2روز قبل ہی کراچی میںہوئے ایک احتجاج نے بیروت کی یاد دلائی۔ بیروت اور کراچی کے حالات میں مماثلت پر غور کرتے ہوئے میں نے یہ فریاد کرنے کی کوشش کی تھی کہ لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اگر پاکستان جیسی ریاستوں کے باسی خالصتاََ اپنے شہری حقوق کے حصول کی خاطر کوئی سیاسی تحریک چلائیں تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ایسی تحریکیں معاشرے میں یگانگت کو فروغ دیتی ہیں۔ان کی وجہ سے شہری فقط اپنے ’’حقوق‘‘ پر ہی زور نہیں دیتے۔ ان کے حصول کے ذرائع ڈھونڈتے ہوئے اپنی ’’ذمہ داریوں‘‘ کو بھی ذہن میں رکھنے کو مجبور ہوجاتے ہیں۔
یہ کالم لکھتے ہوئے میں ایک لمحہ کو بھی اس گماں میں مبتلا نہیں ہوتا کہ میری تحریر کو ’’مفکر کے تصورات‘‘ شمار کیا جاتا ہے۔اپنی محدودات سے بخوبی واقف ہوں۔ جو ذہن میں آتا ہے بے ساختہ اپنے جیسے عام پاکستانیوں کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ خواہش فقط یہ ہوتی ہے کہ جو خیالات ذہن میں آئے ہیںوہ دلائل کی بنیاد پر ہمارے مابین سنجیدہ مکالمے کی راہ بنائیں ۔بدھ کی رات سوشل میڈیا پر نگاہ ڈالتے ہوئے لیکن میں واقعتا حیران وپریشان ہوگیا۔مختلف افراد ایک ایف آئی آر کی نقل کو ٹویٹ کررہے تھے۔ اس ایف آئی آر کے ذریعے 22شہریوں کے خلاف نقص امن اور کارِ سرکار میں مداخلت جیسے الزامات کے تحت مقدمات قائم کرنے کی کاوش ہوئی ہے۔یہ 22افراد اس ہجوم میں شامل تھے جو کراچی کے ایک جدید ترین اور ہر حوالے سے خوشحال تصور ہوتے ہوئے علاقے کے مکینوں پرمشتمل تھا۔ ریکارڈ توڑ بارشوں نے ان کے گھروں کو پانی میں کئی دنوں تک ڈبوئے رکھا۔پانی کی نکاسی کا مؤثر بندوبست کہیں نظر نہیں آیا۔ بارش شروع ہونے کے ساتھ ہی اس علاقے میں بجلی بھی غائب ہوگئی۔ چند گھنٹے گزرنے کے بعد موبائل فونز بھی کام کرنا چھوڑ گئے۔اس علاقے کے اکثر مکین سوشل میڈیا پر لگائی تحریروں اور تصویروں کے ذریعے اپنی مشکلات بیان کرتے رہے۔ کوئی شنوائی نہ ہوئی تو ان علاقوں میں شہری سہولتوں کی فراہمی کے ذمہ دار ادارے کے مرکزی دفتر کے باہر ایک ہجوم بے ساختہ جمع ہوگیا۔
طالب علمی کے زمانے سے احتجاجی تحاریک میں شامل ہوتا رہا ہوں۔بعدازاں عملی صحافت کے کئی برس میں نے ان تحاریک کو رپورٹ کرنے میں بھی صرف کئے ہیں۔دُنیا کے دیگر ممالک میں برپا ہوئی عوامی تحاریک کے بغور مشاہدے کی عادت بھی لاحق ہے۔معروضی صحافت کے تمام ترتقاضوں پر کاربند ہوتے ہوئے میں نے کراچی میں جمع ہوئے ہجوم کا بغور جائزہ لیا۔بنیادی طورپر یہ بے بسی کے احساس کے ساتھ دلوں میں اُبھرے غصے (Rage)کا انتہائی فطری،بے ساختہ مگر ہر حوالے سے پرامن اظہار تھا۔اس ہجوم میں شامل ایک شخص کی گفتگو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔اس نے غضب کے عالم میں اس دفتر کے باہر موجود ایک پولیس افسر کے ’’لہجے‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک قومیت کے بارے میں نفرت بھرا رویہ اختیار کیا۔ اس شخص کی بے ساختہ اور بے پناہ مذمت ہوئی۔وہ بالآخر ایک وڈیو کے ذریعے معذرت کو مجبور ہوا۔اس شخص کی معذرت یہ پیغام دینے کو کافی تھی کہ بتدریج کراچی کے شہریوں میں یہ احساس اجاگر ہورہا ہے کہ انہیں اپنے مسائل کو کئی دہائیوں سے دلوں میں موجود سیاسی اور لسانی تعصبات سے مغلوب ہوئے بغیر دیکھنا ہوگا۔ اصل سوال شہریوں کے روزمرہّ حقوق ہیں۔ان کے حصول کی جدوجہد پر توجہ دینا ہوگی۔ اس خوش گوار پہلو کو مگر نظرانداز کردیا گیا ہے۔
