سائنس

ہائپر سونک پرواز: عالمی طاقتوں کی چار ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑنے کی کوششیں

Share

’ری ایکشن انجنز‘ نامی کمپنی کے امریکہ میں آپریشنز کے سربراہ ایڈم ڈسل کہتے ہیں ’میں نے اپنا کیریئر تیز اڑنے والی چیزوں میں صرف کر دیا ہے۔‘

’ری ایکشن انجنز‘ نامی برطانوی کمپنی انتہائی تیز رفتار انجنز بنا رہی ہے، اتنے تیز رفتار کہ اس سپیڈ پر اڑتے ہوئے موجودہ جیٹ طیاروں کے انجنز ہی پگھل جائیں۔

کمپنی ہائپر سونک رفتار تک پہنچنا چاہتی ہے جو کہ آواز کی رفتار سے تقریباً پانچ گنا زیادہ ہوتی ہے، یعنی تقریباً چار ہزار میل فی گھنٹہ۔ اسے میک فائیو بھی کہتے ہیں۔

ان کی کوشش ہے کہ سنہ 2030 کی دہائی تک انتہائی تیز رفتار مسافر طیارہ تیار کر لیا جائے۔ ایڈم ڈسل کہتے ہیں کہ ’اس کے لیے میک فائیو تک جانا ضروری نہیں ہے۔ یہ مارک 4.5 بھی ہو سکتا ہے جو کہ بنانا قدرے آسان ہے۔‘

اتنی رفتار پر آپ لندن سے سڈنی چار گھنٹوں میں پہنچ سکتے ہیں یا ٹوکیو سے لاس اینجلس دو گھنٹے میں جا سکتے ہیں۔

مگر ہائپر سونک رفتار کے حوالے سے زیادہ تر تحقیق سویلین ہوا بازی کے لیے نہیں ہے۔ یہ عسکری مقاصد کے لیے زیادہ ہے اور اس حوالے سے گذشتہ چند برسوں میں کافی کام ہوا ہے۔

Reaction Engines' pre-cooler on a testbed

ہاپر سونک سسٹمز کا چڑیا گھر

جیمز ایکٹن ایک برطانوی ماہرِ طبیعیات ہیں جو کہ واشنگٹن میں کارنگی انڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں کام کرتے ہیں۔ امریکہ، چین، اور روس کی ہائیپر سانک پرواز کے حوالے سے کوششیں دیکھ کر وہ کہتے ہیں اس وقت ’ہائپر سونک نظاموں کا ایک چڑیا گھر بنا ہوا ہے۔‘

اس حوالے سے خصوصی مادے کی اقسام تیار کی جا رہی ہیں اور اس کے علاوہ دیگر ایسی ٹیکنالوجیز تیار کی جا رہی ہیں جو کہ زمین کی فضا میں میک فائیو کی پرواز پر پیدا ہونے والی حرارت کا مقابلہ کر سکیں۔

ہائپر سونک پرواز کے حوالے سے تجربے 1960 کی دہائی میں امریکہ کے ایکس 15 طیارے سے شروع ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ بین البراعظمی بلسٹک میزائل بھی زمین کی فضا میں اسی رفتار سے داخل ہوتے ہیں۔

مگر اب حریف ممالک ایسے ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ زمین کی فضا میں رہتے ہوئے ہی اس رفتار کو پہنچ جائیں تاکہ انھیں خلا میں جا کر اپنی حرارت کھونی نہ پڑے اور اس کی سمت کو بھی دورانِ پرواز تبدیل کیا جا سکے۔

جنگی بحری بیڑوں کا قاتل

چین، امریکہ، اور روس کی جانب سے عسکری اخراجات ہی ہائپر سونک پرواز کو آگے لے کر جا رہے ہیں۔ امریکی فوج میں ہائپر سونکس کے نائب ڈائریکٹر مائیک وائٹ نے پینٹاگان میں ایک حالیہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اس حوالے سے ترقی ہمارے ’عظیم حریفوں کی جانب سے ہمارے غلبے کو چیلنج کی کوششوں‘ کی وجہ سے ہو رہی ہے۔

The hypersonic glide vehicle (HGV) DF-17 is seen during a military parade to celebrate the 70th Anniversary of the founding of the People's Republic of China, October 1, 2019 in Beijing.

ہائپر سونک میزائلوں میں نشانے کی درستگی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ چین کے پاس صرف ہائپر سونک ہتھیاروں کی موجودگی ہی شاید امریکی ایئر کرافٹ کیریئرز کو ممکنہ طور پر چینی سرحدوں سے دور رہنے پر مجبور کرتی ہے۔

مگر یہ بھی ہے کہ 30 ناٹز یعنی 35 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہے جوہری ایندھن پر چلتے کسی ایئر کرافٹ کیریئر کو میک فائیو سے نشانہ بنانا بھی آسان نہیں ہے۔

اس رفتار پر سفر کرتے میزائل کے گرد پلازمہ (آیونز اور الیکٹرانز کا ایک مکسچر) جمع ہونے لگتا ہے۔ اس کی وجہ سے کوئی بیرونی سگنل میزائل کو نہیں بھیجا جا سکتا۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ کسی چلتی ہوئی چیز کو نشانہ بنانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

