Site icon DUNYA PAKISTAN

وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے خواتین قیدیوں کی رہائی کے احکامات، کون کون رہا ہوگا؟

Share

وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں عدالتِ عظمیٰ کے حکم کے مطابق معمولی نوعیت کے جرائم میں قید خواتین قیدیوں کی رہائی کے احکامات جاری کیے ہیں۔

اپنے بیان میں عمران خان نے کہا کہ یہ ہدایات وزارت انسانی حقوق اور اٹارنی جنرل سے مشاورت کے بعد جاری کی گئی ہیں۔ انھوں نے یہ ہدایت بھی کی کہ اس عمل کو تیز کیا جائے تاکہ سپریم کورٹ کے حکم پر جلد از جلد عملدرآمد ہو سکے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے ایک عبوری حکم نامے میں کہا تھا کہ جیلوں میں قید وہ خواتین جنہیں معمولی نوعیت کے مقدمات میں سزائیں ہوئیں یا جو جرمانے ادا نہیں کر سکیں، انہیں رہا کیا جائے۔

اس کے ساتھ اس حکم میں بچوں کی رہائی کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔ وزیر اعظم نے غیر ملکی اور سزائے موت پانے والی خواتین قیدیوں سے متعلق بھی فوری رپورٹ طلب کی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا ان خواتین کو ضمانت پر ہی رہا کیا جائے گا جن کے مقدمات زیر سماعت ہیں تاہم ان کی ضمانت کو چیلنج نہیں کیا جائے گا۔ اٹارنی جنرل کے مطابق ’یہ معاملہ ضمانت کا ہی ہے جس کی مخالفت نہیں کی جائے گی مگر ابھی زیرالتوا کیسز موجود ہیں اور انتظامیہ اس سے آگے نہیں جا سکتی۔‘

کن خواتین کو رہا کیا جائے گا؟

ایسی خواتین قیدی جن کے مقدمات زیرِ سماعت ہیں، ان میں درج ذیل قیدیوں کی ضمانت کا حکم دیا گیا تھا اور شرط رکھی گئی تھی کہ ان قیدیوں کے مقدمات نان پراہیبٹری کلازز کے تحت درج ہوئے ہوں یا ان کی سزا تین سال سے کم ہو۔

تاہم یہ بھی کہا گیا کہ اس فیصلے کا اطلاق ان قیدیوں پر نہیں ہو گا جن پر خواتین اور بچوں پر تشدد کے مقدمات ہیں۔

ان قیدیوں کو ترجیح دی جائے گی جو کسی مرض یا جسمانی یا ذہنی معذوری کا شکار ہیں۔

فیصلے کا اطلاق ان خواتین پر بھی ہو گا جن کی عمر 55 سال یا اس سے زیادہ ہے۔

اس فیصلے کا اطلاق تمام خواتین اور کم عمر قیدیوں پر ہو گا۔

سزا یافتہ قیدیوں کی رہائی کے لیے درج ذیل کیٹیگری تشکیل دی گئی:

بی بی سی نے اسی بارے میں بیرسٹر سیدہ جگنو کاظمی سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ اس فیصلے کا اطلاق کن جرائم میں ملوث یا الزام میں قید حواتین پر نہیں ہوگا۔

بیرسٹر سیدہ جگنو کاظمی نے بتایا کہ ‘بڑے جرائم میں قتل کا الزام شامل ہے، اس کے علاوہ منشیات رکھنے کے جرم میں بھی بڑی سزا دی جاتی ہے، جبکہ دہشت گردی ایکٹ کے تحت ہونے والے جرائم بڑی نوعیت کے ہوتے ہیں کیونکہ میں سخت اور طویل سزائیں ہیں۔ تاہم چھوٹے جرائم جیسا کہ چوری ہے یعنی ایسے مقدمات جن کی سزائیں تین سال سے کم ہوں، ایسے جرائم میں ملوث خواتین اور کم عمر قیدی رہائی یا ضمانت کے فیصلے سے فائدہ اٹھا سکیں گے’۔

جگنو کاظمی کے مطابق اس وقت پاکستان میں قتل کے مقدمات میں 450 جبکہ منشیات کے مقددمات میں 346 خواتین قید ہیں۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا ‘ملک کی جیلوں میں ایک بڑی تعداد ایسی خواتین کی ہے جن پر جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ہیں، جبکہ ان میں اکثریت اس قدر غریب ہوتی ہے کہ وہ مقدمے کی پیروی نہیں کر سکتیں یا جرمانہ ادا نہیں کر پاتیں، اور ان کے اہلخانہ بھی ان سے لاتعلق ہو جاتے ہیں اور اس وجہ سے ان خواتین کے کئی سال جیلوں میں گزر جاتے ہیں’۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

بیرسٹر سیدہ جگنو کاظمی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک بہت اچھا فیصلہ ہے۔ ہم ایک مشکل حالات میں رہتے ہیں اور یہ قدم ایک کامیابی سمجھ رہے ہیں۔ یہ شروعات ہیں اور اگر اس پر عمل ہوا تو یہ خواتین قیدیوں کے حقوق کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘میرا خیال ہے کہ خواتین کی ضمانت سے متعلق یہ فیصلہ مستقبل میں بھی لاگو ہوگا۔‘

