جنسی حملے کے ایک سزا یافتہ مجرم پر ان دو خواتین کے قتل کا الزام ثابت ہو گیا ہے جن کی لاشیں اس کے فریزر سے ملی تھیں۔ ہینریٹ سکس اور میریکین مصطفیٰ کی باقیات اپریل 2019 میں مشرقی لندن میں زاہد یونس کے فلیٹ سے ملی تھیں۔
سدک کراؤن کورٹ میں استغاثہ کے وکیلوں کا کہنا تھا کہ زاہد یونس کمزور خواتین کو اپنا شکار بناتا تھا اور ان پر شدید تشدد کرتا تھا۔
زاہد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اسے کم از کم 38 سال جیل میں گزارنے ہوں گے۔
چار ہفتے تک چلنے والے اس مقدمے کے دوران بتایا گیا کہ پولیس ملزم کو ڈھونڈتی ہوئی اس کے گھر پہنچی تھی کیونکہ پولیس کو ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی تھی جس میں ملزم کی خیریت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
جب پولیس گھر پہنچی تو زاہد گھر پر نہیں تھا جس کے بعد پولیس تالا توڑ کر گھر میں داخل ہوئی اور انھوں ایک فریزر پر مکھیاں بھنبھناتی ہوئی دکھائی دیں۔
‘لرزہ خیز’
32 برس کی ہینریٹ سکس کو، جن کا ابتدائی طور پر تعلق ہنگری سے تھا، آخری مرتبہ سنہ 2016 میں زندہ دیکھا گیا تھا۔ کورٹ کو بتایا گیا کہ اس کے کچھ ہی عرصے بعد انھیں ہلاک کر دیا گیا جس کے بعد ملزم نے اسی سال نومبر میں فریزر خریدا تھا۔
زاہد یونس کا دوسرا شکار 38 برس کی میریکین مصطفیٰ تھیں جن کے بارے میں آخری مرتبہ مئی 2018 تک معلومات تھیں۔
یہ دونوں اپنے حالات کے لحاظ سے کمزور خواتین تھیں جن کی زندگی افراتفری کا شکار تھی۔ بے گھر ہونا اور نشہ کرنا بھی ان کی بے ترتیب زندگی کا حصہ رہا تھا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ زاہد یونس نے ہینریٹ سکس کو قتل کرنے کے کچھ دیر بعد صرف لاش کو چھپانے کے مقصد سے فریزر خریدا۔
ان خواتین کی لاشوں کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ مرنے سے پہلے ان پر شدید تشدد کیا گیا تھا۔
دونوں کے جسموں کی کئی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ سکس کے سر میں گہرا گھاؤ تھا جبکہ میریکین مصطفیٰ کے سینے کی ہڈی اور نرخرہ ٹوٹا ہوا تھا۔
پولیس کے تفتیش کار سائمن ہارڈنگ نے بتایا کہ فریزر کو ایک اوزار سے کھولا گیا تا کہ یہ دیکھا جائے کہ اندر کیا ہے۔
‘پہلے تو فریزر میں ایک کی لاش نظر آئی لیکن جب فریزر کو جانچ کے لیے وہاں سے لے جایا گیا تو ایکس رے سے معلوم ہوا کہ لاش کے نیچے ایک اور لاش موجود ہے۔ یہ سب کے لیے ایک لرزہ خیز دریافت تھی۔’
سائمن ہارڈنگ نے ہینریٹ سکس کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ان کے پہلے بھی جس شخص سے تعلقات تھے وہ ان سے بدسلوکی کرتا تھا اور زاہد یونس نے اسی کا فائدہ اٹھایا۔
جس کے بعد ہینریٹ سکس زاہد کے گھر میں اس کے ساتھ رہنے لگیں۔
‘سکس کے خطوط بھی ملے ہیں جو انھوں نے زاہد کو لکھے ہیں۔ بدقسمتی سے اس کے لیے سکس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔’
عدالت کو بتایا گیا کہ زاہد یونس کو پہلے بھی اپنے پارٹنرز کو مارنے پیٹنے کی الزام میں سزائیں ہو چکی ہیں۔
بی بی سی کی تحقیقات میں اس کیس سے متعلق کی معاملات سامنے آئے ہیں۔
-سنہ 2002 میں ایک لڑکی نے پولیس کو بتایا کہ زاہد یونس نے اس پر ہتھوڑی اور سریے سے حملہ کیا۔ اس بارے میں کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔
-سنہ 2007 میں زاہد یونس کو نوجوان لڑکیوں سے متعلق 26 الزامات پر تحقیق کو روک دیا گیا۔ کیونکہ ایک متاثرہ لڑکی سے ملنے والے شواہدکے بعد جج نے جیوری سے کہا کہ زاہد یونس پر لگنے والے کئی الزامات سے انھیں بری کر دینا چاہیے۔
-سنہ 2008 میں ایک پلی ایگریمنٹ کے نتیجے میں ریپ اور جنسی حملے سمیت کئی الزامات سے بری کر دیا گیا۔
-سنہ 2016 میں ہینریٹ سکس کو ایک محفوظ مقام پر منتقل کیاگیا کیونکہ ایک شخص نے انھیں فلیٹ سے نیچے پھینک دیا تھا۔ اس شخص پر، جو زاہد یونس نہیں تھا، سکس ءکو ریپ کرنے کا الزام تھا اور وہ ضمانت پر رہا ہوا تھا۔ فروری 2015 میں جب پہلی مرتبہ ریپ کا الزام لگایا گیا تو اس وقت استغاثہ نے ریپ کا مقدمہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ جب سے زاہد یونس کے قبصے میں آئی تھیں ان کا پولیس سے رابطہ ختم ہو گیا تھا۔
-میریکین مصطفیٰ کی گمشدگی کے کیس میں پولیس نے فون ریکارڈ جیسے اہم شواہد کو نظر انداز کیا جن سے یہ معلوم ہو سکتا تھا کہ وہ یونس کے ساتھ رابطے میں تھیں۔ میریکین مصطفیٰ کے خاندان کی جانب سے شکایت درج کروائے جانے کے بعد پولیس کی ان خامیوں کی تحقیق ہو رہی ہے۔
یونس نے، جو باکسر نے نام سے مشہور ہے، قتل کے الزام سے انکار کیا ہے لیکن اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس نے ان خواتین کو فریزر میں ڈالا۔ اس نے دونوں خواتین کی قانونی اور باعزت تدفین نہ کرنے کے جرم کا اقرار کیا ہے۔
زاہد یونس کا دعوی ہے کہ جب سکس فوت ہوئی تو وہ گھر پر نہیں تھا اور بعد میں اس نے پولیس کو اس لیے نہیں مطلع کیا کیونکہ وہ گھبرا گیا تھا۔
جیوری کو بتایا گیا کہ زاہد نے سکس کی لاش کو فریزر میں رکھنے کے لیے ایک دوسرے شخص کی خدمات حاصل کیں جس نے بعد زاہد کو بلیک میل کیا۔
جب زاہد یونس کے خلاف فیصلہ سنایا جا رہا تھا تو اس نے کسی طرح کے جذبات کا اظہار نہیں کیا۔
میریکین مصطفیٰ کے خاندان نے تین ہفتے تک جاری رہنے والے مقدمے کی تمام سماعتوں میں شرکت کی اور فیصلے کے بعد خوشی کا اظہار کرتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیا۔