گزشتہ دودنوں سے میں فون کے ذریعے ’’کلفٹن کے اس پار‘‘ آباد ہوئے کئی مکینوں سے مسلسل رابطے میں رہا ہوں۔مجھے ذاتی طورپر علم ہے کہ عام متوسط طبقے کی طرح انہوں نے مشقت بھری زندگی گزاری ہے۔اس مشقت سے جمع ہوئی رقوم کو انہوں نے مذکورہ علاقوں میں پلاٹ خریدنے میں خرچ کیا۔ اس کے بعد کئی برس انتظار کیا اور بالآخر کسی نہ کسی طرح ’’اپنا گھر‘‘ تعمیر کرلیا۔ بہت چائو اور ارمانوں سے بنائے ان گھروں میں Basementsبھی تعمیر ہوئے۔انہیں بہت اہتمام سے فرنیچر اور تصاویر کے ذریعے سجانے کا بندوبست ہوا۔ حالیہ بارشوں نے ان کی اکثریت کو واقعتا رلادیا ہے۔بے بسی سے مغلوب ہوکر وہ احتجاج کو مجبور ہوئے تو ریاست کے لئے لازمی تھا کہ ان کے جذبات کو مشفقانہ انداز میں سمجھنے کی کوشش کرتی۔ 22افراد کے خلاف مگر ایف آئی آر کاٹ دی گئی ہے۔
’’کلفٹن کے اس پار‘‘جو لوگ رہتے ہیں ان کی اکثریت نے کبھی تھانے کی شکل بھی نہیں دیکھی ہوگی۔پولیس سے انہیں خوف آتا ہے۔سیاست دانوں سے وہ نفرت کرتے ہیں۔انہیں اپنے مسائل کا حقیقی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔اپنے جذبات کو احتجاج کے ذریعے بیان کرنے کے عادی نہیں۔سوشل میڈیا کے ذریعے دلوں کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔2013تک کراچی جب بھی ہیجان آمیز مظاہروں میں گھرا نظر آیا تو ’’کلفٹن کے اس پار‘‘ آباد لوگ ان سے لاتعلق ہی رہے۔’’مکا چوک‘‘ سے متعلق افراد کو بلکہ ’’مضافاتی‘‘ شمار کرتے رہے۔
ان ’’غیر سیاسی‘‘ لوگوں نے مگر عمران خان صاحب اور ان کی تحریک انصاف کا انتہائی گرم جوشی سے خیر مقدم کیا۔ 2013کے انتخاب کے دن میں کراچی میں موجود تھا۔مذکورہ علاقوں کے شہریوں نے اس روز بہت استقامت سے تحریک انصاف کی حمایت میں اپنا ووٹ ڈالنے کی راہ نکالی۔عارف علوی صاحب مذکورہ استقامت کی بدولت ہی 2013میں پہلی بار قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے تھے۔ ان کی کامیابی نے اس برس تک کراچی کی ’’مالک‘‘ تصور ہوتی جماعت کی قیادت کو حواس باختہ بناڈالا۔طیش کے عالم میں اشتعال انگیز زبان استعمال ہوئی۔ تیر مگر کمان سے نکل چکا تھا۔ 2018کے انتخاب کے دوران اس کا بھرپور اظہار ہوا۔ قومی اسمبلی کی 14نشستیں تحریک انصاف کو مل گئیں۔ وہ کراچی کی سب سے مقبول جماعت نظر آئی۔اہم ترین حقیقت یہ بھی رہی کہ تحریک انصاف کی حمایت نسلی اور لسانی تعصبات کو حقارت سے ٹھکراتی بھی نظر آئی۔
مجھے گماں تھا کہ عمران خان صاحب کراچی میں اپنی جماعت کی مقبولیت کو سنجیدگی سے لیں گے۔ نسلی اور لسانی تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جوفضا بنی ہے اسے توانا تر بنانے کی حکمت عملی اختیار کریں گے۔بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ 2018کے انتخاب کے بعد بلکہ کراچی سے منتخب ہوئے اراکینِ قومی اور صوبائی اسمبلی نے کراچی کو ’’سندھ‘‘پرحاوی سوچ سے ’’جدا‘ ثابت کرنے میں د و سال ضائع کردئیے۔ اس سوچ کا جارحانہ ردعمل فطری طورپر نمودار ہوا تھا۔ پیپلز پارٹی بھی لہٰذا اپنی Baseکو تگڑا رکھنے کے غم میں مبتلا ہوگئی۔
ساون بھادوں کی حالیہ ریکارڈ توڑ بارشوں نے مگر یہ حقیقت عیاں کردی ہے کہ 70ء کی دہائی سے ’’شہری‘‘ اور’’دیہاتی‘‘ سندھ کی بنیاد پر جو تقسیم متعارف ہوئی وہ اس صوبے کے اجتماعی مسائل کے حل کی راہ نہیں نکال سکتی۔کئی دہائیوں سے دلوں میں موجود تعصبات کو دیانت داری سے بھلاتے ہوئے ’’گورننس‘‘ کے نئے ڈھانچے اور انداز دریافت کرنا ہوں گے۔کسی ایک سیاسی جماعت یا لسانی گروہ کو’’کراچی کے بحران‘‘ کا واحد ذمہ دار ثابت کرنے سے بات نہیں بنے گی۔ کھلے ذہن کے ساتھ نئے ڈھانچوں اور انداز ِ حکومت کو دریافت فقط وسیع تر مکالمے کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایف ا ٓئی آر اس ضمن میں کسی کام نہیں آسکتیں۔