پاکستانی معاشرت اور خواتین
پاکستانی معاشرت میں خواتین کی عملی صورتحال یا مسلم معاشرے میں عورت کی عملی صورتحال ایک جاندار اور جان لیوا موضوع ہے۔ المناکیوں اور عظمتوں کی آمیزشوں سے تیار شدہ ایک ایسی تاریخ جس پر فخر کے ساتھ ساتھ شرمندگی اور دکھ کی جڑتوں کو ایک لحظے کے لئے بھی علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، مسلم معاشرے میں عملاً عورت کی صورتحال، کالم اس کی تفصیل یا اجمال کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ فی الحال بہتر ہوگا ہم خود کو پاکستانی معاشرت میں عورت کے حالات کو زیرِ بحث لا کر اُن لوگوں یا اداروں کو تقویت دینے والوں میں شامل ہوں جو عورت کا ’’اصل مقام‘‘ بحال کرنے کی تاریخ ساز جدوجہد میں مصروف ہیں۔
مقامی معاصر کے ایک کالم نگار نے وزارتِ انسانی حقوق کی ایک رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ’’وزارتِ انسانی حقوق نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ جنوری 2011سے 2017تک خواتین پر تشدد سے متعلق 51ہزار 241کیس رجسٹر کیے گئے۔ وزارت کو صوبائی محکمہ پولیس سے موصول ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خواتین پر تشدد کے 2011ء میں 8ہزار 418، 2012ء میں 8ہزار 845، 2013ء میں 7ہزار 573، 2014ء میں 7ہزار 741، 2015ء میں 6ہزار 527، 2016ء میں 8ہزار 13اور 2017ء کے دوران 4ہزار 66کیسز سامنے آئے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق اِن شکایات میں خواتین پر گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل، جلانا، جنسی زیادتی، کام کرنے کی جگہوں پر ہراساں کرنے سمیت دیگر جرائم شامل ہیں۔ یہ دو سال پہلے کے اعداد و شمار ہیں، اس سے بھی تلخ نتائج 2018میں سامنے آئے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 2018پاکستانی عورتوں کیلئے مزید غیر محفوظ ہونے کا سال تھا۔ پاکستان میں عورت کی صورتحال کے ارتقائی نتائج نکالنے سے پہلے اس دردناک مسئلے کا ماضی کے آئینے میں مزید ریکارڈ پہ لانا بہتر ہو گا۔
2003کا واقعہ ہے! پاکستان پیپلز پارٹی کے اس وقت کے صوبائی رکن اسمبلی نثار کھوڑو کے مشورے سے سینیٹر اقبال حیدر ایڈووکیٹ نے خواتین کے حقوق پر ایک مسودہ تیار کیا جس میں کہا گیا تھا (ا) یہ ایوان خواتین کے خلاف تشدد میں تیزی نہ رکنے کے سلسلے پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے اور غیرت کے نام پر کاروکاری، سیاہ کاری یا کسی دوسرے بہانے کی بنا پر خواتین کے قتل کی مذمت کرتا ہے۔ یہ ایوان حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ (اے) قتل کے اس طرح کے واقعات میں مجرموں کی گرفتاری اور ایف آئی آر کے فوری اندراج کو یقینی بنایا جائے۔ ناکامی کی صورت میں متعلقہ پولیس افسر کو اس طرح کے جرائم میں اعانت کرنے اور حوصلہ افزائی کرنے کا مجرم ٹھہرایا جائے اور اُسے ملازمت سے برطرف کر دیا جائے۔ (بی) قتل کے اس طرح کے مقدمات کی تیز تر سماعت کو یقینی بنایا جائے اور مجرموں کو شدید مثالی سزائیں دی جائیں۔ (سی) اس بات کی یقین دہانی کروائی جائے کہ غیرت کے نام پر کاروکاری سیاہ کاری یا کسی دوسرے بہانے کی بنیاد پر خواتین کا قتل ناقابلِ مصالحت جرم بنایا جائے گا تاکہ خاندان کی سطح پر مفاہمت کے ذریعے مجرم کو رعایت یا معافی نہ ملے۔ (ڈی) اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ غیرت کے نام پر قتل کے بعد تصفیے کی صورت میں خواتین کو زرِ تلافی کے طور پر استعمال نہیں کیا جا رہا نہ ہی اُنہیں ہرجانے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ انسانی جسم کی غیر قانونی خرید و فروخت کے برابر ہے اور تعزیراتِ پاکستان کی رُو سے جرم ہے، اس جرم میں ملوث مجرموں کو گرفتار کیا جانا چاہئے، اُن پر مقدمہ چلایا جانا چاہئے اور قانون کے مطابق اُنہیں سزا دینی چاہئے۔ (ای) اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ فوجداری انصاف کے نظام کے تمام اجزا سے پولیس، مدعی، ضلعی مجسٹریٹ، میڈیکو لیگل کے عملہ، کو آگاہی حاصل ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ غیرت کے نام پر قتل اور گھریلو تشدد سے متعلق قانون سازی بارے انہیں مکمل معلومات حاصل ہوں گی۔ (ایف) اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سول انتظامیہ کے سینئر افسران اور صوبائی و ضلعی سطح پر پولیس کے افسران غیرت کے نام پر قتل کے تمام واقعات کا نوٹس لیں، یہ کہ تمام واقعات کی مکمل طور پر تحقیق ہونی چاہئے اور جرم کا ارتکاب کرنے والے افراد کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے۔ حکومت کو ایک آزاد ادارہ تشکیل دینا چاہئے جو غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات بارے پولیس کی کارکردگی اور خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات اور تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کو مانیٹر کرے۔ (جی) اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تمام قسم کے تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات (جس میں گھریلو تشدد بھی شامل ہے) کو روکا جائے اور ان کا اس طرح موثر انداز میں سدباب کیا جائے کہ تمام مقدمات میں مجرموں کو فوری گرفتار کیا جائے اور انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے۔2003کی سندھ اسمبلی کے رکن نثار کھوڑو صاحب کے مشورے سے اس وقت کے سینیٹر اقبال حیدر نے یہ مسودہ اس لئے تیار کیا تھا تاکہ خواتین اراکین اسمبلی جہاں جہاں بھی ہیں، وہ اسے اپنی اسمبلیوں میں پیش کریں۔ نہیں معلوم اس پر عمل ہوا تھا یا نہیں اور 16برس قبل کا یہ مسودہ اگر خواتین اراکین اسمبلی نے اپنی اپنی اسمبلیوں میں جہاں جہاں وہ تھیں، پیش کیا بھی تب کیا ان 16برسوں میں اس کی کسی ایک شق پر معقول عمل درآمد کی آپ کو کبھی بھنک بھی پڑی؟ شائبہ بھی نظر آیا یا آج پاکستان میں عورتوں پر تشدد کے واقعات میں کسی نفسیاتی یا اخلاقی خوف نے اپنی جگہ بنائی؟ جواب نفی میں ہے، یہی سب سے بڑا سوال ہے؟ اس کا ایک لفظی عملی جواب ’’نہیں‘‘ میں ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں بلوچستان میں، 6خواتین کے ساتھ ایسا انسانیت سوز واقعہ روا رکھا گیا جس نے پورے ملک کو اضطراب میں مبتلا کر دیا۔ اس وقت بھی ایک سردار ٹائپ سینیٹر نے ان خواتین کے خلاف پوری دیدہ دلیری کے ساتھ گفتگو کی تھی، کہنے کا مقصد یہ ہے ہنوز دلّی دور است، مگر امید کا چراغ اس لئے بہت زیادہ روشن ہو چکا کہ اس معاملے میں اب دلّی اتنی دور بھی نہیں رہی۔