پاکستان سٹاک ایکسچینج کو ایشیا میں ’سب سے بہترین کارکردگی‘ کا مظاہرہ کرنے پر ’بیسٹ پرفارمنگ مارکیٹ‘ قرار دیا گیا ہے۔
گذشتہ روز عالمی مالیاتی اداروں کی کارکردگی پر تحقیق کرنے والے امریکی ادارے ’مارکیٹ کرنٹس ویلتھ نیٹ‘ کی جانب سے دنیا کی سٹاک مارکیٹوں کے تازہ جائزے کے مطابق پاکستان کی سٹاک مارکیٹ نے ایشیا میں سب سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
پاکستان سٹاک مارکیٹ میں کاروبار میں 38 فیصد سے زیادہ کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ایشیا میں چین کی سٹاک مارکیٹ نے بھی اچھا پرفارم کیا جس میں 27 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
امریکی ادارے کی جائزہ رپورٹ کے بعد پاکستان سٹاک ایکسچینج نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاونٹ پر اعلان کیا کہ ملکی سٹاک مارکیٹ کو سنہ 2020 کی ایشیا میں بہترین اور دنیا میں چوتھے نمبر پر بہتر کارکردگی دکھانے والی مارکیٹ کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔
پاکستان سٹاک مارکیٹ کی ایشیا میں سب سے بہتر کارکردگی کی وجہ اس کے انڈیکس میں اضافہ اور سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری پر ملنے والا بلند منافع قرار دیے گئے ہیں۔
لیکن یہاں سوال پید ہوتا ہے کہ کیا سٹاک مارکیٹ میں حصص کی خرید و فروخت میں اضافہ اور ان میں ملنے والا اضافہ پاکستان کی معیشت کی بہتر صورتحال کی نشاندہی کرتے ہیں؟
سٹاک مارکیٹ میں تیزی کو حکومت معیشت میں بہتری کا ایک اہم اقتصادی اعشاریہ قرار دیتی ہے۔ پاکستان سٹاک ایکسچنیج کی ٹویٹ کے مطابق حکومت نے معیشت کو دوبارہ بہتری کی پٹری پر ڈال دیا ہے جس کا اہم اعشاریہ سٹاک مارکیٹ میں تیزی کا رجحان ہے۔
ماہرین معیشت کے نزدیک سٹاک مارکیٹ ایک بہت محدود پیمانے پر تو ملکی اقتصادی صورتحال کی تصویر پیش کرتی ہے تو دوسری جانب ملک کی سٹاک مارکیٹ میں چھوٹے سرمایہ کاروں سے لے کر بڑی کمپنیوں کی لسٹنگ کی شرح بھی دنیا کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ نے ایک ایسے وقت میں پرفارم کیا جب پاکستان کی معیشت مختلف وجوہات بشمول وجوہات کورونا وائرس کی وجہ سے سخت مشکلات کا شکار رہی ہے اور مختلف شعبوں میں خراب صورتحال کی وجہ سے ملکی کی مجموعی قومی پیداوار تنزلی کا شکار رہی ہے جو گذشتہ مالی سال کے اختتام پر 70 برسوں میں پہلی بار ملکی تاریخ میں منفی ہوئی۔
تاہم نئے مالی سال کے پہلے دو مہینوں میں برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں لارج سکیل مینوفیکچرنگ کا شعبہ ابھی تک دباؤ کا شکار ہے تو زراعت کے شعبے میں بھی بہت زیادہ نمو دیکھنے میں نہیں آرہی اور ملک میں حالیہ بارشوں نے فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
سٹاک مارکیٹ ایشیا کی بہترین مارکیٹ کیوں قرار پائی؟
پاکستانی سٹاک مارکیٹ کو ایشیا میں بہترین مارکیٹ قرار دینے کی وجہ مارچ سے لے کر اگست کے آخر تک اس میں تیزی کا وہ رجحان ہے جس نے کورونا وائرس اور اس سے جڑے منفی اثرات کو شکست دی۔
پاکستان سٹاک ایکسچنیج کے مطابق حصص کے کاروبار میں اس سال مارچ کے مہینے سے لے کر اب تک تیس فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
اسی طرح سٹاک مارکیٹ میں کاروبار کو جانچنے کے پیمانے کے ایس ای 100 انڈیکس نے سرمایہ کاری پر ڈالر کی صورت میں اڑتیس فیصد سے زیادہ کا منافع دیا۔
