لاہور کے ضلع کچہری کے نواحی علاقے ساندہ کی رہائشی چار بہنوں، سائبل سہیل، مریم سہیل، ٹوئنکل سہیل اور ویرونیکا سہیل نے 2018 میں دوبئی میں منعقدہ ایشین بینچ پریس چمپئین شپ میں ایک ساتھ شرکت اور مختلف میڈل جیت کر ایک منفرد ریکارڈ قائم کیا تھا۔
تاہم اس کا اعتراف ایشین پاور لیفٹنگ فیڈریشن نے گذشتہ ماہ پاکستان پاور لیفٹنگ فیڈریشن کے نام ایک خط کے ذریعے کیا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ ایشین پاور لیفٹنگ کی تاریخ میں بھی ایک منفرد ریکارڈ ہے۔
پاکستان پاور لفٹنگ فیڈریشن کے سیکرٹری راشد ملک کے مطابق پاکستان کی چار بہنوں کا یہ ریکارڈ ایشین پاورلفٹنگ فیڈریشن نے دو سال تک جاری رہنے والی تحقیق اور چھان بین کے بعد تسلیم کیا ہے۔
ایشین پاور لیفٹنگ فیڈریشن کا کہنا ہے کہ ’اس طرح کی منفرد کامیابی ملک کے لیے قابل فخر اور نئ نسل میں کھیلوں کے فروغ کے لیے معاون ثابت ہوتی ہے۔‘
خط میں حکومت سے سفارش کی گئی ہے کہ وہ ان چار بہنوں کی کامیابی کو بھرپور طریقے سے سراہے۔ نیز ’ایشین پاور لفٹنگ فیڈریشن ان کی مزید کامیابیوں کے لیے دعا گو اور مبارک باد پیش کرتی ہے۔‘
راشد ملک کے مطابق یہ ایک عالمی ریکارڈ بھی ہے اور اس سلسلے میں انٹرنیشنل پاور لفٹنگ فیڈریشن سے بھی رابطہ کیا گیا ہے جو اس پر تحقیق کررہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے سو فیصد امید ہے کہ بین الاقوامی ادارہ بھی بہت جلد اس ریکارڈ کو تسلیم کرلے گا۔‘
ایشین بینچ پریس چمپئین شپ 2018 کے دوران سائبل سہیل نے 47 کلو گرام کی کیٹگری میں تیسری پوزیشن حاصل کرکے کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔
مریم سہیل بھی 72 کلو گرام کی کیٹگری میں تیسری پوزیشن کے ساتھ کانسی کی حق دار ٹھہری تھیں۔
ٹوئنکل سہیل جونیئر کے مقابلوں میں 72 کلو گرام کی کیٹگری میں فاتح تھیں اور گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔
اسی طرح جونیئر کے مقابلوں میں ویرونیکا سہیل نے 47 کلو گرام کی کیٹگری میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔
منفرد ریکارڈ بنانے والی بہنیں کون ہیں؟
منفرد ریکارڈ قائم کرنے والے یہ بہنیں لاہور کے ضلع کچہری کی نواحی بستی ساندہ کی رہائشی ہیں۔ ان کے والد کا نام سہیل جاوید کھوکھر ہے۔ ان کے تین بیٹے بھی ہیں۔
پیشے کے لحاظ سے وہ مصور ہیں اور مختلف قسم کی پیٹنگ اور آرٹ ورک بناتے ہیں۔
سہیل کھوکھر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے بچپن میں کھیلوں کا بہت شوق تھا۔ میرا جنون تھا کہ میں کرکٹر بنوں گا۔ مگر میرے والدین نے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جس وجہ سے جب میرے بچے ہوئے تھے تو اس وقت میں نے اپنے پورے نہ ہونے والے خواب اپنے بچوں میں دیکھنے شروع کردیے تھے۔‘
انھوں نے اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بچپن ہی میں انھیں بتا دیا تھا کہ وہ جتنا اور جو کھیل چاہیں کھیلیں وہ ان کا ساتھ دیں گے۔
ان کا کہنا تھا: ’میں نے کم آمدنی کے باوجود بیٹیوں کی ضرورتیں پورا کرنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج انھوں نے پاکستان اور میرا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔‘
ریکارڈ قائم کرنے والی بہنوں میں سب سے بڑی بہن سائبل اس کے بعد مریم ، تیسرے نمبر پر ٹوئنکل اور سب سے چھوٹی ویرونیکا ہیں۔
ان بہنوں میں اب تک سب سے زیادہ کامیاب ایتھلیٹ ٹوئنکل ہیں۔ جنھوں نے تین بین الاقوامی اور دو قومی مقابلوں میں گولڈ میڈلز حاصل کیے ہیں۔
باقی تین بہنیں بھی ایک سے زیادہ بین الاقوامی مقابلوں میں میڈل حاصل کرنے کے علاوہ قومی چمپیئن شپ کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں۔
ان بہنوں نے کھیل کے ساتھ تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔
کامیابیوں کا آغاز کیسے ہوا
ان بہنوں کی بین الاقوامی کامیابیوں کے سفر کا آغاز 2015 میں اس وقت شروع ہوا جب ٹوئنکل سہیل کو اپنے پہلے بین الاقوامی مقابلے ہی میں فتح حاصل ہوئی۔
مسقط میں منعقد ہونے والے ایشین بینچ پریس چمپیئن شپ کے لیے ٹوئنکل اور سائبل کو پاکستان کی طرف سے منتخب کرلیا گیا تھا مگر حکومت کی جانب سے مدد نہ مل سکی۔
سہیل کھوکھر نے بتایا کہ ان کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ ان مقابلوں میں شریک دونوں بیٹیوں بھیج سکتے۔
انھوں نے بتایا کہ ’یہ زندگی کا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ کئی گھنٹے تک سوچنے کے بعد اپنا مکان گروی رکھوایا۔ مگر اس سے بھی صرف اتنے پیسے مل سکے تھے کہ دونوں بیٹیوں میں سے کسی ایک کو بھیج سکتا تھا۔
’دل پر پتھر رکھ کر اور سائبل کے آنسوؤں سے نظریں چراتے ہوئے پندرہ سالہ ٹوئنکل کو ساتھ لے کر مسقط پہنچ گیا جہاں ٹوئنکل نے تاریخ رقم کردی۔‘
ٹوئنکل سہیل نے بتایا کہ ’جب مقابلوں میں شریک ہوئی تو مجھے کچھ پتا نہیں تھا کہ میں کیا کررہی ہوں۔ کوچ کیا کہہ رہے ہیں۔ کیا ہورہا ہے۔ مجھے اگر کچھ یاد تھا تو صرف اتنا کہ میرے پاپا ہمیں خالص دودھ کا ملک شیک پلاتے تھے اور خود پانی پیتے تھے۔ میری مما ہم بہن بھائیوں کو بہترین کھانا کھلانے کے بعد بچا کھچا کھاتی تھیں۔‘
وہ کہتی ہیں، ’ہار کوئی آپشن نہیں تھا۔ مجھے اپنے ملک اور مما پاپا کے لیے جیتنا تھا جن کے لیے میں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر ناممکن کو ممکن کردیا تھا۔‘
سائبل سہیل کا کہنا تھا کہ ’مقابلے میں شریک نہ ہونے کا دکھ تو بہت ہوا تھا لیکن پاپا کے سامنے اس کا اظہار نہیں کرسکتی تھی۔ وہ پہلے ہی دکھی تھے اور مزید دکھے ہوتے۔ مگر جب بہن کی کامیابی کی خبر ملی تو یقین ہو چلا تھا کہ اب ہماری مشکلات زیادہ نہیں تو کچھ کم ضرور ہوں گی۔‘
سہیل کھوکھر کا کہنا تھا کہ 2016 میں منتخب ہونے کے باوجود بھی ان کی بیٹیاں منگولیا میں منعقدہ ایشین کلاسک پاور لفٹنگ چمپیئن شپ میں حصہ نہیں لے سکی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انھیں اس بات کا بہت دکھ ہے کہ غربت کی وجہ سے بہت ہی قیمتی مواقع گنوائے۔
انھوں نے بتایا کہ اس مقابلے کے بعد 2017، 2018 اور 2019 میں لاہور کے میئر، سپانسرز اور پاکستان پاور لیفٹنگ فیڈریشن کے تعاون سے انھوں نے بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیا اور کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
’طنزیہ نگاہیں اب تعریف کرتی ہیں‘
سائبل سہیل بتاتی ہیں کہ ’میرے اور مریم سے پہلے ٹوئنکل نے پاور لفٹنگ شروع کی تھی۔ میں اور مریم سائیکلنگ کے علاوہ دیگر ایتھلیٹکس کرتی تھیں۔ جب ٹوئنکل نے پاور لفٹنگ اور ویٹ لفٹنگ شروع کی تو پاپا نے پہلے تو گھر ہی پر تربیت دی مگر اس کا سامان بہت مہنگا اور کوچ کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
