اُس نے سیاست کرنی ہے تو اسے واپس تو آنا ہوگا، اُسے اچھی طرح سے علم ہے کہ اُس کا ووٹ بینک موجود ہے، اِس ووٹ بینک کو قائم رکھنا ہے تو اُس کے لئے قابلِ یقین بیانیے کی بھی ضرورت ہے۔ ووٹ بینک اُسی دن تک قائم رہتا ہے جس دن تک اُمید قائم رہے، اُمید ٹوٹ جائے تو ووٹ بینک بھی بکھر جاتا ہے۔ اُس نے اپنے ووٹر اور سپورٹر کو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ دیا اس کے بعد سے بیماری، بیرونِ ملک روانگی اور خاموشی کا لمبا وقفہ آ گیاہے۔
اب وقت ہے کہ وہ اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لئے خاموشی، بیماری اور بیرون ملک رہنے کا جواز دے۔ مخالف اس کی بیماری کو بہانہ بازی کہہ رہے ہیں، حکومت اور عدالت اُسے واپس بلا رہی ہے، ایسے میں چپ کا روزہ توڑنا ہوگا اور اگلے سیاسی اہداف طے کرنا ہوں گے، صاف لگتا ہے کہ وہ ابھی نہیں آئے گا، علاج کروائے گا، دل کا بائی پاس ہونا ہے اس کے مرحلے سے گزرے گا اور پھر سیاسی لائحہ عمل سوچے گا۔
ویسے بھی اسے کیا پڑی ہے کہ وہ واپس آئے، نہ تو کوئی تحریک چل رہی ہے، نہ الیکشن کا کوئی موسم ہے، نہ ملک کی سیاست میں تلاطم ہے، نہ حکومت اور ریاستی اداروں میں کسی خلیج کی کوئی خبر آ رہی ہے۔
مہنگائی، بیروزگاری اور بےچینی موجود ہے مگر ابال کی سطح پر نہیں، ایسا نظر نہیں آ رہا کہ لوگ گھروں سے باہر نکلنے والے ہیں۔ ایسے میں وہ کیوں نہ بےفکری سے لندن میں آرام کرے، علاج کروائے، اپنی یادداشت کھوتی ماں کے ساتھ وقت گزارے، موقع ملے تو ہائیڈ پارک میں سیر کرے، اہلِ خانہ کے ساتھ کافی پیے یا کھانے کھائے۔
وہ یہاں آتا ہے تو سیدھا جیل جائے گا، وہی عدالتوں اور حاضریوں کے چکر، وہی جزا و سزا کا معاملہ، پہلے بھی بیمار ہوا اور اس قدر شدید بیمار کہ حکومت کو خود اسے جیل سے نکال کر اسپتال داخل کروانا پڑا تھا، مشکل سے اس صورتحال سے جان چھوٹی تھی پھر سے کیوں اسی حال میں چلا جائے، وہ کیوں نہ انتظار کرے کہ حالات میں کچھ تبدیلی آئے، کوئی اختلاف پیدا ہو، سیاست میں گرمی آئے، عدالتی، انتظامی یا ریاستی عہدیداروں میں اس کے حق میں کوئی تبدیلی آجائے، فی الحال وہ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہے اور اسے یہی پالیسی سوٹ کرتی ہے۔
دریں اثنا پارک لین لندن کے 3فلیٹس کو 2فلیٹوں میں تبدیل کر دیا گیا، چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں مگر گزارہ ہو رہا ہے، حسن کا خاندان تو وہیں رہتا ہے حسین کی فیملی بھی آج کل وہیں مقیم ہے۔ ضرورت پڑنے پر اسی بلڈنگ کا ایک اور فلیٹ بھی کرائے پر لے لیا جاتا ہے، جگہ کم ہونے اور مہمان آنے پر بعض دفعہ گدے ڈال کر بھی کام چلایا جاتا ہے۔
لوگ اسے سادہ کہیں، بھولا سمجھیں یا اسے خوش نصیب قرار دیں، حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت گہرا ہے، ہر شخص سے سیاست پر مشورہ کرتا ہے مگر اپنے دل میں کیا ہے اس کا کسی کو معلوم نہیں ہونے دیتا۔ 1983سے لیکر 2020تک کے 37سال میں اس نے اپنے ووٹ بینک کو مسلسل بڑھایا ہے اور اپنی مقبولیت کو برقرار رکھا ہے، اسے اکنامکس کے پیچیدہ فارمولوں کا علم ہو نہ ہو، عوام کی خوشحالی کے فارمولے کا علم ہے۔
اسے انجینئرنگ کی ڈرائنگز کا علم ہو نہ ہو، تعمیرات اور سڑکوں کی اہمیت کا علم ہے۔ اسے علمِ سیاسیات کے ابواب سے آگاہی ہو نہ ہو یہ ضرور علم ہے کہ کب بولنا ہے اور کب سیاسی طور پر خاموش رہنا ہے۔