یہ پلازمہ صرف ادھر بنتا ہے جہاں سب سے زیادہ درجہ حرارت ہو۔

Artists impression on X15A

تکون شکل کے میزائل پر تو مکمل طور پر پلازمہ موجود ہو گا مگر پتلے پروں والے ڈارٹ کی شکل کے میزائل اس پلازمہ کو ہٹا بھی سکتے ہیں خاص کر ان مقامات سے جہاں حساس مواصلاتی نظام نے کام کرنا ہو۔

شارک کی شکل کے میزائل

ابھی ہائپر سونک رفتار میں کیمیائی اثرات کا ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ اتنی رفتار اور حرارت پر آکسیجن کے ذرات ٹوٹنے لگتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اگر کسی قسم کا آکسیجن پر منحصر انجن بنایا جائے تو مشکلات آتی ہیں۔

مگر ہائپر سونک ہتھیاروں کی دوڑ میں ترقی انتہائی ڈرامائی رہی ہے۔ سنہ 2010 میں امریکہ نے ایک شارک کے دانتوں جیسی شکل کا ایک بے نام طیارہ اس رفتار پربحرالکاہِل پر پانچ منٹ کے لیے اڑایا تھا۔ اس پرواز کا ہدف صرف رفتار نہیں بلکہ رفتار کتنی دیر تک رہ سکتی تھی، یہ جانچنا تھا۔

X-51A carried on wing of test aircraft

پانچ منٹ اتنا وقت نہیں لگتا مگر ہائپر سونک پرواز کے حوالے سے یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔

ایک ایکس51-اے طیارے کو بی 52 بمبار طیارے سے لانچ کیا گیا تھا اور ایک راکٹ کے بوسٹ کے ذریعے اسے 4.5 مارک تک پہنچایا گیا جب تک کہ اس کا مرکزی انجن چل پڑا تھا۔

اس انجن کو سکریم جیٹ کہتے ہیں۔ یہ انجن ہوا کو جیٹ ایندھن کے ساتھ ملا کر ایک خصوصی اِن ٹیک لیتا ہے تاکہ یہ ہائپر سونک رفتار تک پہنچ سکے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ چند منٹوں کے لیے ہی سہی اسے 1000 ڈگری سینٹی گریڈ کی ہوا استعمال کرنی ہوتی ہے۔ سنہ 2010 سے سنہ 2013 کے درمیان پھر چار مرتبہ ایکس 51 اے طیارے بحرالکاہِل پر سے گزارے گئے۔

X-15 plane

شاک ویوز

امریکی ریاست کیلیفورنیا کی خلائی اور راکٹ انجن بنانے والی کمپنی ایرو جیٹ راکٹ ڈائن نے اس منصوبے پر کام کیا تھا۔ اس حوالے سے معلومات کو اس قدر خفیہ رکھا گیا ہے کہ آج بھی، یہ منصوبہ ختم ہونے کے سات برس بعد بھی، کمپنی کے ملازم نام نہ بتانے کی شرط پر بات کرتے ہیں۔

ایک ملازم کا کہنا ہے کہ ’ایکس 51 اے کا سب سے گرم حصہ اس کا اگلا حصہ ہوتا ہے جہاں پر شاک ویوز بنتی ہیں تو ادھر ہی کے آلات اور سامان میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس پراجیکٹ میں 1960 کی دہائی کے ایکس 15 راکٹ طیارے اور امریکی خلائی پروگرام سے کافی کچھ سیکھا گیا۔

ری ایکشن انجنز نے آخرکار ایک ایسا طریقہ ایجاد کر لیا ہے جس کے ذریعے ایک فضائی انجن انتہائی گرم ہوا کو ہائپر سونک رفتار پر استعمال کر سکتا ہے۔

کمپنی کے سیبر نامی انجن میں ایک ایسا نظام ہے جسے وہ پری کولر کہتے ہیں جو کہ اس انتہائی گرم ہوا کا مقابلہ کرتا ہے۔

اب مشکل یہ ہے کہ اسے ایندھن کے ساتھ ملا کر تھرسٹ کیسے پیدا کیا جائے۔

ہائپر سانک رہنما

اگر سائنسدانوں نے ایسے انجن تیار کر لیے، یا ایسے میٹریل بنا لیے جو کہ اس قدر درجہ حرارت سہہ سکتے ہیں تو مسافروں کے لیے ہائپر سونک پروازیں 15 سال کے اندر ممکن ہو سکتی ہیں۔

An illustration of the Hermeus hypersonic aircraft

اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے امریکی فضائیہ ایک ہائپر سونک صدارتی طیارہ بھی تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

فضائیہ نے اٹلانٹا کی ایک کمپنی ہرمیز کو ایک ٹھیکہ دیا ہے جس کا مقصد 20 مسافروں کے ساتھ ہائپر سونک پرواز کی کوشش کرنا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ مستقبل میں ہو سکتا ہے کہ امریکی صدر بھی ان چند لوگوں میں سے ایک ہوں جو کہ میک فائیو پر سفر کرتے ہیں۔