سات ارب سال پرانے سگنل سے بلیک ہولز کے بارے میں نئی معلومات حاصل
ذرا سوچیے کہ اگر آٹھ سورجوں کی توانائی ایک لمحے میں خارج ہو جائے۔
یہ کششِ ثقل کے جھٹکے کی وہ لہر ہے جو دو بلیک ہولز کے اب تک کے سب سے بڑے قابلِ مشاہدہ انضمام کے باعث پیدا ہوئی۔
گذشتہ برس مئی میں اس واقعے کے باعث پیدا ہونے والا سگنل تقریباً سات ارب سال سفر کرنے کے بعد زمین تک پہنچا تاہم یہ تب بھی اتنا طاقتور تھا کہ اس نے امریکہ اور اٹلی میں لیزرز کا پتا لگانے والے آلوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
محققین کا کہنا ہے کہ بلیک ہولز کے ٹکرانے سے ایک ایسا بلیک ہول وجود میں آیا ہے جس کی کمیت ہمارے سورج سے 142 گنا زیادہ ہے۔
یہ انتہائی اہم پیش رفت ہے۔ آسمان میں ایسے بلیک ہولز کی موجودگی سائنس کے علم میں ایک عرصے سے ہے جو حجم میں یا تو بہت چھوٹے ہیں یا انتہائی بڑے۔
تاہم اس نئے مشاہدے سے بلیک ہولز کے ایک بالکل نئے زمرے کا آغاز ہوا ہے جن کا حجم متوسط کہا جاتا ہے۔ یہ سورج سے 100 سے 1000 گنا زیادہ وزنی ہوتے ہیں۔
یہ بین الاقوامی اداروں لیگو اور ورگو کا مشترکہ تجزیہ ہے۔ یہ دونوں ادارے مشترکہ طور پر امریکہ اور یورپ میں کشش ثقل کی لہروں کی کھوج لگانے کے لیے نصب کیے گئے تین انتہائی حساس سسٹمز کے منتظم ہیں۔
بلیک ہول کیا ہوتا ہے؟
- بلیک ہول خلا میں واقع ایسا خطہ ہوتا ہے جہاں مادہ انتہائی کثیف اور مرتکز حالت میں ہو۔
- یہاں کششِ ثقل اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ روشنی تک اس کی گرفت سے نہیں نکل سکتی۔
- بلیک ہولز دراصل بڑے ستاروں کے دھماکہ خیز خاتمے کے باعث وجود میں آتے ہیں۔
- تاہم ان میں سے کچھ حجم میں انتہائی بڑے ہوتے ہیں اور ان کی کمیت ہمارے سورج سے اربوں گنا زیادہ ہوتی ہے۔
- یہ دیو ہیکل بلیک ہولز عام طور پر کہکشاں کے بیچ میں پائے جاتے ہیں اور یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ کیسے وجود میں آئے۔
- بلیک ہولز کی کھوج ان کے اپنے اطراف پر اثر انداز ہونے سے لگائی جاتی ہے۔
- یہ جب ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں تو یہ کششِ ثقل کی قابلِ مشاہدہ لہریں پیدا کرتے ہیں۔
لیگو اور ورگو کی جانب سے استعمال ہونے والے لیزر انٹرفیرومیٹر آلے خلا میں پیدا ہونے والے اُس ارتعاش کو ‘سنتے’ ہیں جو کسی تباہ کن کائناتی واقعے کے باعث پیدا ہوتا ہے۔
21 مئی 2019 کو ان تمام آلوں کو ایک ایسے طاقتور سنگل نے جھنجھوڑا جو ایک سیکنڈ کے صرف دسویں حصے تک ریکارڈ کیا گیا۔
کمپیوٹر الگورتھم کے ذریعے پایا گیا کہ یہ سگنل دو بلیک ہولز کے انضمام کے آخری لمحات سے پیدا ہوا تھا۔ ان میں سے ایک بلیک ہول کی کمیت سورج سے 66 گنا زیادہ تھی جبکہ دوسرے کی 85 گنا۔
اس انضمام کا زمین سے فاصلہ 150 بلین ٹریلین کلومیٹر ریکارڈ کیا گیا۔
فرانس میں کوٹ ڈازور رصد گاہ میں کام کرنے والے پروفیسر نیلسن کرسٹینسن کہتے ہیں کہ ‘یہ ایک حیرت انگیز واقعہ تھا۔ یہ سگنل سات ارب سال تک سفر کرتا رہا یعنی یہ واقعہ کائنات کے قیام کے وسط سے تھوڑا پہلے ہوا اور اس نے اب زمین پر ہمارے آلوں کو ہلایا ہے۔
کشش ثقل کی لہریں: سپیس ٹائم میں ارتعاش
- البرٹ آئین سٹائن کا نظریہ اضافت یعنی تھیوری آف ریلیٹویٹی کشش ثقل کی لہروں کی پیش گوئی کرتا ہے۔
- ان لہروں کا جائزہ لینے یا ان کی کھوج لگانے والی ٹیکنالوجی بنانے میں دہائیاں لگیں۔
- یہ لہریں سپیس ٹائم میں پیدا ہونے والا وہ ارتعاش ہوتی ہیں جو دھماکہ خیز واقعات کے باعث ہوتا ہے
- تیز رفتار ہوتا ہوا مادہ ایسی لہروں کو جنم دیتا ہے جو روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔
- تاہم ان میں سے زمین پر موجود آلے صرف ایسی لہروں کو پکڑ سکتے ہیں جو بلیک ہولز کے انضمام یا نیوٹرون ستاروں سے پیدا ہوتی ہوں
