگی سے متعلق ضروری قانونی کارروائی کا آغاز مارچ سے کر دیا تھا اور نواز شریف کی حوالگی سے متعلق خط رواں برس دو مارچ کو لکھا گیا تھا۔
شہزاد اکبر نے یہ نہیں بتایا کہ مارچ میں لکھے گئے اس خط پر ابھی تک برطانوی حکومت سے کوئی جواب موصول ہوا ہے یا نہیں۔
نواز شریف کی صحت اب کیسی ہے؟
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ایک خط کے ساتھ عدالت کو اپنے ڈاکٹر ڈیوڈ لارنس کی رپورٹ بھی ارسال کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کورونا کے بعد صورتحال معمول پر آنے کے بعد نواز شریف کے دل کا علاج ہونا ہے۔
ڈاکٹر ڈیوڈ کے مطابق نواز شریف کو روزانہ جسمانی ورزش کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ڈاکٹر ڈیوڈ کے مطابق نواز شریف ایک معمر شخص ہیں اور ان کا کورونا وائرس کے دنوں میں باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ وہ نواز شریف کو لندن میں مقیم رہنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ ان کا مناسب علاج ممکن بنایا جا سکے۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے بینچ نے ایون فیلڈ ریفرنس پر سماعت کی تھی اور تمام ملزمان کو ضمانت بھی دی تھی۔
تو کیا نواز شریف اب مفرور ہیں؟
یہ وہ اہم سوال ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس پر عدالت سب سے پہلے غور کرے گی۔
اگر عدالت پنجاب حکومت کے فیصلے کو مسترد کرتی ہے تو پھر نواز شریف کی ضمانت میں توسیع ممکن ہو سکے گی بصورت دیگر عدالت اس مقدمے کو اس وقت تک کے لیے ملتوی کر دے گی جب تک سابق وزیراعظم کو ملک واپس نہیں آتے۔
سابق وزیر اعظم کے مطابق حکومت ایک طے شدہ منصوبے کے تحت یہ سب کر رہی ہے جبکہ وہ حکومت کے اپنے بنائے گئے میڈیکل بورڈ کی سفارش پر بیرون ملک علاج کے لیے آئے ہیں۔
ان کے مطابق ان کی صحت سے متعلق ایک درخواست لاہور ہائی کورٹ میں بھی زیر التوا تھی، جس پر فیصلہ ہونا ابھی باقی تھا مگر اس کے باوجود حکومت نے ان کی ضمانت کی منسوخی کا فیصلہ سنا دیا۔
سابق وزیر اعظم کے مطابق ان کے وکیل نے انھیں پنجاب حکومت کی طرف سے ان کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کرنے کے فیصلے کو بیرون ملک سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ ایسی صورت میں انھیں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے بھی درخواست دینی پڑتی۔
نواز شریف نے عدالت سے کہا ہے کہ انھیں ایون فیلڈ ریفرنس میں حاضری سے استثنیٰ دیا جائے اور العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس پر سماعت کو ان کی واپسی تک ملتوی کیا جائے یا پھر عدالت ان کے نمائندے کی موجودگی میں اس پر سماعت کے بعد فیصلہ سنا دے۔
مریم نواز کے لیے ایک اور عدالتی پیشی کا سمن
ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر بھی ملزم ہیں۔ مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو ایک درخواست دی ہے جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ وہ بطور وکیل پانچ ستمبر تک تعطیلات پر ہیں اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ اس مقدمے کو کسی اور تاریخ پر سنا جائے۔
واضح رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس پر اسلام آباد ہائی کورٹ 22 ماہ بعد سماعت کرنے جا رہی ہے۔ اس سے قبل نیب نے متعدد بار اس ریفرنس کی سماعت کے دوران التوا کی درخواستیں کی ہیں مگر اب ان ریفرنسز پر التوا کی درخواستیں اب شریف خاندان کی طرف سے آنا شروع ہو گئی ہیں۔
نواز شریف کے خلاف تین ریفرنسز پر ایک نظر دوڑاتے ہیں۔
ایون فیلڈ ریفرنس
جج محمد بشیر کی احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم کے خلاف لندن فلیٹس سے متعلق ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سنایا تھا۔ یہ فیصلہ 25 جولائی 2018 کے عام انتخاب سے کچھ دن پہلے چھ جولائی کو سنایا گیا تھا۔
عدالت نے نواز شریف کو دس سال جیل کی سزا کے علاوہ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ اس ریفرنس میں نواز شریف کے علاوہ ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو بھی جیل کی سزا سنائی گئی۔
یہ ریفرنس جب اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچا تو تینوں ملزمان کی اپیل پر تفصیلی سماعت کے بعد چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں بینچ نے سب کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی تفصیلی فیصلے میں نیب کی طرف سے اہم شواہد نہ پیش کرنے کو بھی ضمانت کی وجہ بتایا۔
اب نیب کے لیے ضمانت منسوخی کے ساتھ ساتھ عدالت کو اس بات پر اطمینان دلانا ہو گا کہ وہ ضمانت سے متعلق فیصلے میں وجوہات کو حذف کرے۔
العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس
یہ ریفرنس العزیزیہ اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ ملز سے متعلق ہے۔ دونوں ملز حسین نواز کی ملکیت تھیں۔ نواز شریف کا موقف رہا کہ العزیزیہ سٹیل ملز 2001 میں ان کے والد نے اس وقت قائم کی تھی جب پرویز مشرف دور میں انھیں اقتدار سے الگ کر کے ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ ان کے مطابق ان کے والد میاں شریف کی ہدایات پر یہ مل حسین نواز چلاتے تھے۔
نیب کے مطابق اس مل سے نواز شریف کو بھاری رقوم ملیں اور انھوں نے اپنی بیٹی مریم نواز کو بھی پیسے دیے اور ٹیکس سے بچنے کے لیے ان رقوم کو تحفہ ظاہر کیا گیا۔
تفصیلی سماعتوں کے بعد احستاب عدالت کے جج ارشد ملک نے اس ریفرنس میں نواز شریف کو سات سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزائیں بھی سنائیں۔ جب اس ریفرنس کے خلاف نواز شریف کے وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا رخ کیا تو انھیں ضمانت لینے میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
عدالت نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بغیر کسی بڑی وجہ کہ ملزم کو ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
خیال رہے کہ جب نیب نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایون فیلڈ ریفرنس میں فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو عدالت نے ضمانت تو برقرار رکھی کیونکہ اس وقت نواز شریف العزیزیہ ریفرنس میں جیل جا چکے تھے مگر سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس فیصلے میں ہائی کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ضمانت کے فیصلے تفصیلی نہیں ہونے چاہییں۔
واضح رہے کہ اس ریفرنس میں نواز شریف کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک کو مس کنڈکٹ پر ان کے عہدے سے برطرف کیا جا چکا ہے۔
نواز شریف کو فلیگ شپ ریفرنس یعنی کیپیٹل ایف زیڈ ای ریفرنس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے بری کر دیا تھا، جسے نیب نے ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