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے وزیراعظم کے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ خواتین قیدی پاکستان کے فرسودہ (بروکن) کریمینل جسٹس سسٹم سے بدترین طور پر متاثر ہوتی پیں۔ تنظیم نے بیان میں کہا ہے کہ وہ خواتین کی مشکلات کم کرنے کے ایسے اقدامات کا خیرمقدم کرتی ہے جبکہ امید ظاہر کی کہ سپریم کورٹ اور وزیراعظم کی ہدایات پر مکمل عملدرآمد بھی کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اس وقت یہ عبوری حکم نامہ جاری کیا تھا جب رواں برس اپریل میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف پٹیشن پر سماعت ہوئی تھی جس میں کورونا وائرس کے باعث قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد ایک دن میں 292 قیدی رہا کیے گیے تھے۔ جبکہ سندھ میں 519 قیدی رہا ہوئے اور رجسٹرار سندھ ہائی کورٹ نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ صوبے میں 829 ایسے قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جن کے مقدمات زیرسماعت ہیں۔ پنجاب اور خیبرپحتونخواہ میں کسی قیدی کو رہا نہیں کیا گیا تھا۔

ملک میں خواتین قیدیوں کی تعداد کیا ہے؟

پاکستان کی جیلوں میں خواتین مختلف نوعیت کے مقدمات میں قید ہیں۔ ان میں قتل، اغوا، منشیات کی سمگلنگ اور حدود آرڈنینس کے مقدمات شامل ہیں۔سب سے زیادہ خواتین قیدی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہیں۔

رواں برس مئی میں وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی جیلوں میں خواتین کی حالت زار کے مطالعے اور ان کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اور وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کو ہدایت کی تھی کہ وہ جیلوں میں خواتین کی حالت زار اور تعداد سے متعلق رپورٹ پیش کریں۔

جیلوں میں موجود قیدیوں کی تفصیلات

ملک بھر میں مجموعی طور پر جیلوں میں قید افراد کی تعداد

وفاقی وزیر شیریں مزاری کے مطابق پاکستان میں کل 73 ہزار 242 قیدی ہیں۔

‎رواں برس اپریل میں ‏صدر سپریم کورٹ بار سید قلب حسن نے سپریم کورٹ کو دی گئی رپورٹ میں جیلوں میں قیدیوں سے متعلق اہم اعدادوشمار پیش کیےتھے۔‏

‎رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ملک کی مختلف جیلوں میں 33 فیصد سے زائد اضافی قیدیوں کو رکھا گیا ہے۔

‎رپورٹ کے مطابق ملک بھر کی 114 جیلوں میں 60 سال سے زیادہ عمر کے ایک ہزار 527 افراد موجود ہیں اور ایک ہزار 184 خواتین بھی جیلوں میں قید ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی جیلوں میں 140 نو زائیدہ بچے بھی ماؤں کے ہمراہ بند ہیں۔

‎جیلوں میں موجود 2 ہزار 100 قیدی مختلف جسمانی بیماریوں کا شکار ہیں، پنجاب کی 10 فیصد جیلوں میں ایمبولینس کی سہولت ہی موجود نہیں۔ 2 ہزار 400 افراد ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسی مہلک بیماریوں کا شکار ہیں۔

‎رپورٹ کے مطابق جیلوں میں نفسیاتی معالج کی 58 اور ڈاکٹروں کی 108 آسامیاں خالی ہیں۔ صرف پنجاب میں 66 معذور قیدی مختلف جیلوں میں بند ہیں۔

‎رپورٹ کے مطابق جیلوں میں بند ٹی بی کے مریضوں کی تعداد 173 ہے جبکہ ملک بھر کی مختلف جیلوں میں قید 594 قیدی ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں۔ ملک بھر کی جیلوں میں سزا یافتہ قیدیوں کی تعداد 25 ہزار 456 ہے اور ملک میں انڈر ٹرائل قیدیوں کی تعداد 48008 ہے۔

‎سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ایک آرڈینیس جاری کیا گیاتھا جس کے تحت ملک بھر کی جیلوں میں قید ایسی خواتین کو رہا کیا جانا تھا جو کہ چھوٹے چھوٹے جرائم میں ملوث ہیں۔ اس آرڈینیس کے تحت ملک بھر سے صرف 700 کے قریب خواتین کو رہا کیا گیا۔

‎پاکستان میں اب تک 8 خواتین کو پھانسی دی جاچکی ہے۔ پہلی پھانسی 10 اکتوبر 1958 کو غلام فاطمہ نامی خاتون کو دی گئی تھی جبکہ سابق فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے دور میں سنہ 1985 میں جہلم کی جیل میں دو خواتین کو پھانسی دی گئی اس کے بعد کسی خاتون کو پھانسی نہیں دی گئی۔

Exit mobile version