دانشور کی آزمائش اور اقتدار کا بیوپار
ہم میں سے بہت کم ہوں گے جنہوں نے ولی مونزنبرگ (Willi Munzenberg) کا نام سن رکھا ہو۔ یہ نام پچھلے 35 برس سے ایک مسلسل فکری مخمصے کے طور پر درویش کے پیش نظر رہا ہے۔ آپ سے کوئی پردہ نہیں۔ زندگی ایک بہتا دریا ہے اور مختلف زمینوں اور منطقوں سے گزرتے ہوئے اس دریا کے رنگ غیرمحسوس طریقے سے بدلتے رہتے ہیں۔ آپ کے نیاز مند پر ایک دور اشتراکی فکر سے وابستگی کا بھی گزرا۔ واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا۔ اس مرحلے سے فلسفے اور تاریخ کی مادی تعبیر کا فیض اٹھایا۔ تہی دست انسانیت کے دکھ سے آگہی ملی۔ اور یہ کہ نظریاتی عصبیت کی نفسیات سمجھنے کا موقع ملا۔ دانش کا بنیادی منصب اپنی عصبیت سے اوپر اٹھ کر معروضی زاویہ نگاہ کی دریافت ہے۔ اپنے فکری میلانات کی تحقیق ایسی کٹھن آزمائش ہے کہ انسانوں کی اکثریت اس کی آنچ سے بچنے کے لئے ہجوم کے ساتھ ہو لیتی ہے۔ ایک لڑائی اپنے اندر برپا ہوتی ہے،ایک معرکہ خارج میں موجود حقیقتوں اور قوتوں سے درپیش ہوتا ہے۔
ہم جیسے تیسری دنیا کے باشندوں کو اشتراکی بندوبست کا براہ راست تجربہ تو خال خال ہی ہوتا تھا، بیشتر کو اشتراکی لٹریچر اور ثقافتی علامتوں سے واسطہ پڑتا تھا۔ کبھی پگواش امن تحریک کا ذکر رہتا، کبھی ہوچی منہ اور چے گویرا کی سرگزشت سے تحریک ملتی۔ گرامچی، ناظم حکمت اور فیض صاحب کی ثابت قدمی اندھیرے میں کوندے کی طرح راستہ دکھاتی تھی۔ سامراجی ہتھکنڈوں کی داستان اس تواتر سے سنی کہ کانگو کا لوممبا اور چلی کا الاندے گویا قریبی دوست معلوم ہوتے تھے۔
خود راستی کی اس خوش فہمی میں ولی مونزنبرگ کا نام ایک حیرت بن کر داخل ہوا۔ جرمنی میں پیدا ہونے والے یہ صاحب 1921ءسے دوسری عالمی جنگ تک یورپ اور امریکہ میں اشتراکی پراپیگنڈے اور دانشور حلقوں میں خفیہ سرگرمیوں کے نگران اعلیٰ تھے۔ انہیں لینن نے 1921ءمیں قائدانہ ذمہ داریوں کے لئے چنا تھا۔ اسٹالن کی تطہیری مہم سے برگشتہ ہوئے، مطعون اور معتوب ٹھہرے۔ ایک طرف جرمنی کی گسٹاپو ان کے تعاقب میں تھی، دوسری طرف اسٹالن کے گرگے ان کی تلاش میں تھے۔ جون 1940 میں سقوط پیرس کے بعد فرار ہوتے ہوئے ایک جنگل میں (غالباً سوویت ایجنٹوں کے ہاتھوں) قتل ہوئے۔
ولی مونزنبرگ کے بارے میں تفصیل سے جاننا ہو تو دو کتابیں دیکھیے۔ پہلی کتاب اسٹیفن کوک نے 1994ء میں لکھی، Double Lives: Stalin, Willi Munzenberg and the Seduction of the Intellectuals۔ دوسری کتاب شان میک میکن نے 2004 میں لکھی۔ The Red Millionaire: A Political Biography of Willi Münzenberg, Moscow’s Secret Propaganda Tsar. مونزنبرگ کا بنیادی کام ادیبوں اور دانشوروں کا غیر محسوس انداز میں استعمال کرنا تھا تاکہ سوویت یونین کے سیاسی مقاصد پورے ہو سکیں۔ ارنسٹ ہیمنگوے، آندرے ژید اور آندرے مارلو جیسے ادیب اس کے دام میں آ گئے۔ اس سوال کو ایک طرف رکھیں کہ ایسا راسخ نظریاتی شخص بھی پرولتاریہ کی آمریت میں گردن زدنی کیوں ٹھہرا۔ بنیادی سبق یہ ہے کہ دانش ور کو صداقت بیان کرتے ہوئے کسی ریاست یا مقتدر قوت کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچنا چاہیے،اس کا واحد راستہ لمحہ موجود میں درپیش بنیادی تضاد سے آنکھیں دوچار کرنا ہے۔