لیگو ورگو آلات انگریزی حرف ایل کی صورت میں موجود لمبی سرنگوں میں لیزر فائر کرتے ہیں۔ کشش ثقل کی لہریں اس روشنی کو مضطرب کرتی ہیں۔
ان لہروں کا پتا لگانے سے ہم کائنات کا نئے انداز میں جائزہ لے سکتے ہیں۔
اس تصادم میں سورج سے 85 گنا زیادہ کمیت کے حامل جسم کی موجودگی نے سائنسدانوں کو حیرت زدہ کردیا ہے کیونکہ ستاروں کے اختتام سے بلیک ہولز کی پیدائش کی ہماری موجودہ فہم اتنے بڑے اجسام کی وضاحت نہیں کر سکتی۔
خاصے بڑے حجم کے ستاروں میں جب جوہری ایندھن ختم ہو جاتا ہے تو ان کا مرکزی حصے اپنے ہی اوپر منہدم ہوجاتا ہے جس کے باعث بلیک ہول وجود میں آتا ہے۔ تاہم سائنسدانوں کے نزدیک ستاروں کے اندر جو فزکس قابلِ عمل ہوتی ہے، اس کے مطابق کسی ایسے ستارے میں جو سورج سے 65 سے 120 گنا بڑا ہو یہ عمل ہونا ناممکن ہے۔ ختم ہوتے ہوئے ستارے جو بلیک ہولز کو جنم دیتے ہیں، درحقیقت خود کو مکمل طور پر ختم کر لیتے ہیں اور ان کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔
اگر سائنس اس نقطے پر درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج سے 85 گنا وزنی بلیک ہول دراصل اس سے پہلے بلیک ہولز کے ممکنہ انضمام کے باعث وجود میں آیا ہوگا۔
اور برطانیہ کی گلاسگو یونیورسٹی کے پروفیسر مارٹن ہینڈری کا ماننا ہے کہ اس سے یہ کلیہ مل سکتا ہے کہ کائنات کا ارتقا کیسے ہوا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم یہاں ایک کے بعد ایک انضمام کی بات کر رہے ہیں جس سے ممکنہ طور پر بڑے سے بڑے بلیک ہولز بنے۔ تو کیا پتا کہ سورج سے 142 گنا وزنی اس بلیک ہول کا انضمام کسی اور انتہائی بڑے بلیک ہول سے ہو گیا ہو۔ ہمارے خیال میں بڑے سے بڑے بلیک ہولز کی تخلیق کا مرحلہ کہکشاؤں کے عین وسط میں موجود انتہائی بڑے بلیک ہولز پر ہی ختم ہوتا ہے۔‘
لیگو ورگو 21 مئی 2019 کو ہونے والے واقعے (جسے جی ڈبلیو 190521 کے نام سے محفوظ کیا گیا ہے) کو دو تحقیقی مقالوں کے ذریعے رپورٹ کرے گا۔
ان میں سے ایک تحقیق فزیکل ریویو لیٹرز نامی جریدے میں شائع ہوئی جس میں اس دریافت کی تفصیلات بیان کی گئیں۔ دوسری تحقیق دی ایسٹروفزیکل جرنل لیٹرز میں شائع کی گئی ہے جس میں سگنل کی مادی خصوصیات اور اس کے سائنسی مضمرات پر بحث کی گئی ہے۔
جی ڈبلیو 190521 ان 50 کشش ثقل کی لہروں کا ذریعہ بننے والے ان 50 واقعات میں سے ہے جن پر لیزر لیبارٹریز میں تحقیق کی جا رہی ہے۔
اس اشتراک کی جانب سے سنہ 2015 میں کششِ ثقل کی چند لہروں کا پہلی مرتبہ پتا لگانے کے بعد نوبل انعام جیتنے سے اس شعبے میں تحقیق کی رفتار میں تیزی آئی ہے۔
پروفیسر ایلیسانڈرا بوئونانو میکس پلینک انسٹیٹیوٹ برائے گریویٹیشنل فزکس کی ڈائریکٹر ہیں۔ انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ‘ہم ان آلوں کی حساسیت بڑھا رہے ہیں اور ہاں ہم اس کے باعث ایک دن میں ایک سے زیادہ سگنل پکڑ سکیں گے۔ ہم بلیک ہولز کی ایک بڑی تعداد کی نشاندہی کر سکیں گے۔ تاہم یہ انتہائی خوبصورت ہوگا کیونکہ ہم ان کے بارے میں بہت کچھ جان پائیں گے۔’
یہ نظام کام کیسے کرتا ہے؟
- ایک لیزر کو مشین میں بھیجا جاتا ہے اور اس کی شعاع کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے
- یہ بٹی ہوئی شعاعیں نم شدہ آئینوں سے ٹکراتے ہوئے مختلف سمتوں میں جاتے ہیں
- آخر کار یہ شعاعیں دوبارہ مل جاتی ہیں اور پھر انھیں ایک ڈیٹیکٹر میں بھیجا جاتا ہے
- کشش ثقل کی لہریں جو لیبارٹری سے گزرتی ہیں وہ اس نظام کو مضطرب کرتی ہیں
- نظریہ یہ ہے کہ ان لہروں کی وجہ سے روشنی کی ان شعاعوں کو پھیلنا اور سکڑنا چاہیے
- اس سے روشنی کی شعاعوں کی لمبائی میں فرق پیدا ہونا چاہیے
- فوٹو ڈیٹیکٹر ان شعاعوں میں آنے والی اس تبدیلی کو جانچ لیتا ہے