آج کل تقریبات کا یہ عالم ہے کہ ایک تقریب ختم ہونے کے قریب ہوتی ہے اور فوراً کوئی صاحب تیزی سے تشریف لاتے ہیں اور نئی تقریب کا کارڈ تھما دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک صاحب نے فون کرکے مجھ سے پوچھا کہ آپ کتنے بجے تشریف لائیں گے۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہاں؟ فخر سے بولے’آج رکشہ ڈرائیور ایسوسی ایشن‘ کی تقریبِ حلف برداری ہے اور آپ کو صاحبِ صدارت کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے اِس تقریب کیلئے مجھ سے پوچھا تھا؟ قہقہہ لگا کر بولے ’پوچھنے کی کیا ضرورت تھی، ہمیں پتا چلا تھا کہ آپ گھٹنوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں اس لیے کسی ایسی تقریب میں نہیں جاتے جہاں سیڑھیاں چڑھنا پڑیں لہٰذا ہم نے مقامی یونین کونسل کے اسکول گراؤنڈ میں تقریب رکھی ہے تاکہ آپ کو کوئی مسئلہ نہ ہو۔ اب تو کوئی اعتراض نہیں ناں؟‘۔سچی بات ہے مجھ سے اب تقریبات میں شمولیت مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ ساری زندگی دوست احباب کے ہمراہ تقریبات میں شرکت کی ہے، اب بھی ایسا ہی چاہتا ہوں لیکن گھٹنے ’چونگی‘ کی طرح درمیان میں آجاتے ہیں۔ اس کے باوجود جب مرزا یاسین بیگ نے پاکستان رائٹرز کونسل کے زیرِ اہتمام ہونے والی شامِ مزاح کیلئے ننکانہ آنے کی بات کی تو مجھ سے انکار نہیں ہو سکا۔ میرے لیے مرزا صاحب ایک پُراسرار شخصیت سے کم نہیں۔ یہ
شاندار ادبی تقریبات کرواتے ہیں لیکن آج تک کسی کو پتا نہیں چل سکا کہ تقریب کیلئے یہ پیسہ کہاں سے اکٹھا کرتے ہیں۔ مجھے اُن کی چار تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ ملتان میں گلِ نوخیز کے اعزاز میں شام، لاہور میں شامِ مزاح، سجاد جہانیہ کی کتاب کی تقریبِ رونمائی اور اب ننکانہ میں شامِ مزاح۔ یہ چاروں تقریبات مرزا یاسین بیگ کی ان تھک محنت اور خلوصِ نیت کا منہ بولتا ثبوت تھیں۔ ننکانہ جانے کیلئے لاہور سے ہمارا قافلہ تین گاڑیوں میں روانہ ہوا۔ میرے ساتھ مزاح نگار اور وکیل جناب شاہد ظہیر صاحب تھے۔ دوسری گاڑی میں گلِ نوخیز اختر، ناصر محمود ملک اور عاطف چوہدری جبکہ تیسری گاڑی میں حسین احمد شیرازی اور اشفاق احمد ورک، علی رضا احمد نے بھی ہمارے ساتھ جانا تھا لیکن وہ ایک شادی کی مصروفیت کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے۔ موٹر وے سے ننکانہ پہنچے تو انٹرچینج پر مرزا یاسین بیگ اور پاکستان رائٹرز کونسل کی ٹیم مزاح نگاروں کے استقبال کے لیے موجود تھی۔ یہاں ملتان سے آئے ہوئے نہایت شاندار ادیب اور کالم نگار سجاد جہانیہ بھی موجود تھے جن کے ساتھ ان کے دیرینہ دوست فیاض اعوان بھی تھے۔ افضل عاجز، محی الدین، الطاف احمد، کاشف علی نیئر، شفاعت علی مرزا، مہر شوکت علی، اکبر علی، اعجاز الحق، مدثر سبحانی، چوہدری محمد انور زاہد اور دیگر احباب کے ہمراہ یہ قافلہ ننکانہ کے ایک خالص گاؤں سے ہوتا ہوا اچانک رک گیا۔ پتا چلا کہ یہ رائے محمد خان ناصر کا امرودوں کا باغ ہے اور یہاں کچھ دیر کے لیے امرود کھائے جانے ہیں۔ رائے ناصر صاحب انتہائی درویش منش بندے ہیں۔ میرا خیال ہے آدھا ننکانہ ان کی ملکیت ہے لیکن اس کے باوجود حد سے زیادہ فقیرانہ طبیعت پائی ہے۔ پنجابی کے شاعر اور کہانی کار ہیں اور شاعروں ادیبوں کے لیے ہمیشہ دل کے دروازے کھلے رکھتے ہیں۔ لنچ کے بعد بتایا گیا کہ اب ہمیں بابا گرونانک کے گردوارہ جنم استھان کی سیر کے لیے لے جائے گا۔ یہاں پہنچے تو یہ سن کر کپکپکی چھڑ گئی کہ اتنی سخت سردی میں گردوارہ میں جانے کے لیے دروازے میں موجود ایک ٹھنڈے پانی کے تالاب سے گزر کر جانا ہوگا۔ میں گاڑی میں ہی دُبک گیا۔ شیرازی صاحب، اشفاق احمد ورک اور ناصر محمود ملک بھی اپنی ’بزرگی‘ کی وجہ سے یہ ایڈونچر نہ کرسکے البتہ نوخیز نے شاہد ظہیر صاحب کو قائل کرلیا کہ آپ تو سیدّ بندے ہیں آپ کو آگ اور ٹھنڈ بھلا کیا کہہ سکتی ہے۔ سو واپسی پر یہ حال تھا کہ شاہد ظہیر کا بس نہیں چل رہا تھا کہ پینٹ کے اندر بھی ہیٹر لگوا لیں۔ میری رائے میں موجودہ ڈپریشن کے دور میں مزاح بہت ضروری ہے۔ چند لمحوں کے لیے ہی سہی یہ معاش اور معاشرت کے ستائے ہوئے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں تو بکھیرتا ہے۔ اُس روز بھی مزاح نگاروں نے حاضرین کو خوب قہقہے لگوائے۔ افضل عاجز کی نظامت نے تو تقریب کو چار چاند لگا دیے۔ یہ وہ صاحب ہیں جنہوں نے عطاء اللّٰہ عیسیٰ خیلوی کے گائے ہوئے بے شمار سپرہٹ گانے لکھے ہیں۔ افضل عاجز اپنے نام ہی کی طرح عاجز ہیں اور میں جب بھی ان سے ملتا ہوں ان کے لہجے اور انداز میں ایک عجیب طرح کی انکساری محسوس کرتا ہوں۔ اس شام مزاح کی سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ مزاح نگاروں کی ساری کہکشاں نسبتاً ایک چھوٹے شہر میں موجود تھی۔ نثری شام مزاح کا آغاز میں نے الحمراء آرٹس کونسل لاہور کے دور میں کیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ سلسلہ اتنا پسند کیا جائے گا لیکن گل نوخیز اختر نے اس پر بہت محنت کی اور یوٹیوب چینل بنا کر مزاح نگاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی وڈیوز اِس آرکائیو کا حصہ بنائیں۔ الحمدللہ شعری مزاح کے ساتھ ساتھ اب نثری مزاح کی تقاریب بھی نہ صرف تواتر سے منعقد ہورہی ہیں بلکہ اس میں لوگوں کی دلچسپی بھی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ کاش دیگر نثری اصناف ادب کے لیے بھی ایسی ہی محنت کی جائے۔ رات گئے جب میں واپس لاہور پہنچا تو ٹھوکر نیاز بیگ سے کچھ دور پہلے موبائل پر کال موصول ہوئی۔ کوئی صاحب یہ خوشخبری سنا رہے تھے کہ ’انجمن ِ چرم فروشاں‘ کے یومِ تاسیس کے موقع پر اُنہوں نے مجھے تقریب کی صدارت کیلئے منتخب کیا ہے۔ میںنے بھی خوشی کی بھرپور کیفیت میں جھرجھری لے کر موبائل بند کر دیا۔