وہ کئی بار مشکلوں سے گزرا، پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل سیاسی طور پر خودکشی کے مترادف تھی مگر اس نے اسے حرمین شریفین میں بلائے جانے کے بیانیے میں ایسا ملفوف کیا کہ کئی سال تک جلاوطنی یا ڈیل کے درمیان فرق ہی محسوس نہ ہو سکا فی الحال بھی نواز شریف کی پُراسرار خاموشی کا سبب سراسر سیاسی مصلحت ہے، وہ زبان اسی وقت کھولے گا جب سیاسی موسم اسے سوٹ کرے گا۔
وہ پرانی وضع کا سیاست دان ہے، ٹھنڈا ٹھنڈا چلتا ہے مگر اس کی سیاست کی ٹائمنگ کمال کی ہے، وہ ٹائمنگ میں صرف ایک بار ’’چوکا‘‘ ہے جب تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد اس نے جے آئی ٹی کے پاس اپنی حاضری کو بلا تامل قبول کر لیا وگرنہ اس کے بیشتر سیاسی فیصلے چاہے جونیجو سے علیحدگی ہو، غلام اسحاق خان سے لڑائی ہو، فاروق لغاری کے خلاف امپیچمنٹ ہو، سب کی ٹائمنگ بہت اچھی تھی۔
اطلاع یہی ہے کہ وہ سیاسی حالات کا مسلسل جائزہ لیتا رہتا ہے، اسے علم ہے کہ لمبی خاموشی اور طویل وقفہ زیادہ دیر تک چل نہیں سکتا، اسے یا تو واپس آنا ہے یا بولنا ہے؟ وہ فی الحال واپس نہیں آ سکتا تو بیٹی اور بھائی کو تو متحرک کر سکتا ہے، فی الحال وہ بیٹی کے ذریعے مزاحمتی اور بھائی کے ذریعے مفاہمتی بیانیے کو جاری رکھے گا۔ سیاست کے فیصلہ کن موڑ پر وہ طے کرے گا کہ کونسا بیانیہ سوٹ کرتا ہے اورپھر اس بیانیے پر عمل کرے گا۔ اسے سیاسی مسئلے کے علاوہ وراثتی مسئلہ بھی درپیش ہے۔ وہ یہ تو فیصلہ کر چکا ہے یا پھر یہ فیصلہ خود بخود ہو گیا ہے کہ اس کے اپنے بچوں میں سے صرف مریم ہی سیاست کرے گی، حسین اور حسن نواز شریف فی الحال اپنے کاروبار ہی کریں گے۔
یہ بھی طے ہے کہ پارٹی کی صدارت شہباز شریف کے پاس رہے گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ مریم نواز اور حمزہ شہباز کی آپس میں سیاسی ایڈجسٹمنٹ کیسے ہو۔ شہباز شریف نے لندن میں میاں نواز شریف کو یہ معاملہ طے کرنے کو کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ فیملی سربراہ کے طور پر آپ جو بھی فیصلہ کریں گے وہ مجھے اور حمزہ دونوں کو سو فیصد قبول ہو گا۔ مریم نواز کو بھی اس مسئلے کا علم ہے اور وہ بھی حمزہ شہباز شریف کے ساتھ مل کر کام کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں کرتیں۔ دیکھیں میاں نواز شریف اس حوالے سے اب کیا فیصلہ کرتے ہیں اور کب کرتے ہیں؟
وہ سود و زیاں کو بخوبی جانتا ہے مگر سیاست کا یہ موڑ خطرناک ہے۔ ایک طرف کرپشن کے مقدمات، سزائیں اور جیل ہے دوسری طرف ریاستی اداروں سے قائم ڈیڈ لاک بھی جلدی ختم ہوتا نہیں نظر آتا۔ اسی طرح ستمبر اکتوبر میں آپریشن کے بعد زیادہ دیر بیرون ملک رہنا بھی سیاسی طور پر غیر سودمند ہوگا، واپس آتا ہے تو جیل، وہاں رہتا ہے تو اپنوں اور بیگانوں کے طعنےسننا پڑیں گے۔ اس مشکل صورتحال کا سامنا آپریشن کے بعد ہوگا دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ اس سے کیسے نکلتا ہے۔
آسان نسخہ تو یہ ہے کہ وہ لندن میں بیٹھے ہی بولنا شروع کر دے۔ یہیں سے سیاسی طور پر سرگرم ہو جائے مگر اس سے بھی کئی پیچیدگیاں توپیدا ہوں گی۔
وزیراعظم عمران خان نے جولائی تا دسمبر کے چھ ماہ کو اپنی حکومت کے لئے انتہائی اہم قرار دیا تھا، اپوزیشن کے لئے بھی یہ چھ ماہ بہت اہم ہیں۔ اپوزیشن کی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے اور صرف حکومت کی غلطیوں پر انحصار کرنے کی پالیسی فرسودہ ہوتی جا رہی ہے۔
ایک طرف تو اس چھ ماہ میں کچھ کرکے دکھانا حکومت کے لئے چیلنج ہے تو دوسری طرف اپوزیشن کے لئے بھی عملی طور پر متحرک ہو کر کچھ کر دکھانے کا وقت ہے۔ اگر صرف حکومت کی غلطیوں پر انحصار رہا تو اپوزیشن کا انتظار کافی لمبا بھی ہو سکتا ہے۔