صحت

خواتین کی صحت: پاکستان میں مانع حمل ادویات کے بارے میں پائی جانے والی عام غلط فہمیوں کی حقیقت کیا ہے؟

Share

’ایک دفعہ میری ایک ساتھی لیڈی ہیلتھ ورکر ایک گھر میں گئیں تو بوڑھی اماں نے اُن سے کہا کہ بیٹے میرے سر میں درد ہو رہا ہے، اس کا کوئی حل کرو۔ لیڈی ہیلتھ ورکر نے اپنے سامان میں سے ایک سر درد کی گولی نکالی، اماں کو دی، اور چلتی بنیں۔‘

چند روز بعد جب وہ لیڈی ہیلتھ ورکر دوبارہ اس گھر میں گئیں تو اماں ان پر چیخنے لگیں۔ ’تمھیں شرم نہیں آتی۔ اس عمر میں تم نے مجھ سے کون سی فیملی پلاننگ کروانی ہے۔‘

لیڈی ہیلتھ ورکر بولیں ’اماں جی میں نے تو آپ کو سر درد کی گولی دی تھی۔‘

اماں کا غصہ کم نہ ہوا، اور انھوں نے برہم ہوتے ہوئے کہا ’یہ تو شکر ہے کہ میرے بیٹے نے دیکھ لیا اور مجھے روک دیا۔‘

’اتنے میں اماں کا بیٹا آیا اور اس نے بھی لیڈی ہیلتھ ورکر پر چڑھائی کر دی کہ ’شرم کرو میری ماں سے تم فیملی پلاننگ کروا رہی ہو۔‘

لیڈی ہیلتھ ورکر نے کہا کہ ’آپ دیکھیں تو صحیح میں نے آپ کو سر درد کی گولی دی ہے۔‘ بیٹا بولا ’اس گولی پر لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام کا نشان بنا ہوا ہے جو کہ فیملی پلاننگ کی گولیوں پر ہوتا ہے۔‘

لیڈی ہیلتھ ورکر بولیں ’آپ اسے کھول کر تو دیکھیں، اس میں پیراسیٹامول ہے۔ نشان اس لیے ہے تاکہ کوئی اس گولی کو مارکیٹ میں پیسوں کے عوض فروخت نہ کر سکے۔‘ گولی نکالی گئی، جائزہ لیا گیا، گولی کے درمیان بنی لائن اور اس کی پیراسیٹامول والی رنگت نے آخر کار لیڈی ہیلتھ ورکر کی جان بچائی۔

23 سال سے لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام سے منسلک بلقیس عالم کے لیے یہ کہانی کوئی نئی نہیں ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ انھیں بہت کچھ سننے کو ملا ہے جس میں اُن کی عزت بھی اچھالی گئی اور ان کے ’مقاصد‘ پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ فیملی پلاننگ کروانا ہی ان کا واحد کام نہیں ہے مگر فیملی پلاننگ اس کا ایک جزو ضرور ہے۔

اور اس میں ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج لوگوں میں فیملی پلاننگ کے طریقوں کے حوالے سے غلط فہمیاں دور کرنا ہے۔

مانع حمل

غلط فہمیاں اپنی جگہ، مگر پاکستان میں صورتحال کیا ہے؟

پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔ حکومت نے اپنے شہریوں کی صحت اور آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے کافی عرصے سے ایک فیملی پلاننگ پروگرام شروع کر رکھا ہے۔

پاکستان میں سنہ 2018-2019 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 15 سے 49 سال عمر کی شادی شدہ خواتین میں سے 34 فیصد حمل روکنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ استعمل کرتی ہیں۔ اور 43 فیصد نے کم از کم ایک مرتبہ کوئی مانع حمل طریقہ استعمال کیا ہے۔

اس حوالے سے تعلیم یافتہ خواتین میں ایسے طریقوں کے استعمال کا رجحان تھوڑا سا زیادہ ہے۔

جو خواتین بالکل پڑھی لکھی نہیں اُن میں سے 30 فیصد کوئی نہ کوئی مانع حمل طریقہ استعمال کرتی ہیں، جو پہلی یا دوسری جماعت تک تعلیم یافتہ ہیں اُن میں سے 34 فیصد، جو تیسری سے ساتویں تک پڑھی ہیں اُن میں سے 36 فیصد اور آٹھویں تک یا اس سے زیادہ پڑھی ہوں اُن میں سے 39 فیصد خواتین کوئی نہ کوئی طریقہ استعمال کرتی ہیں۔

