Site icon DUNYA PAKISTAN

سوچ کے زاویے

Share

ہم سوچتے کیسے ہیں؟ ہم کسی معاملے میں حساس کیوں ہو جاتے ہیں؟
سماجی علوم کا کوئی ماہر اگر یہی سوالات اٹھائے گا تو اس کے جملوں کی ساخت کچھ اس طرح ہو گی: سوچ کے تشکیلی عناصر کیا ہیں؟ سماجی حساسیت کیا ہوتی ہے؟ ہر علم ابلاغ کا اپنا اسلوب رکھتا ہے۔ کوئی واقعہ یا خیال جب کسی خاص علمی قالب میں ڈھلتا ہے تو یہ اس کی مجبوری بن جاتی ہے کہ وہ اپنا مدعا واضح کر نے کے لیے کچھ اصطلاحیں وضع کرے اور ابلاغ کے لیے کوئی خاص اسلوب اختیار کرے۔
میں طویل عرصہ اس مخمصے میں رہاکہ طب کا سارا علم ایک جناتی لغت میں کیوں ہے؟ ادویات کے نام اتنے پیچیدہ کیوں ہیں؟ جب میں سماجی علوم کا سنجیدہ طالب علم بنا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ علم کی مجبوری ہے، بالخصوص جب وہ اختصاص کے درجے تک جا پہنچتا ہے۔ مبادیات کی حد تک ممکن ہے کہ اسے کسی امتیازی لغت کی ضرورت نہ پڑے لیکن جیسے ہی اس کی راہیں دوسرے علوم سے جدا ہوتی ہیں، اسے اپنی بات کہنے کے لیے اپنی لغت وضع کرنا پڑتی ہے۔ کبھی وہ لغت میں موجود کسی لفظ کو نئے معانی دے دیتا ہے اور کبھی نیا لفظ ‘ایجاد‘ کرتا ہے۔ اس لیے اگر کسی فن کے عالم کی بات ہماری ابلاغی سطح سے بلند ہو جائے تو اس کا برا نہیں ماننا چاہیے، جیسے ہم ڈاکٹر کے نسخے کا برا نہیں مانتے۔
اس تمہید کے بعد، ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں جس سے اس کالم کا آغاز ہوا ہے۔ یہ سوال بھی ایک خاص وجہ سے اٹھایا گیا ہے۔ میرے سامنے ‘گیلپ‘ کا تازہ ترین سروے رکھا ہے۔ لوگوں سے ایک سوال پوچھا گیا: آپ کے خیال میںکیا کورونا کے خطرے کو بیان کرتے وقت مبالغہ کیا گیا؟ اب دیکھیے لوگ کیا کہتے ہیں؟
مارچ میں جب کورونا کی پہلی لہر آئی تو باسٹھ فیصد لوگوں نے خطرے کے بیان کو مبالغہ آمیز کہا۔ اپریل میں جب اس کی شدت بڑھی تو یہ تعداد کم ہوکر انچاس فیصد پر آ گئی۔ مئی میں پھر یہ تریسٹھ فیصد ہوگئی۔ جون میں پچپن فیصد۔ جولائی اور اگست میں جب یہی سوال ایک بار پھر پوچھا گیا تو ستر فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ کورونا کا خطرہ بیان کرتے وقت مبالغہ کیا گیا۔
یہ سروے عوام کی سوچ میں دلچسپ اتار چڑھاؤ کو ظاہرکررہا ہے۔ جب ہمارے ہاں یہ وبا آئی تو چین کے لوگ اس کا تجربہ کر چکے تھے۔ گویا یہ محض کوئی واہمہ نہیں تھا، ایک امرِ واقعہ تھا۔ اس کے باوجود باسٹھ فیصد لوگوں نے یہ خیال کیا کہ یہ اتنا بڑا خطرہ نہیں جتنا بتایا جارہا ہے۔ پھر جب ہمارے سماج نے اس کا براہ راست تجربہ کیا توان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جو یہ خیال کرتے تھے کہ یہ اتنا ہی بڑا خطرہ ہے جتنا بیان کیا جاتا ہے؛ تاہم اس وقت بھی اکثریت اسے مبالغہ آمیز قرار دیتی تھی۔ اب تو خیر ہر تین میں سے دو آدمی یہی رائے رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ رائے کیسے بنی؟ لوگ ایسا کیوں سوچتے ہیں؟
اس سروے کواگر ایک معیار مانا جائے تویہ کہا جا سکتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت پہلے سے موجود ذہنی رجحان کے تحت اپنی رائے بناتی ہے۔ خارج سے ملنے والی معلومات اس کی رائے پر اگراثر انداز ہوتی ہیں تو بہت کم۔ کورونا کے تجربے اور دوسرے علاقوں سے آنے والی خبروں نے تیرہ فیصد لوگوں کو متاثر کیا لیکن عارضی طور پر۔ لوگ جلد اپنی پرانی رائے کی طرف لوٹ گئے بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔
اکثریت نے کیوں یہ خیال کیاکہ کورونا کے بارے میں کہی گئی باتیں بڑھا چڑھا کر پیش کی جا رہی ہیں؟ میرے نزدیک اس کا بڑا سبب ایک ہی ہے: ہماری سوچ کا سانچہ اصلاً عقلی (Rational) نہیں ہے۔ ہم کوئی رائے اختیارکرتے وقت اس کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ اس کو عقلی بنیادوں پر پر کھا جائے۔ عقلی سوچ صرف انہی ذرائع علم پراعتبار کرتی ہے‘ جسے وہ عقلاً درست قرار دیتی ہے‘ جیسے حسی علم۔ اس سوچ کے تحت مختلف ذرائع علم سے حاصل ہونے والی معلومات کو عقل کے پیمانے پر پرکھا جاتا ہے اورپھر کوئی رائے قائم کی جاتی ہے۔