یاد رہے کہ سٹاک مارکیٹ کے انڈیکس میں پانچ مہینوں میں چودہ ہزار سے زیادہ پوائنٹس کا اضافہ ہو چکا ہے۔ حکومت نے جب مارچ میں کورونا وائرس کے تدارک کے لیے ملک میں لاک ڈاؤن لگایا تو سٹاک مارکیٹ کا انڈیکس 27 ہزار پر تھا۔ تاہم یہ چودہ ہزار پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ اس وقت چالیس ہزار سے اوپر کی سطح پر موجود ہے۔
پاکستان سٹاک مارکیٹ نے چار سال پہلے یعنی سنہ 2016 میں بھی ایشیا میں بہترین سٹاک مارکیٹ ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ تام سنہ 2017 میں اس کی کارکردگی بدترین قرار دی گئی جب حکومت کی جانب سے حصص کی خرید و فروخت پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا جس کی وجہ سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں نے اس میں سے سرمایہ نکال لیا تھا۔
سٹاک مارکیٹ میں اضافہ کیا معیشت میں بہتری کی تصویر؟
اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان سٹاک ایکسچینج کے سابق چیئرمین منیر کمال نے کہا کہ سٹاک مارکیٹ کے ذریعے معیشت کی حالت کی کچھ عکاسی تو کی جا سکتی ہے تاہم یہ پوری طرح معیشت کی تصویر پیش نہیں کرتی۔
انھوں نے کہا کہ جب مارکیٹ 28 ہزار کی سطح سے نیچے گری تھی تو اس وقت یہ کہنا کیونکہ سٹاک مارکیٹ ڈوب رہی ہے اس لیے معیشت بھی ڈوب رہی ہے صحیح نہیں تھا تو اب 40 ہزار سے اوپر مارکیٹ کے چلے جانے کے بعد یہ کہنا کہ معیشت کی حالت سدھر چکی ہے یہ دعویٰ بھی صحیح نہیں ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے جو معیشت کے لیے بہترین ہے اور دوسری جانب سٹاک مارکیٹ میں بھی تیزی کا رجحان ہے جو معیشت کے لیے ایک مثبت اقتصادی اعشاریہ ہے۔ تاہم اس بنیاد پر معیشت میں مکمل بہتری کی بات کرنا صحیح نہیں ہو گا۔
سٹاک مارکیٹ میں کام کرنے والی کمپنی اے کے ڈی سیکورٹیز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر فرید عالم نے کہا کہ کیا سٹاک مارکیٹ معیشت کی تصویر پیش کرتی ہے یہ ’ایک تاریخی سوال ہے۔‘
ان کے مطابق ہر حکومت اس سے اپنا فائدہ اٹھاتی ہے۔ ’جب سٹاک مارکیٹ اوپر جاتی ہے تو ہر حکومت اس کا کریڈٹ لیتی ہے اور اسے معیشت میں بہتری سے جوڑتی ہے تاہم جب سٹاک مارکیٹ گِر جاتی ہے تو حکومت کہتی ہے کہ اس کا اصل معیشت سے کوئی تعلق نہیں۔‘
ماہر معیشت اور انسٹیٹوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی میں معیشت کے استاد صائم علی نے بتایا کہ سٹاک مارکیٹ کو معیشت میں بہتری یا خرابی کا معیار نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس حد تک بات صحیح ہے کہ اس میں تیزی یا مندی ملکی اور بیرونی سرمایہ کاروں کے اعتماد کا پتا دیتی ہے تاہم اسے کسی طور پر معیار نہیں مانا جا سکتا ہے کہ جو معیشت کی اصل صورتحال کو ظاہر کرے۔
انھوں نے کہا کہ اس میں حصص کی خرید و فروخت اور اس پر ملنے والے منافع سے سرمایہ کار اس کی جانب راغب ہو سکتے ہیں یا اپنی سرمایہ کاری سمیٹ سکتے ہیں جو صرف سرمایہ کاروں تک محدود ہو سکتی ہے کہ مارکیٹ میں سرمایہ کاری کا ماحول سازگار ہے یا نہیں تاہم اسے بڑے پیمانے پر معیشت کے رُخ کے تعین کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
سٹاک مارکیٹ معیشت کا پیمانہ کیوں نہیں؟
پاکستان میں سٹاک مارکیٹ کو معیشت کی حالت کو دیکھنے کے لیے استعمال کیوں نہیں جا سکتا اس کا اندازہ ملک کی سٹاک مارکیٹ میں سرمائے کی مالیت سے لگایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں سٹاک مارکیٹ میں سرمائے کی مالیت کا تخمینہ لگ بھگ پچپن ارب ڈالر ہے جب کہ اس کے مقابلے میں ملکی قومی پیداوار (جی ڈی پی) اس وقت دو سو اسی ارب ڈالر سے زائد ہے جو تقریباً 20، 25 فیصد بنتا ہے۔