کون سا طریقہ زیادہ مقبول ہے؟

اگر یہ دیکھا جائے کہ کون سا طریقہ زیادہ مقبول ہے تو اس میں سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا طریقہ مردوں کا وقت پر جنسی عمل کو روک دینا (27 فیصد)، کونڈم (26 فیصد)، نس بندی (23 فیصد)، حمل کُش انجیکشن (10 فیصد)، آئی یو ڈی (پانچ فیصد) اور مانع حمل گولیوں کا استعمال پانچ فیصد ہے۔

مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ 15 سے 49 سال کی شادی شدہ خواتین، چاہے وہ دیہات میں ہوں یا شہر میں، مجموعی طور پر ان میں سے 99 فیصد کو کم از کم کسی ایک مانع حمل طریقے کے بارے میں پتا ہے۔

مگر اس کے باوجود پاکستان میں آج بھی مانع حمل ادویات اور طریقوں کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔

ہم نے بلقیس عالم سے پوچھا کہ اتنے برسوں کے اُن کے تجربے کے دوران انھیں کیسی کیسی غلط معلومات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مانع حمل
،تصویر کا کیپشنبلقیس عالم 23 سال سے لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام سے منسلک ہیں

وہ کہتی ہیں بہت سے سنی سنائی باتوں پر پاکستانی خواتین یقین کر لیتی ہیں۔

’مانع حمل گولیوں کے بارے میں بہت سے غلط خیالات پائے جاتے ہیں۔ کچھ خواتین کا ماننا ہے کہ اگر وہ زیادہ لمبے عرصے تک برتھ کنٹرول گولیاں کھائیں گی تو انھیں بچہ دانی کا کینسر ہو جائے گا، یا وہ دوسرے بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلا سکیں گی۔‘

اس حوالے سے معروف گائناکالوجسٹ ڈاکٹر سلمہ کفیل کہتی ہیں کہ ’مانع حمل گولیاں ان ہارمونز کے لیے بنی ہوتی ہیں جو ہمارا جسم پیدا کرتا ہے۔ جو ہارمونز ہمارا جسم قدرتی طور پر پیدا کرتا ہے ان کا مقصد ایک متواتر ماہواری کا سائیکل چلانا ہوتا ہے اور پھر اویئولیشن (یعنی حمل کے لیے درکار خلیے پیدا کرنا) کا سائیکل چلانا ہوتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ انھی ہارمونز کو جب ہم حمل کو روکنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، یعنی ایسٹروجن اور پروجسٹرون کو گولیوں کی شکل میں لے آتے ہیں، تو وہ ماہواری کے سائیکل پر وقت کے تناظر میں اثر انداز ہوتے ہیں اور مریض کو اس طرح دی جاتی ہیں کہ اویئولیشن رک جاتی ہے اور کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔

انھوں نے ایک عام غلط فہمی کے بارے میں کہا کہ کینسر کا ان گولیوں سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’چھاتی کے سرطان کی بات کریں تو اس کے کوئی اتنے کیسز سامنے نہیں آتے کہ ہم کہہ سکیں کہ ان کا گولیوں سے تعلق ہے۔ بچہ دانی کے کیسنرز بھی ان گولیوں سے منسلک نہیں ہوتے۔ جب ہم کسی فیملی کو کوئی مانع حمل طریقہ استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں تو اس سے پہلے ہم ان کی صحت کا جائزہ لیتے ہیں، یعنی ماضی میں ان کے خاندان میں کسی کو کیسنر تو نہیں تھا یا انھیں غیر متواتر ماہواری کے مسائل تو نہیں ہوتے۔ براہِ راست یہ کہنا کہ کیسنر ہوتا ہے تو ایسی بات نہیں ہے۔‘

مانع حمل
،تصویر کا کیپشنڈاکٹر سلمہ کفیل کا کہنا ہے کہ کوئی بھی مانع حمل طریقہ اپنانے سے پہلے جوڑے کی صحت کا مکمل جائزہ لیا جانا چاہیے

کیا ان گولیوں کا ماں کے دودھ پر کوئی اثر پڑتا ہے؟

ڈاکٹر سلمہ کہتی ہیں کہ ’یہ تو بالکل درست نہیں ہے کیونکہ دودھ پیدا کرنے کا عمل تو بالکل علیحدہ ہے۔ اس کا دوسرے حمل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دودھ کم ہونے کی اور وجوہات ہو سکتی ہیں مگر یہ گولیوں سے نہیں ہوتا۔‘

مگر مانع حمل گولیوں کے حوالے سے یہ ہی غلط فہمیاں نہیں ہیں۔

بلقیس عالم کہتی ہیں کہ بہت سی خواتین کا کہنا ہے کہ اگر میں یہ زیادہ کھاؤں گی تو میرا وزن بہت بڑھ جائے گا۔

اس حوالے سے بھی ڈاکٹر سلمہ کا کہنا ہے کہ ایسی بات نہیں ہے۔

’میں یہ کہوں گی کہ اس کا تعلق اندازِ زندگی سے ہے۔ جو خواتین پتلی دبلی رہنا چاہتی ہیں وہ گولیاں کھا کر بھی پتلی دبلی ہیں۔ جو موٹا ہونا چاہتے ہیں وہ گولیاں نہ بھی کھائیں تو موٹے ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے میں کہوں گی کہ انتہائی ہلکہ معمولی سا فرق پڑ سکتا ہے جیسے ایک، دو کلو وزن کی زیادتی، مگر ایسے نہیں کہ وزن بہت بڑھ جاتا ہے۔‘

بلقیس عالم کو ایک اور سوال جس کا بار بار سامنا رہتا ہے وہ یہ ہے کہ مانع حمل گولیاں کھانے کی وجہ سے خواتین کے چہرے پر بال آنے لگتے ہیں۔

اس تناظر میں ڈاکٹر سلمہ کہتی ہیں کہ حقیقت تو اس کے بالکل برعکس ہے۔

’زیادہ تر گولیاں ایسٹروجن اور پروجسٹرون کی بنی ہوتی ہیں۔ ان کی وجہ سے چہرے پر بال نہیں آتے۔ یہ جسم میں ٹسٹوسٹرون کی زیادتی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں خواتین کو ایک مسئلہ ہوتا ہے ’پولی سسٹک اوریز‘ جس میں چہرے پر بال آتے ہیں۔ گولیاں ہم اس لیے دیتے ہیں کہ یہ کم ہوں۔ گولیوں کی وجہ سے ایسا نہیں ہوتا۔‘

کاپر ٹی (آئی یو ڈی)

پاکستان میں حمل کو روکنے کے لیے موجود ایک اور طریقہ آئی یو ڈی کا ہے جسے عام اصطلاح میں ’کاپر ٹی‘ کہا جاتا ہے۔ اس طریقے میں ایک انتہائی چھوٹا سا آلہ خواتین کی بیضہ دانی کے راستے میں رکھ دیا جاتا ہے جو کہ حمل کو روک دیتا ہے۔

مانع حمل

بلقیس عالم کہتی ہیں کہ اس طریقے کے بارے میں انتہائی حیران کُن غلط فہمی پاکستان میں پائی جاتی ہے۔

’خواتین کہتی ہیں کہ اسے رکھوانے سے ممکن ہے کہ یہ آپ کے دل میں چلی جائے اور آپ کو دل کا دورہ پڑ جائے۔ میں نے سُنا تھا کہ فلانی نے رکھوائی اور وہ یہ اُس کے دل کو چڑھ گئی!‘

بلقیس عالم کہتی ہیں کہ جب وہ ایسی بات سنتی ہیں تو انھیں خواتی کو یہ سمجھانا پڑتا ہے کہ دیکھو، اگر تمہارے پیٹ میں سے بچہ بیضہ دانی کو پھاڑ کر دل تک نہیں پہنچ سکتا تو یہ چھوٹی سی چیز کہاں جائے گی۔

ڈاکٹر سلمہ اس بارے میں ذرا تفصیلات سے ممکنات بیان کرتی ہیں۔ ’آئی یو ڈی کا اپنی جگہ سے ہل جانا ممکن ہے اور یہ پیٹ کے قریب یا پلووک ایریا میں جا سکتی ہے۔ اس کی وجہ سے کبھی کسی کو کوئی انفیکشن ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ دل میں ہرگز نہیں جا سکتی۔ دل جسم کے نچلے حصے سے علیحدہ ہے۔ مگر ہاں یہ اپنی جگہ سے ہل سکتی ہے اور پھر ہم چیک کرتے ہیں کہ یہ جسم کے اندر ہی ہے یا باہر گر گئی ہے۔ مگر اس کا ہل جانا کوئی عام بات نہیں ہے۔ میرے کئی سالوں کے تجربے میں میں نے ایسے پانچ یا چھ کیسز دیکھے ہوں گے۔‘

مانع حمل انجیکشن

حمل کو روکنے کا ایک اور طریقہ انجیکشن لگوانا ہے۔ بلقیس عالم بتاتی ہیں کہ خواتین سمجھتی ہیں کہ یہ لگوانے سے وہ مکمل طور پر بانجھ ہو جائیں گی اور اس خیال کو درست قرار دینے کے لیے ان کے پاس کئی مثالیں ہوتی ہیں۔