’جس کے بعد پاپا نے پاکستان پاور لفٹنگ فیڈریشن کے سیکرٹری راشد ملک کی مدد حاصل کی۔ جو پنجاب یونیورسٹی میں کوچنگ کررہے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا ’ہم لوگ جب دوبئی گئے تھے تو وہاں پر ہر ملک کے کھلاڑی بہترین فوڈ سپلیمنٹ خریدتے تھے لیکن ہم پاکستان میں فود سپلیمنٹ نہیں خرید سکتیں تو دوبئی میں کیا خریدتیں۔‘
سائبل سہیل کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ساتھ تو صورتحال یہ تھی کہ کبھی کبھار پاپا کا کام کم ہوتا تو ہمیں گھر سے یونیورسٹی تک پیدل جانا پڑتا تھا اور اس دوران لوگوں کی معنی خیز نظروں کا سامنا کرنا پڑتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے رشتہ دار اور محلے دار بھی باتیں بناتے تھے۔ کہتے تھے کہ دیکھو کوئی لڑکیوں والا کام اور کھیل کرو پاور لفٹنگ اور ویٹ لفٹنگ لڑکیوں کے کھیل نہیں ہیں۔ ہمارا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ مگر ہمیں پاپا اور مما کی مکمل مدد حاصل تھی جس بنا پر ہم بھی ڈٹ گئی تھیں کہ کچھ کرکے دکھانا ہے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں ’پھر جب ہم نے کرکے دکھایا اور ٹوئنکل نے پہلا بین الاقوامی اعزاز حاصل کیا تو ہمارے دادا جنھوں نے ہمارے پاپا کو کھیلنے کی اجازت نہیں دی تھی، وہ ٹوئنکل اور پاپا کو لینے خود ایئرپورٹ گئے۔‘
سائبل کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد ہمیں نہ صرف دادا کا تعاون حاصل ہوگیا تھا بلکہ طنزیہ نگاہیں بھی ختم ہوگئیں تھیں۔ جس پر ہمیں سمجھ آگیا کہ یہ دنیا صرف عملی کام اور کامیابیوں پر یقین رکھتی ہے اور ہم نے مزید محنت شروع کردی تھی۔‘
ویرونیکا سہیل کا کہنا تھا کہ ’جب میں نے کھیل شروع کیا تو اس سے پہلے میری تینوں بڑی بہنیں کافی کامیابیاں حاصل کرچکی تھیں جس وجہ سے مجھے اس رویہ کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ مجھے سکول میں بہت عزت دی جاتی تھی۔ میری ٹیچرز میری بہت حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔‘
جب دوبئی میں چاروں بہنیں ڈٹ گئیں
مریم سہیل کا کہنا تھا کہ ’2018 میں جب ہم لوگ دوبئی گے تو وہاں پر پہلا مقابلہ میرا تھا۔ آرگنائزر نے کہا کہ دیگر کھلاڑیوں کی طرح مجھے بھی شارٹس پہننا ہو گی۔ بہنیں بھی مقابلوں میں صرف شارٹس پہن کر ہی حصہ لے سکتی ہیں۔ ہمارے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔‘
’ہم پاکستانی ہیں۔ اپنی تہذیب اور تمدن سے کسی بھی صورت میں روگردانی نہیں کرسکتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس موقع پر ہم بہنوں نے نہ صرف یہ کہ شارٹس پہنے سے انکار کردیا تھا بلکہ ان سے یہ بھی کہا تھا کہ شارٹس پہنے بغیر ہی مقابلوں میں حصہ بھی لیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا ’بین الاقوامی مقابلوں میں ہمارا اصل مقابلہ انڈیا کے کھلاڑیوں سے ہوتا ہے جن کو کئی مرتبہ شکست دے چکی ہیں۔ مگر انڈیا کا دستہ ہمارے آفیشل کے ساتھ مل کر ہمارا مقدمہ لڑ رہا تھا۔ جس پر تمام شریک ممالک کے آفیشل بیٹھے اور انھوں نے قوانین کی جانچ پڑتال شروع کی۔ جس کے بعد ہمیں کہا گیا کہ ہم مکمل سوٹ پہنے مقابلوں میں شریک ہوسکتی ہیں۔‘
