رؤف طاہر صاحب پاکستان کی سیاسی تاریخ کی چلتی پھرتی کتاب ہیں، حافظہ ان کا بلا کا ہے اور حس مزاح بھی خوب ہے، جس محفل میں موجود ہوں وہاں حسب عادت و توفیق پھلجھڑیاں چھوڑتے رہتے ہیں۔ ملکی تاریخ کے بیسیوں واقعات انہیں یاد ہیں، اِن میں سے زیادہ تر کے وہ عینی شاہد ہیں جبکہ باقی واقعات انہیں مستند حوالوں کے ساتھ ازبر ہیں۔ ایسا ہی ایک دلچسپ واقعہ وہ اکثر سناتے ہیں کہ 1975 میں لاہور کے علاقے تاجپورہ میں ضمنی انتخاب کا معرکہ درپیش تھا، گو کہ حزب اختلاف نے ایسے تمام انتخابات کا بائیکاٹ کر رکھا تھا مگر بغض معاویہ میں اپوزیشن کے حامی حکومتِ وقت کے مخالف جلسوں میں شرکت کرنے پہنچ جایا کرتے تھے۔ موصوف بھی اسی جذبے کے تحت جلسہ گاہ میں پہنچے جہاں لوگوں کا ایک جم غفیر پہلے سے موجود تھا۔ جلسہ شروع ہوتے ہی سٹیج کے پاس کھڑے ایک شخص نے لاٹھی بلند کی اور ایک سانپ لہرا کر نعرہ لگایا کہ لوگو حکومت نے جلسہ گاہ میں سانپ چھوڑ دیا ہے۔ ابھی اُس کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی پولیس کی بھاری نفری نے آنسو گیس پھینکنی شروع کر دی اور ساتھ ہی لاٹھی چارج بھی کر دیا۔ جلسے میں بھگدڑ مچ گئی اور جس کے جدھر سینگ سمائے اُس نے بھاگنا شروع کر دیا۔ لاہور کے جس علاقے کی یہ بات ہے وہاں تنگ گلیاں ہیں سو بہت سے لوگ بھاگتے ہوئے ایک بند گلی میں پہنچ گئے۔
رؤف طاہر صاحب بتاتے ہیں کہ انہوں نے کلمہ پڑھ لیا کہ آخری وقت آن پہنچا ہے کیونکہ شدید گرمی، حبس اور لوگوں کے رش کی وجہ سے دم گھٹا جا رہا تھا مگر پھر اچانک ہجوم واپس کی طرف مڑنے لگا اور اُن کا دم نکلنے سے بچ گیا۔ اِس بھگدڑ میں کتنے لوگ مرے، کسی کو کچھ معلوم نہیں کیونکہ اگلے روز اخبارات میں سرے سے یہ خبر ہی موجود نہیں تھی۔ وجہ اِس کی یہ تھی کہ حکومت نے ہدایت جاری کی تھی کہ تاجپورہ واقعے کی خبر شائع نہیں ہوگی۔ نوائے وقت کو بھی یہ ہدایت موصول ہوئی جس پر مدیر اعلیٰ مجید نظامی نے جواب میں حکومتی اہلکار سے کہا کہ یہ بات لکھ کر بھجوا دیں چنانچہ حکومت کے بزرجمہر نے تحریری شکل میں یہ ’’ہدایت‘‘ بھجوا دی، وہی ہدایت نظامی صاحب نے خبر کی صورت میں شائع کر دی کہ تاجپورہ واقعے کی خبر شائع نہیں کی جا سکتی۔
اتفاق سے ایک فوٹو گرافر نے وقوعے کی کچھ تصاویر بھی کھینچ لی تھیں، یہ تصاویر مجیب الرحمن شامی صاحب تک پہنچ گئیں۔ اللہ دے اور بندہ لے۔ شامی صاحب اُس وقت تک نہ جانے کتنے ڈکلیریشن منسوخ کروا چکے تھے، اِس کے باوجود انہوں نے اپنے ہفت روزے میں وہ تصاویر یوں رکھوا دیں جیسے کبھی کبھار اتوار کے اخبارمیں اشتہارات کے صفحے ہاکر حضرات کے ذریعے علیحدہ سے رکھوا دیے جاتے ہیں۔ رہی سہی کثر جناب الطاف حسن قریشی نے پوری کر دی جنہوں نے قومی ڈائجسٹ میں پوری تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ شائع کر دیا۔
اِس واقعے کو پینتالیس برس بیت گئے. پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا، الحمد اللہ اب ہم ہر قسم کی سنسر شپ سے آزاد ہو چکے ہیں، آج کے دور میں یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی جلسے میں شر پسند عناصر کی سرکوبی کے لیے لاٹھی چارج ہو اور ہمارا آزاد میڈیا اُن کی خبر نہ لے! مزید براں، یہ آزاد میڈیا اب چند نام نہاد سینئر صحافیوں اور اینکر پرسنز کا محتاج نہیں رہا، اب ہمارے پاس ایسے ایسے ببر شیر ہیں جو کسی کرپٹ سیاست دان سے خوف کھاتے ہیں اور نہ محلے کے ایس ایچ او کی پرواہ کرتے ہیں، خدا اِن کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، اِن کی روشن پیشانیاں بتاتی ہیں کہ کل کو انہی میں سے کوئی نہ کوئی ’پلٹزر‘ انعام لے کر آئے گا۔ مجھے تو اُن لوگوں پر حیرانی ہوتی ہے جو ملک میں آج بھی سنسر شپ کا رونا روتے ہیں، سنسر شپ تو وہ تھی جو ستّر کی دہائی میں تھی، ایک واقعہ تو میں نے کھڑے کھڑے بیان کر دیا ہے، ایسے کئی اور واقعات کی مثال دی جا سکتی ہے۔
