Site icon DUNYA PAKISTAN

سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کا صدر ٹرمپ سے فون پر رابطہ: آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں ہو سکتے‘

Share

متحدہ عرب امارات کے اسرائیل سے امن معاہدے کے بعد سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایک ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے جس میں اسرائیل، فلسطین تنازع پر بات ہوئی ہے۔

بی بی سی فارسی کے مطابق سلمان بن عبدالعزیز نے صدر ٹرمپ پر واضح کیا ہے کہ سعودی عرب کے اسرائیل سے تعلقات اس وقت تک معمول پر نہیں آئیں گے جب تک ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم نہ ہو جائے۔

سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق سعودی بادشاہ نے اتوار کو امریکی صدر سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب فلسطین کے مسئلے کا منصفانہ اور مستقل حل چاہتا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سعودی فرماروا کا اس موقع پر کہنا تھا کہ تنازع کے حل کی یہ شرط سعودی مملکت کے پیش کردہ عرب امن منصوبے کا نقطہ آغاز ہو گا۔

سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان فون پر یہ رابطہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے کہ جب گذشتہ ماہ متحدہ عرب امارات اسرائیل کو تسلیم کر کے اس سے سفارتی روابط قائم کرنے والا تیسرا عرب ملک بن گیا تھا۔ اس سے قبل مصر اور اُردن بھی اسرائیل سے ریاستی تعلقات قائم کر چکے ہیں۔

سعودی عرب کے شاہ نے صدر ٹرمپ کو آگاہ کیا کہ سعودی عرب امن کے لیے امریکی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔

دوسری طرف صدر ٹرمپ نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان پروازوں کے لیے سعودی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے پر سعودی عرب کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے خطے میں مسئلہ فلسطین کے حل اور امن کے حصول کی کاوش قرار دیا ہے۔

سعودی امن منصوبہ اور اسرائیل سے متعلق پیشکش

سعودی عرب نے سنہ 2002 میں عرب امن منصوبے کی تجویز دی تھی۔

اس منصوبے میں موجود پیشکش کے تحت اگر اسرائیل فلسطین کو ریاستی حیثیت دیتا ہے اور سنہ 1967 میں مشرق وسطیٰ کی جنگ میں قبضے میں لی گئی زمین سے مکمل انخلا کرتا ہے تو اس کے بدلے عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر آ سکتے ہیں۔

سعودی عرب نے تاحال اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ تاہم رواں ماہ اس نے اعلان کیا تھا کہ وہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان پروازوں کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے گا، چاہے یہ پروازیں اسرائیلی ایئر لائنز کی ہی کیوں نہ ہوں۔

وائٹ ہاؤس میں مشیر اور صدر ٹرمپ کے داماد جیریڈ کشنر کو امید ہے کہ آئندہ چند ماہ میں ایک اور عرب ملک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرے گا۔ متحدہ عرب امارات کے بعد ابھی تک کسی ملک نے ایسا نہیں کیا۔

جیریڈ کشنر گذشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کے دورے پر موجود تھے۔ اس کے بعد انھوں نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ فلسطین اور اسرائیل کے مابین مذاکرات جاری رکھنے کی ضرورت اور خطے میں مستقل امن سے متعلق بات چیت کی تھی۔

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدے پر فلسطین میں منفی ردعمل سامنے آیا تھا جبکہ پوری دنیا میں کئی مسلمان اکثریتی ممالک نے اس فیصلے پر اپنے خدشات ظاہر کیے تھے۔

متحدہ عرب امارات نے کہا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ اس معاہدے کا مقصد ایران کو جواب دینا نہیں ہے۔ متحدہ عرب امارات نے ترکی کی جانب سے بھی اس معاہدے پر تنقید کو مسترد کیا تھا۔

اسرائیل، متحدہ عرب امارات معاہدہ کیا ہے؟

معاہدہ کے تحت اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے وفود آپس میں ملاقات کر کے سرمایہ کاری، سیاحت، براہِ راست پروازوں، سلامتی، مواصلات، ٹیکنالوجی، توانائی، صحت، ثقافت، ماحولیات، سفارت خانوں کے قیام، اور باہمی فائدے کے دیگر معاملات پر دو طرفہ معاہدوں پر دستخط کریں گے۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’مشرقِ وسطیٰ کے دو سب سے متحرک معاشروں اور جدید معیشتوں کے درمیان براہِ راست تعلقات کے قائم ہونے سے معاشی ترقی ہو گی، ٹیکنالوجی میں نت نئی ایجادات ہوں گی اور عوام کے آپس میں تعلقات بہتر ہوں گے جس سے خطہ بدل جائے گا۔‘

اس کے علاوہ اسرائیل صدر ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مجوزہ امن منصوبے ’ویژن فار پیس‘ میں متعین کردہ علاقوں پر اپنی خود مختاری کا دعویٰ کرنا بھی روک دے گا۔

متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور انور گرگش نے خبر رساں ادارے بلومبرگ کو بتایا تھا کہ ’یہ معاہدہ ایران کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ متحدہ عرب امارات، اسرائیل اور امریکہ کے بارے میں ہے۔ اس کا مقصد ایران کے خلاف کسی بھی طرح سے گروپ بنانا نہیں ہے۔‘

ترکی کے صدر طیب اردوغان نے کہا تھا کہ ترکی متحدہ عرب امارات سے اپنے سفیر کو واپس بلا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ معاہدے سے فلسطینی عوام کے حقوق کو دھچکا لگا ہے۔

انور گرگش نے ترکی کے اس رویے پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ترکی کے تو اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں۔

مشترکہ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل ’اب دیگر عرب اور مسلم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات وسیع کرنے پر غور کرے گا‘ اور متحدہ عرب امارات اور امریکہ اس مقصد کے حصول کے لیے کام کریں گے۔

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل ’مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایک سٹریٹجک ایجنڈا‘ لانچ کرنے کے لیے بھی امریکہ کے ساتھ کام کریں گے۔ تینوں رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ ’خطے میں خطرات اور مواقع کے بارے میں مشترکہ نظریہ رکھتے ہیں، اور سفارتی تعلقات، زیادہ معاشی تعاون اور قریبی دفاعی تعلقات کے ذریعے استحکام کو فروغ دینے کا بھی مشترکہ عزم رکھتے ہیں۔‘

فلسطینی صدر محمود عباس کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ یہ معاہدہ ’غداری‘ ہے، جبکہ متحدہ عرب امارات فلسطین سے اپنا سفیر بھی واپس بلوا رہا ہے۔

Exit mobile version