یہ رائے لازم نہیں کہ ہربار درست ہو لیکن اس میں غلطی کا امکان نسبتاً کم ہوتا ہے۔ غلطی وہاں ہوتی ہے جہاں انسان کسی ایسے معاملے میں عقل کو حاکم بنانا چاہے جو عقل کی رسائی سے دور ہو؛ تاہم اس کا تعلق کچھ فلسفیانہ سوالات سے ہے۔ جہاں تک روزمرہ معاملات کا تعلق ہے، وہاں عقلی رائے ہی عام طور پر درست ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ کورونا کے بارے میں اکثریت کی رائے کی بنیاد عقلی نہیں ہے۔
یہ کہاجا سکتا ہے کہ یہ رائے اس وجہ سے عقلی ہے کہ تجربہ اس کی تائید کر رہا ہے۔ پاکستان میں جس خطرے کی منادی کی گئی، وہ واقعہ نہیں بنا۔ کورونا نے ہمیں اس طرح متاثر نہیں کیا جس طرح کہا گیا تھا‘ لہٰذا ثابت ہواکہ یہ رائے عقلی تھی۔ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ میں اسے ایک دوسرے زاویے سے دیکھتا ہوں۔
چین کا تجربہ ہمارے سامنے تھا۔ اس کے باوجود باسٹھ فیصد لوگ یہ سمجھتے تھے کہ کورونا کے بیان میں مبالغہ ہے۔ اب بھی اکثریت یہی سمجھتی ہے حالانکہ اس کے رد میں کوئی عقلی دلیل ہمارے پاس نہیں۔ چندروز پہلے بھارت میں، محض ایک دن میں اٹھہتر ہزار سے زائد مریض سامنے آئے۔ سب ماہرین کاکہنا ہے کہ ابھی ہم نے احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا۔ اللہ نے کرم کیا اور ہم اس آفت سے کم متاثر ہوئے لیکن آج بھی ہم یہ دریافت نہیں کرپائے کہ یہ کیوں کم ہوا ہے؟ اس لیے عقل کا تقاضا ہے کہ محتاط رہا جائے۔
ہم نے لیکن عقل کا دامن نہیں تھاما۔ بازاروں، مساجد، شادی بیاہ کی تقریبات، کہیں چلے جائیں، شاید ہی کوئی ایسا دکھائی دے جس نے ماسک پہن رکھا ہو۔ ہرکوئی دوسروں سے گلے ملنے کو بے تاب ہے۔ کسی میں ہمت نہیں ہوتی کہ مزاحمت کرسکے۔ یہی نہیں، اگر کوئی کرنا چاہے تو لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ حیرت یہ ہے کہ اس رویے کا اظہار صرف ان لوگوں کی طرف سے نہیں ہے جو عرفِ عام میں پڑھے لکھے شمار نہیں ہوتے ہیں‘ اس میں محمود و ایاز سب شامل ہیں۔
گیلپ کا سروے یہ بتاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں، معاملات کو دیکھنے کے عقلی منہج فروغ نہیں پا سکے۔ ہم جذبات سے سوچنے کا کام لیتے ہیں، حالانکہ اس کام کیلئے اللہ نے ہمیں عقل کی نعمت دے رکھی ہے۔ ہر واقعے پر ہمارا ردِعمل جذباتی ہوتا ہے۔ ہم بچوں کی لڑائی میں جان لے لیتے ہیں اور دینے کو بھی تیار رہتے ہیں۔ مذہب سے سماج تک، اسی رویے کا غلبہ ہے۔ اس معاشرے میں اگر کوئی شے سب سے کم قیمت ہے تو وہ عقلی دلیل ہے۔
اس کی ذمہ داری ہراس طبقے پر ہے جو عامۃ الناس کی رائے سازی میں اپنا کردارادا کرتا ہے۔ یہ ہمارا نظامِ تعلیم ہے، محراب و منبر ہیں، میڈیا ہے، اربابِ دانش ہیں۔ ہم نے لیڈر کا انتخاب کرنا ہو یا کسی مذہبی پیشوا کا، عقل کا استعمال بہت کم کرتے ہیں۔ ہم اسے دینی و شرعی معاملات میں رہبر مان لیتے ہیں، جس کے بارے میں ہمارا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ علمی اور اخلاقی، دونوں پیمانوں سے اس کا اہل نہیں۔
جب تک ہمارا نظامِ تعلیم طالب علموں میں عقلی معیار پر معاملات کو پرکھنے کی صلاحیت نہیں پیدا کرے گا، ہمارے اجتماعی فیصلے اسی طرح جذبات سے مغلوبیت کا مظہر ہوں گے۔ جہاں وزرا واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیں اور جہاں قاتلوں اور ذہنی مریضوں کے گلے میں ہار پہنائے جائیں، وہاں اس بات کی شدت کے ساتھ ضرورت ہے کہ اجتماعی اندازِ نظر کو عقلی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔

Exit mobile version