حکومتی ایڈوائس جاری کرنا سنسر شپ کی ایک قسم تھی، دوسری قسم حکومتی اشتہارات بند کرکے اخبارات پر دباؤ ڈالنا تھا، یہ روایت بھی اب ختم ہو چکی، اب حکومتوں کے پاس اشتہارات ہیں اور نہ کسی کو دباؤ ڈالنے کی ضرورت۔ اِس کے علاوہ سنسر شپ کی کوئی شکل میرے علم میں تو نہیں۔ البتہ چند ماہ پہلے، ایک مغربی لکھاری جو شکل سے ہی نالائق نظر آتا تھا، کا مضمون نظر سے گذرا جس میں اُس نے لکھا تھا کہ سنسر شپ کی بد ترین شکل وہ ہے جس میں بغیر کسی حکومتی مداخلت یا دباؤ کے آپ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہو کہ آپ کس موضوع پر لکھ سکتے ہیں اور کس پر نہیں !کم از کم ہمارے ملک میں یہ بات کسی لطیفے سے کم نہیں، بندہ پوچھے کہ کون سا ایسا موضوع ہے جس پر آپ نہیں لکھ سکتے؟ مثلاً بارشوں کی تباہ کاریوں پر پورے میڈیا نے ہاہا کار مچا رکھی ہے، نا جائز تجاوزات پر روزانہ ٹی وی پر شو کیے جاتے ہیں جس میں کوئی نہ کوئی بہادر عورت تن تنہا بازاروں میں مائیک لے کر گھومتی ہے اور تاجروں کے خوب لتے لیتی ہے، مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم پر تو ہماری اداکارائیںبھی چلا اٹھتی ہیں اور کوئی اُ ن کی زبان بند کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔ اسی طرح فن پہلوانی کے زوال پر بیباک تجزیے کیے جا سکتے ہیں، شہروں میں نکاسی آب کے نظام پر حکومتی محکموں کے خلاف سکینڈل فائل کیے جا سکتے ہیں، کلرکوں کی قلم چھوڑ ہڑتال کی کوریج پر بھی کوئی پابندی نہیں اور تو اور گلی محلوں میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے پیدا ہونے والے تعفن پر کالم لکھے جا سکتے ہیں، کوئی لکھنے کی ہمت تو کرے!
اصل میں یہ سب ملک کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ کچھ ملک دشمن عناصر ہیں جو خواہ مخواہ معمولی واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کو اصل صحافت کہتے ہیں۔ بندہ اِن سے پوچھے کہ کراچی ڈی ایچ اے میں بجلی بند ہونے کی خبر زیادہ اہم ہے یا مستونگ میں کسی نا معلوم لڑکی کا بے معنی سا پلے کارڈ اٹھا کر اکیلے پھرتے رہنا اہم ہے! معافی چاہتا ہوں میں کچھ غصے میں آ گیا، دراصل ریاست کے خلاف اِس زہریلے پروپیگنڈے سے میں تنگ آ چکا ہوں، کچھ لوگوں نے یہ وتیرہ ہی بنا لیا ہے کہ اپنی دکانداری چمکانے کی خاطر یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ اِس ملک میں طاقتور کے خلاف نہیں لکھا جا سکتا۔ بندہ پوچھے کیوں نہیں لکھا جا سکتا؟ ایک دودھ پیتا بچہ بھی جانتا ہے کہ عوام طاقت کا چشمہ ہیں، سوری سرچشمہ ہیں، عوام انتخابات کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرکے ایوان میں بھیجتے ہیں، یہی نمائندے کبھی حکومت میں ہوتے ہیں تو کبھی اپوزیشن میں۔ کیا طاقت کے اِن نمائندگان کے خلاف میڈیا میں خوفناک پروگرام نہیں کیے جاتے اور اخبارات میں شہ سرخیاں نہیں لگائی جاتیں؟
اب اگر کوئی افلاطون اٹھ کر کہے کہ طاقت کا مرکز کہیں اور ہے تو بھائی اُس کی نشاندہی کرو، فدوی کے علم میں تو ایسا کوئی مرکز نہیں۔ جی ہاں، اب وہ بھونڈی دلیل سننے کو ملے گی کہ یہ طاقت خفیہ ہے۔ کوئی انہیں بتائے کہ آج کی دنیا میں کوئی بھی بات زیادہ عرصے تک خفیہ نہیں رہ سکتی۔ اور اگر کئی دہائیاں گذرنے کے بعد بھی یہ بات خفیہ ہے تو پس ثابت ہوا کہ وہ طاقت وجود ہی نہیں رکھتی، سب ہوائی باتیں ہیںجو دشمنوں نے اڑائی ہیں، اِن پر کان دھرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
کالم کی دُم: یہ کالم تاجپورہ واقعے کی سنسر شپ کے بارے میں ہے، حالات و واقعات کی کسی بھی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی۔