مگر ڈاکٹر سلمہ کہتی ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ ’انجیکشن یا امپلانٹس جو ہوتے ہیں یہ طویل المدتی کونٹرسیپٹیو ہوتے ہیں اور یہ پروجسٹرون سے بنے ہوتے ہیں۔ آپ انجیکشن لگواتے ہیں تین ماہ کے لیے یا امپلانٹ رکھواتے ہیں مختلف مدتوں کے لیے۔ ان میں مسئلہ یہ آتا ہے کہ بعض خواتین کو اس دوران انتہائی کم ماہواری ہوتی ہے یا پھر پوری مدت کے لیے ہوتی ہی نہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ بہت کم خواتین کو اس کے بعد حاملہ ہونے میں تھوڑی دشواری ہوتی ہے۔ ’یہاں پر تو زیادہ تر لوگ یہ لگواتے ہی نہیں، اور جو لگواتے ہیں ان میں بھی بہت تھوڑے سے لوگوں میں کچھ مسائل ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں پھر ہمیں فرٹیلیٹی پروٹوکولز کو فالو کرنا پڑتا ہے اور ان لوگوں کی فرٹیلیٹی بحال ہونے میں وقت لگتا ہے۔‘

مانع حمل

کنڈومز کا استعمال

پاکستان میں حمل کو روکنے کے مصنوعی طریقوں میں سب سے مقبول کونڈمز کا استعمال ہے۔ ملک میں فیملی پلاننگ کرنے والوں میں تقریباً 26 فیصد افراد کونڈم استعمال کرتے ہیں۔

بلقیس عالم کہتی ہیں کہ کونڈم کا طریقہ بھی کوئی افواہوں سے پاک نہیں ہے۔ اس بارے میں کچھ خواتین کا خیال ہے کہ ’کونڈم کے استعمال سے میرا پیٹ پھول جائے گا اور پھر میرا شوہر کسی اور عورت کو پسند کرنے لگے گا۔‘

ڈاکٹر سلمہ کو اس خیال کی ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے۔

’اگر ایک بہت بڑی آبادی لیں اور اس میں کسی ایک کو یہ مسئلہ ہو جائے تو یہ افواہ بن جاتی ہے۔ کونڈم کا استعمال کرنے والے 99 فیصد بلکہ 99.9 فیصد جوڑوں کو کچھ نہیں ہوتا۔ انتہائی نایاب کیسز میں یہ ممکن ہو سکتا ہے کونڈم جس چیز سے بنا ہو کسی شخص کو اس چیز سے الرجی ہو۔ ایسی صورت میں یہ ہو سکتا ہے کہ ان کے جسم کا کوئی حصہ سوج جائے۔ یہ اتنا نایاب ہے کہ بطور ڈاکٹر میں لوگوں میں اس کے استعمال کی حوصلہ شکنی نہیں کر سکتی۔‘

مگر خواتین کے علاوہ مردوں میں بھی مانع حمل ادویات کے حوالے سے کچھ خدشات ہیں۔ کچھ مردوں کے خیال میں چاہے انجیکشن ہو یا مانع حمل گولیاں، ہامونز والے کسی بھی طریقے سے خواتین کے مزاج میں تیزی سے تبدیلی آنے لگتی ہے۔

ڈاکٹر سلمہ کہتی ہیں ’گولیوں کی وجہ سے تو خواتین کا موڈ اچھا ہونے لگتا ہے۔ مگر بہت ہی کم کیسز، انتہائی کم تعداد میں کچھ خواتین کہتی ہیں کہ انھیں ڈپریشن ہوتا ہے۔ مگر یہ تعداد اتنی کم ہے کہ اس کی وجہ سے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ باقی ساری خواتین کو بھی گولیوں سے ہٹا دیا جائے۔

ان سب سے زیادہ موثر کون سا طریقہ ہے؟

ڈاکٹر سلمہ کہتی ہیں کہ حمل میں وقفہ ڈالنے کے لیے سب سے موثر طریقہ گولیاں ہیں۔ اگر یہ صحیح طریقے سے لی جائیں تو یہ سب سے موثر ہوتی ہیں۔ دوسرے نمبر پر انجیکشن اور پھر تیسرے نمبر پر آئی یو ڈی ہے۔

ڈاکٹر سلمہ کے خیال میں کوئی بھی طریقہ استعمال کرنے سے پہلے اس جوڑے کی صحت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ’یہ معاملہ صرف کسی ایک جوڑے کا نہیں بلکہ پوری قوم ہے۔ اگر آپ نے اپنی آبادی کو کنٹرول نہیں کریں گے تو آپ کی آبادی بُری طرح متاثر ہوتی ہے، اور افواہیں اڑنے لگتی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ جن ممالک میں فیملی پلاننگ کے پروگرام ہوتے ہیں وہ کافی بڑے پیمانے پر ہوتے ہیں اور وہاں ہر آنے والے ہر جوڑے کی باقاعدہ کونسلنگ کی جاتی ہے اور صحت کا مکمل جائزہ لیا جاتا ہے جس کے بعد اُن کے سامنے مانع حمل کے آپشنز رکھے جاتے ہیں۔‘