ایسا نہیں کہ ادب، آرٹ اور ثقافت کے نام پر صرف سوویت یونین ہی یہ کھیل رچا رہا تھا۔ آپ نے COINTELPRO کی اصطلاح بھلے نہ سنی ہو، یہ تو آپ جانتے ہیں کہ 50 اور 60 کی دہائیوں میں امریکی موقف کی تائید میں لاہور کے مکتبہ فرینکلن سے کیسے دھڑا دھڑ تراجم شائع ہوتے تھے۔ 70 کے دہائی کے آخر تک دانش کے یہی سرچشمے اچانک جہاد اور افغان شجاعت کے نقیب بن گئے۔ COINTELPRO دراصل Counter Intelligence Program کا مخفف تھا۔ امریکی ایف بی آئی کا یہ منصوبہ 1956 سے 80 کی دہائی تک جاری رہا۔ تفصیل دیکھنا ہو تو وارڈ چرچل اور جم وانڈر وال کی کتاب The COINTELPRO papers: documents from the FBI’s secret wars against domestic dissent دیکھیے۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ امریکی ریاست اپنے ہی ملک میں انسانی حقوق، ویتنام جنگ کے مخالفین، صنفی مساوات کے لئے سرگرم گروہوں اور سول رائٹس تحریک حتیٰ کہ ماحولیات کے تحفظ پر آواز اٹھانے والوں کو بھی دشمن تصور کرتے ہوئے نشانہ بناتی تھی۔ اگر آپ کو امریکا کی جمہوریت دوستی جاننا ہو تو کرسٹوفر مارٹن کی 2007 میں بننے والی دستاویزی فلم War on Democracy دیکھیے۔
ان حوالوں سے آپ کو بوجھوں مارنے کا ارادہ نہیں، ایک بنیادی حقیقت کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ پرانے زمانے کی سلطنت ہو یا آج کی قومی ریاست، بنیادی فریق صرف دو ہیں۔ سادھارن عوام اور اقتدار کا بیوپار۔ انسان رزق، علم، محبت اور امن چاہتے ہیں۔ اقتدار وسائل پر اختیار کا کھیل ہے جس میں تشدد، فریب اور ناانصافی کا سکہ چلتا ہے۔ دانشور کا المیہ یہ ہے کہ جب وہ ایک نوع کی ناانصافی بے نقاب کرتا ہے تو کہیں نہ کہیں اقتدار کا دیوتا اس سچائی کی آڑ میں اپنے جھوٹ پر پردہ ڈالنے کی تاک میں ہوتا ہے۔ 1940 سے 1944 تک نازی قابض افواج کی مزاحمت کرنے والا سارتر الجزائر پر فرانسیسی قبضے کی مذمت کرتا ہے تو خبطی بڈھا قرار پاتا ہے۔ اروندھتی رائے کشمیری ماؤں کا دکھ بیان کرتی ہے تو ان قوتوں کی مرغوب دانشور ٹھہرتی ہے جنہیں دنیا کے بہت سے حصوں میں مسلمانوں پر ہونے والا ظلم نظر نہیں آتا۔
دانشور کوئی فوق الفطرت مخلوق نہیں، گوشت پوست کے انسانوں کی آرزوئیں بیان کرنے والی آواز کو کہتے ہیں۔ یہ آواز اقتدار کے دیوتا کی بیعت نہیں کر سکتی۔ مشکل یہ ہے کہ کرہ ارض پر اقتدار کے بہت سے منطقے پائے جاتے ہیں۔ یہ منطقے غیر نامیاتی بندوبست ہیں اور کسی نظریے، حق یا انصاف کی بجائے صرف اقتدار کی رسہ کشی کا چوگان ہیں۔ قانون کے طالب علم کو پہلا سبق فطری اکائی ( فرد انسانی) اور غیر فطری اکائی (مثلاً تجارتی ادارہ، ریاست، محکمہ وغیرہ) میں فرق کا پڑھایا جاتا ہے۔ نظریات فرد کی خصوصیت ہیں۔ ریاست نظریاتی لبادہ اوڑھتی ہے تو دانش سے تصادم ناگزیر ہو جاتا ہے، خواہ اسے اینٹی فسطائی محاذ کہو یا ففتھ جنریشن وار، یہ مجادلہ دانش کی آزمائش بھی ہے اور اعزاز بھی۔