مریم سہیل کا کہنا تھا کہ ’یہ صورتحال جو کافی دیر تک جاری رہی تھی اس سے میری کارگردگی پر برا اثر پڑنے کے باوجود بھی میڈل ٹیبل پر کھڑا ہونے کے قابل ہوگئی تھی۔ اب ہم دنیا کے کسی بھی ملک میں مقابلوں میں شریک ہوں گی تو ہمیں شارٹس پہنے کو نہیں کہا جائے گا۔‘
پاکستان کا سافٹ امیج
راشد ملک کا کہنا تھا کہ سال 2017 میں بحثیت کوچ ٹوئنکل، مریم اور سائبل کو لے کر ہانک کانگ بین الاقوامی مقابلوں میں شریک ہوا تھا۔ جہاں پر تینوں بہنوں نے میڈل حاصل کیے تھے۔ انھوں نے فیورٹ انڈیا، نیوزی لینڈ اور آسڑیلیا کی کھلاڑیوں کو شکست دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ان مقابلوں کے دوران جب نیوزی لینڈ اور آسڑیلیا کے آفیشل اور کھلاڑیوں کو پتا چلا کہ پاکستان سے بھی خواتین کھلاڑی شریک ہیں تو وہ لوگ حیران و پریشان رہ گے۔ انھوں نے مجھ سے پوچھنا شروع کردیا کہ ہمیں شرکت کی اجازت کیسے ملی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کی خواتین کھلاڑی شریک ہورہی ہیں۔‘
جس پر انھیں بتایا کہ ’پاکستان میں خواتین بھی اپنے ملک کا نام روشن کررہی ہیں۔ ہر شعبے میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ جس پر انھوں نے خوشگوار حیرت کا اظہار کیا تھا۔ ‘
راشد ملک کا کہنا تھا کہ ’نیوزی لینڈ اور آسڑیلیا کے کھلاڑی اور آفیشلز ہمیں مقابلے میں شریک ہی نہیں سمجھ رہے تھے۔ جب مقابلے شروع ہوئے ان تینوں نے پرفارمنس دینی شروع کی تو سب بے اختیار کہہ اٹھے کہ ایسا ٹیلنٹ اور پرفارمنس کم ہی دیکھی ہے۔‘
بین الاقوامی اعزازت اور بیس ہزار روپیہ تنخواہ
ٹوئنکل اور سائبل اس وقت واپڈا کی جانب سے بھی کھیل رہی ہیں۔
ٹوئنکل کا کہنا تھا کہ ’دونوں بہنوں کو بیس بیس ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔ ہم اس پر بھی شکر ادا کررہی ہیں کہ کچھ تو مل رہا ہے۔ کچھ تو ہمارے والدین کا بوجھ کم ہورہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ’ہماری ضرورت، اچھی خوراک، فوڈ سپلیمنٹ اور جدید مشینری ہے جو ان پیسوں سے پورے نہیں ہوتی۔‘
سائبل کا کہنا تھا کہ ’جب 2018 میں ہم چاروں بہنیں دوبئی سے مختلف میڈل جیت کر آئیں تھیں تو ہمارے لیے پانچ لاکھ روپیہ انعام کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس میں سے بھی ہمیں صرف تین لاکھ روپے ہی ملے۔‘
سہیل کھوکھر کا کہنا تھا کہ ’ہمارے سپانسر کے علاوہ فیڈریشن اور کھیلوں کو چاہنے والے کچھ لوگ مدد کرتے ہیں۔ ابھی تک بیٹیوں کو وہ تعاون نہیں ملا جس کی وہ حق دار ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں سپورٹس بورڈ اور حکومت سے کہتا ہوں کہ ان کھیلوں پر خرچ کرو جس کے کھلاڑی ملک کے لیے میڈل جیت کر لاسکتے ہیں اور جو دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرسکتے ہیں۔‘
راشد ملک کا کہنا تھا کہ ’ہمیں پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے تعاون ملا حاصل ہوا ہے۔ جس بنا پر ان بہنوں اور دیگر کھلاڑیوں کی کوچنگ ممکن ہوسکی ہے۔ اب یونیورسٹی بند ہے تو چھ ماہ سے ہمارا کوچنگ سینٹر بھی بند ہے۔ جس بنا پر یہ بہنیں اور دیگر خواتین کھلاڑیوں کے لیے پریکٹس جاری رکھنا بھی دشوار ہوچکا ہے۔