اس کے مقابلے میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سٹاک مارکیٹ میں سرمائے کی لاگت کی شرح جی ڈی پی کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے اور کچھ ممالک میں تو یہ سو فیصد اور اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
فرید عالم نے اس سلسلے میں بتایا کہ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں سرمائے کے پچپن ارب ڈالر میں سے ستر فیصد تو کمپنیوں کے پاس ہولڈنگ ہے جب کہ صرف تیس فیصد فری فلوٹ ہے یعنی جن میں حصص کی خرید و فروخت ہو سکتی ہے۔
اس تیس فیصد میں سے تیس فیصد بیرونی سرمایہ کاروں کے پاس اور باقی بچ جانے والے سرمائے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ معیشت کی حالت کو کس تک پیش کرتی ہے۔
منیر کمال کے مطابق پاکستانی سٹاک مارکیٹ میں عام آدمی کا زیادہ دخل نہیں اور وہ سرمایہ کاری کے لیے سٹاک مارکیٹ کا رخ نہیں کرتا۔ انھوں نے کہا ایک عام آدمی کو بتانے کی ضرورت ہے کہ سٹاک مارکیٹ بھی سرمایہ کاری کا ایک پلیٹ فارم ہے لیکن عام افراد اس شعبے میں سرمایہ لگانے سے گھبراتے ہیں اور اس لیے ہماری سٹاک مارکیٹ کا پھیلاؤ نہیں ہو سکا ہے۔
انھوں نے عدم استحکام کو بھی ایک بڑی وجہ قرار دیا کہ جس کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ میں اچانک مندی پیدا ہو جاتی ہے اور اس خوف سے عام افراد اپنی بچت اور سرمائے کو سٹاک مارکیٹ میں لگانے سے گھبراتے ہیں۔
اس سلسلے میں صائم علی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں معیشت کے دو بڑے شعبے اندسٹری اور زراعت ہیں۔ انڈسٹری سے بمشکل بیس سے پچیس فیصد کمپنیاں رجسٹرڈ ہوں تو زرعی شعبے کی کمپنیوں کا سٹاک مارکیٹ میں لسٹ ہونا نہ ہونے کا برابر ہے۔
اسی طرح خدمات کے شعبے میں ہول سیل کا بزنس بھی سٹاک مارکیٹ میں نہیں ہے۔ اب ایسی صورتحال میں سٹاک مارکیٹ کو ایک بڑے پیمانے پر معیشت کی صورت حال کا عکاس نہیں کہا جا سکتا۔
رئیل اکانومی کیوں نہیں بڑھ رہی؟
سٹاک مارکیٹ کے مقابلے میں پاکستان کی رئیل اکانومی یعنی حقیقی معیشت کیوں نہیں بڑھ پا رہی، اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے معیشت پر نظر رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کلچر ایسا وضع کیا گیا ہے کہ معیشت کے حقیقی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے سے آپ کو زیادہ پیسہ ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ سٹاک مارکیٹ اور بنکوں میں پیسہ رکھنے سے حاصل ہونے والے منافع پر کم ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔
ان کے مطابق معیشت کے حقیقی شعبوں میں اضافہ اور ترقی سے معیشت آگے بڑھ سکتی ہے اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں۔
صائم علی نے اس سلسلے میں بتایا کہ جہاں تک پاکستان کی رئیل اکانومی کی صورتحال ہے تو اس میں بہت زیادہ خرابی پیدا ہوئی ہے اور یہ ایک عالمی رجحان ہے کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا میں معیشتیں خسسارے کا شکار ہیں اور اس کا اثر پاکستان پر بھی پڑا۔
’معیشت کے مختلف شعبوں کی کارکردگی خود بتاتی ہے کہ پاکستانی معیشت کس صورت حال کا شکار ہے اب صرف سٹاک مارکیٹ میں تیزی کے رجحان کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان میں معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔‘